ڈاکٹر مہرنگ بلوچ!سندھ کا اجرک قبول کیجیئے ۔۔ محمد خان داؤد

ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کو دیکھ کر مجھے سچل سرمست کا یہ مقولہ یاد آجاتا ہے جس میں سچل سرمست کا فقیر نمانو سچل سے عرض کرتا ہے
“سائیں کیسی گز ر رہی ہے؟”
تو سچل نمانو فقیر کے چہرے کو دیکھے بغیر جواب دیتا ہے کہ
“دردن دھون دکھایو!‘‘
میں بہت کوشش کر چکا ہوں پر  ان الفاظ میں وہ روح نہیں سما پایا جو روح اصل سندھی الفاظ میں ہے، میں سچل کے ان الفاظ کو اردو کے قالب میں ایسے بھی ڈھال سکتا ہوں کہتے ہیں کہ شاعری کو کسی اور زباں میں منتقل کرنا اتنا آسان نہیں پر میں یہ کہتا ہوں کہ درد کو کسی اور زبان میں منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ درد خود ہی بتا دیتا ہے کہ وہ درد ہے پر اگر زندہ جاوید درد ہو،زندہ جاوید ہو تو ایسے درد ایسے   کو کسی اور زباں میں کیسے ڈھالہ جا سکتا ہے؟
پھر بھی اگر میں کوشش کروں تو سچل کا وہ جواب،جو سچل نے نمانے فقیر کو دیا تھا اس کا حاصل مطلب یہی نکل سکتا ہے کہ
“دل میں ہزاروں سوراخ سجن کی یاد سے ہو گئے ہیں”

(یہ بات اردو میں ڈھل کے بے روح ہو گئی ہے جب کہ سندھی الفاظ آج بھی کہنے سے یا لکھنے سے ر واں رو اں کانپ جاتا ہے)

پر میں وہ روح کہاں سے لاؤں جس روح سے سچل کے یہ الفاظ زندہ ہیں اور ہر اس دکھی دل کو چھو جاتے ہیں جس دکھی دل کی ایسی حالت ہو جس حالت کے لیے بابا فرید نے فرمایا تھا کہ
“درداں دی ما ری دلڑی علیل اے”

سچل کے یہ الفاظ ہر اس آنکھ کو نم کر جا ئیں گے جس آنکھ نے درد کے آنسوؤں کا ذائقہ چکھا ہو
جس درد بھری آنکھ کے لیے بلھے شاہ نے فرمایا تھا کہ
“میری آنکھیں تو رونے کے بہانے تلاشتی ہیں
ایسے جیسے کسی درخت پہ بارش برس جائے
پھر بارش تھم جائے اور اس درخت پہ کوئی پرندہ آ بیٹھے
پھر وہ بیٹھا پرندہ اُڑنے لگے تو پھر اس درخت سے بارش شروع ہوجاتی ہے
میری آنکھیں تو رونے کے ایسے بہانے تلاش رہی ہیں
مجھے رونے کا بہانہ چاہیے”

پر سچل کی یہ بات
“دردن دھون دکھایو”
مجھے ڈاکٹر مہ رنگ دیکھ کر یاد آئی ہے جس کے سینے میں ویسے ہی ہزاروں سوراخ ہو چکے ہیں!
اس کی آنکھیں بلھے شاہ کی مانند رونے کو بے تاب ہیں
اس کا دل بابا فرید کے ان بولوں کا پتا پوچھتا ہے کہ
“درداں دی ماری دلڑی علیل اے”
اور خود ڈاکٹر مہ رنگ بلوچ کی اپنی ایسی حالت ہے جس کے لیے فرید نے فرمایا تھا کہ
“کملی کر کے چھوڈ گئے او
پئی کھک گلیاں  چے  رولاں”

ڈاکٹر مہ رنگ بلوچ کی زندگی میں دکھ کا عنصر زیادہ رہا ہے۔ڈاکٹر مہ رنگ جب بچی تھی جب بھی اس کے ہاتھوں میں بابا کی تصویر تھی اور وہ  سڑکوں  پر تھی اب جب وہ سمجھ بھری(شعوریافتہ)ہوچکی ہے جب بھی وہ  سڑکوں  پر ہے اور اب اس کے ہاتھوں میں بس اپنے بابا کی تصویر نہیں پر اب اس کے ہاتھوں میں درد کا پورا دفتر ہے جس دفتر میں یہ بات درج ہے کہ
کس پر کہاں کہاں
اور کیسے کیسے دردوں کے پہاڑ توڑے گئے
اور ان دردوں  کے دفترکو دیکھ کر ڈاکٹر مہ رنگ بلوچ ایسا ہی سمجھتی ہے جیسا ایاز محسوس کرتا تھا کہ
“جنھن تے بہ تھیو
جنھن وقت تھیو
سو مون تے ظلم تھیو آھے!
،،جس پر بھی ہوا
جہاں بھی ہوا
میں سمجھا یہ مجھ پہ ظلم ہوا ہے ،،

ڈاکٹر مہ رنگ بلوچ کی یہی کوشش رہی ہے کہ
،،جنھن جی بہ گردن جو طوق ٹٹو
مون ائین سمجھو
منھنجی گردن ہلکی تھی!،،
،،جس کی بھی گردن کا طوق ٹوٹا
میں نے یہ جانا
میری گردن ہلکی ہوئی ،،

اگر ایسے نہ ہوتا تو ڈاکٹر مہ رنگ بلوچ اکثر و بیشتر ان مسنگ پرسنز کے کیمپوں میں کیوں نظر آتی جہاں یا تو نظر آتا ہے ماما قدیر یا حوران بلوچ یا وہ مائیں جن کے چاند سے بیٹے گم ہوئے یا وہ بہنیں جن کے سروں کی چادریں گم ہوئیں یا وہ محبوبائیں جن کے پُنوں  لوٹے ہی نہیں!
ان اداس کیمپوں میں اور کون جاتا ہے؟
کوئی بلوچستان کا دانشور؟
کوئی بھولا بسرہ شاعر؟
کوئی سول سوسائٹی کا ممبر؟
کوئی سیاستدان؟
کوئی امیر کوئی کبیر؟
کوئی سیاسی،سماجی رہنما؟
کوئی جام،کوئی کمال؟
کوئی ڈاکٹر مالک،کوئی اختر جان مینگل؟
کوئی نہیں
ان اداس کیمپوں کی بھی حالت ایسی ہے جس کے لیے ایاز کے یہی الفاظ لکھے جا سکتے ہیں کہ
،،ڈینھن تتے جو بنجی سایو
کوبہ نہ آیو
کو بہ نہ آیو
کو بہ نہ آیو!،،
،،جلتے دن میں بن کر سایا
کوئی نہ آیا،کوئی نہ آیا،کوئی نہ آیا ،،

Advertisements
julia rana solicitors london

ان اداس کیمپوں کے پاس تو وہ بھی زیا دہ دیر نہیں رُکتے جن کی  جیبوں میں پریس کے کارڈ کسی سزا کی مانند پڑے ہو تے ہیں،ان اداس کیمپوں پر نہ تو کوئی شجرِ سایا دار ہے اور نہ ہی کوئی انسانی حقوق کے کسی چمپئین کا کوئی ہاتھ اگر کوئی ہے تو وہی جن کی آنکھیں رونے کو بے تاب اور جن کے دل ایسے جن دلوں کی ترجمانی سچل نے کہ
“دردن دھون دکھایو”
پر وہاں پر وہ ضرور نظر آتی ہے جسے  بلوچستان ڈاکٹر مہ رنگ بلوچ کے نام سے جانتا ہے۔
جس کے ہاتھ بلند ہیں
جس کے ہاتھوں میں بینر پمفلیٹ اور مائیک ہے
جو بات کرتی ہے اور بس بات کرتی ہے
جو دلیل سے بات کرتی ہے
جسے یار محمد رند گالی دیتا ہے
اور جام کمال سرکار بالوں سے گھسیٹتی ہے
وہ جس کے یوں گھسیٹے جانے پر بلوچستان بھر میں دکھ کی لہر دوڑ جا تی ہے
وہ جو اعلان ہے!
وہ جو باغی ہے!
وہ جو دانشور ہے
وہ جو اب دکھوں اور دردوں کی قیدیانی ہے!
وہ جسے سرکار خاموش کرانے کی ناکام کوشش کرتی ہے
وہ پھر سے بادل بن کر برسنا شروع کر دیتی ہے
وہ جو میت ہے
وہ جو رنگ ہے
وہ جو سب رنگ سانول ہے
وہ جو گیت ہے
جس گیت کو بلوچستان اپنے لبوں سے گانے میں فخر محسوس کرے گا!
ڈاکٹر مہ رنگ بلوچ!
بلوچستان کی سسی ہے
اور اس سسی کو اپنے پُنوں کی تلاش ہے
اور وہ پُنوں ایسا بلوچستان ہے
جس میں سب آزاد ہوں
سب
اسیروں سے لیکر
محبوباؤں تک
پہاڑوں سے لیکر
سمندر تک
جس آزادی میں
کوئی سی پیک کا ٹارچر سیل نہ ہو
جس میں سیندک کا کوئی عقوبت خانہ نہ ہو
جہاں نیلگوں پانی آزاد ہوں اور ساحل اتنے آزاد ہوں کہ وہاں پر چلتے پا نقش ہو جائیں
بلوچستان کی سسی ڈاکٹر مہ رنگ بس یہی چاہتی ہے
دھرتی
خوشبو
اور محبت آزاد ہو!
پر بلوچستان کی سسی کا دل ایسا ہے جس کے لیے سچل نے نمانو فقیر کو کہا تھا کہ
’’دردن دھون دکھایو!‘‘
اب جب بلوچ دھرتی پر دو بند تابوت پڑے ہیں اور کمال اپنی سرکار بچانے کی فکر میں ہے تو جب بھی کون بڑھ کر اس بوڑھے کا حوصلہ بنا ہے
مہ رنگ!
اے بلوچ دھرتی کی بیٹی
اے مہ رنگ
سندھ ماں کی جانب سے اجرک قبول کیجیے
اسے کاندھوں پر مت اُوڑھیے
اسے پرچم بنائیے
اور آگے بڑھیئے
سندھ تمہا رے ساتھ ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply