ہمارا سفر۔۔رزاق لغاری

انسان کی یہ  فطرت  ہے کہ وہ سوال پوچھتا ہے اور اس کا جواب دینے والا بھی انسان ہی ہوتا ہے تو کیا معاملہ ہے کہ انسان سوال بھی پوچھتا ہے اور جواب بھی دیتا ہے ان دونوں معاملات کا تعلق علم سے ہے۔
علم ہی سے سوال کا ذہن بنتا ہے اور علم ہی سے جواب کا ذہن بنتا ہے لیکن دونوں علوم میں ایک بنیادی فرق ہے سوال کا تعلق علم کی مزید حاصلات ہے اور جواب کا تعلق اس مزید علم تک پہنچ  جانا  ہے،لیکن جب جواب کے مقابلے میں سوال ابھرے تو وہ سوال شعور کا معاملہ ہے نہ کہ علم کا۔شعور وہ جگہ ہے جہاں سے علم کا گزر محتاط ہو جاتا ہے کیوں کہ شعور علم کی کسوٹی بھی ہے اور یہ سوال علم کے سفر سے شعور تک پہنچتا ہے اب اس کا جواب بھی شعور کے تحت ہونا چاہیے نہ کہ علم کے تحت جب انسان ان چیزوں کا لحاظ نہ کر پائے تو جو صورت حال بنتی ہے وہ ابہام  کی صورت ہے اور ابہام وہ جگہ ہے جہاں سے حاصلات کے سفر کی واپسی ہےآپ سفر وہاں سے شروع کرتے ہیں جہاں آپ ہیں جب ہمارے بڑے آگے جانے کے بدلے پیچھے کی طرف سفر کر کے جہاں ہمیں چھوڑ گئے ہیں ہمارا سفر پھر وہیں سے شروع ہوتا ہے۔ اب اگر آپ اسی ابہام میں گِھرے ہوئے ہیں تو آپ کا سفر پھر مزید پیچھے کی طرف ہے تو کیا آپ کو یہ ادراک نہیں کہ آنے والی نسلیں اپنا سفر مزید پیچھے سے شروع کریں گی اور یہ زیادہ ممکن ہے کہ ان کا سفر آپ کے مزید پیچھے کے سفر سے زیادہ پیچھے کا سفر ہو۔اس بارے میں جارج برنارڈ شا نے بڑی معقول بات کہی تھی جارج برنارڈ شا شیکسپیئر کے تقریباً دو سو سال بعد میں آیا تھا جارج برنارڈ شا نے کہا تھا کہ شیکسپیئر مجھے سے بڑے قد کا مالک تھا (رتبے کے لحاظ سے) لیکن میں شیکسپیئر کے کاندھوں پر کھڑا ہوں۔ یعنی شیکسپیئر نے انگریزی زبان کو جہاں پہنچایا تھا جارج برنارڈ شا کا سفر وہاں سے شروع ہوا اور وہ سفر اسی شعور کے ساتھ جاری ہے جو نہ صرف  جاری ہے بلکہ مزید آگے کی طرف جاری ہے۔ اب آپ سوال بھی کریں اور اس کا جواب بھی تلاش کریں جب نیل آرمسٹرانگ نے چاند پر پہنچ کر پہلا قدم رکھ کر جو پہلاجملہ  کہا تھا وہ یہ تھا کہ “یہ انسان کا ایک قدم ہے لیکن انسانیت کے لیے ایک بڑی چھلانگ ہے۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم کس ابہام کا شکار ہیں؟ ہمارا سفر کس طرف ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کریں ،وہ جواب علم سے ہونا چاہیے ،اگر اس جواب کے مقابلے پھر کوئی سوال اُبھرے تو پھر اپنے شعور کو آواز دے کر دیکھ لیں۔

Facebook Comments

رزاق لغاری
ایک عام انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply