مزاجوں کا اک جہاں ہے آباد۔۔ اشفاق احمد

یہاں کل سے بارش اور دور کے پہاڑوں پر برف باری کا سلسلہ دوبارہ شروع ہے۔ ہمارا خطہ تو ہے ہی بارشوں اور برف کا مسکن۔ مجھے بارش اور برف سے اس قدر انسیت ہے کہ کبھی بھی اس سے طبیعت مکدر نہیں ہوئی ۔ بارش کی بوندوں کی موسیقی اور برفاب کے موسم کا سناٹا میرے لیے ہمیشہ دلفریب ہوتا ہے۔ لیکن یہ صرف میرے جیسوں کی حد تک ہے ،بہت سے لوگ گرمیوں کی آمد کی دعا مانگتے ہیں انہیں بس چمکتی دھوپ ہی بھاتی ہے۔

پہلے پہل مجھے حیرت ہوتی تھی کہ لوگ آخر وہ کچھ پسند کیوں نہیں کرتے جو مجھے پسند ہے مگر اب حیرت نہیں ہوتی کیونکہ اب پتہ چل گیا ہے کہ اس جہاں میں ہر شخص اپنی جداگانہ پسند نا پسند کی ایک طویل فہرست رکھتا ہے۔ ہر شخص کے اندر گویا ایک جہاں آباد ہے اور باہمی تعلق بھی گویا ایک جہاں کا دوسرے جہاں سے تعلق ہی ہے جس میں آپ کچھ چیزوں کا لطف لیتے ہیں۔ کچھ چیزوں کو قبول کرتے ہیں۔ کچھ باتوں سے صرفِ  نظر کرتے ہیں اور کچھ پر ردِعمل بھی دے ڈالتے ہیں۔ تعلق کی وسعت البتہ مزاجوں پر منحصر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک جیسے مزاج رکھنے والے ہی آپس میں خوش رہتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں  ،پیشہ ورانہ اور formal قدریں تو ایک ہی جیسے لوگوں کا تقاضا کرتی ہیں لیکن اس سفر میں یوں بھی تو ہوتا ہے کہ کبھی کبھی انسان تھک جاتا ہے اور سستانا ہی پڑتا ہے۔ کیا کھویا اور کیا پایا؟ اسکا جائزہ لینے کی ضرورت بھی پڑ جاتی ہے اکثر۔ تو یہاں پر پھر مخالف مزاجوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یکسر مخالف بھی نہیں بس اتنا ہو کہ دلچسپیاں مشترک لیکن مزاج مخالف ۔

کبھی سوچا؟ بولنے والے سننے والوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ سننے والے بولنے والوں کے ہاں سے لطف اٹھاتےہیں اور خاموش رہنے والوں کو تو دونوں کی حاجت رہتی ہے کہ ایک اسے باہر کی حقیقت بتاتا رہے اور دوسرا اسے کرید کر اس کے اندر کے طوفان کو نکلنے کا رستہ دیتا رہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یقین جانیے ہم میں سے ہر ایک کا جہانوں سے واسطہ ہے۔ ہمارے اپنے جہاں میں قرار کی طرف آنے والا رستہ بھی ہمارے آس پاس موجود لوگوں سے ہی ہو کر آتا ہے کہیں بھی ذرا سی روک ہمارے اندر تلاطم برپا کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے اور پھر ہم ردعمل کی نفسیات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مزاجوں کا اختلاف حقیقت ہے۔ اس حقیقت کو مان کر ہمیں ایک دوسرے کو اس کی رعایت دے دینی چاہیے صاحب کیونکہ بارہا ایسا ہوا ہے کہ جب بھی ہم اکتا کر اپنی ہی تلاش میں نکل پڑتے ہیں تو انہی “مخالفین” کو اپنا منتظر پاتے ہیں۔ ہے نا حیرت کی بات؟؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply