میں بھوکا ہوں۔ چوہدری نعیم احمد باجوہ

ہم ابھی اس علاقے میں نئے تھے، مقامی زبان کی سمجھ بوجھ نہیں تھی۔ ایک دن دروازے پر دستک ہوئی ۔ دروازہ کھولا تو دیکھا دس بچوں کا ایک گروہ دروازے پر کھڑا تھا ۔ وہ مقامی زبان بول رہے تھے ۔ مجھے ان کی زبان کا کوئی لفظ سمجھ نہیں آرہا تھا ۔لیکن جو حالت ان بچوں کی تھی اسکی ترجمانی کے لئے کسی زبان کی ضرورت نہیں تھی۔ زبان حال سے ہر بچہ یہ کہ رہا تھا کہ میں بھوکا ہوں۔ ساری کہانی ظاہر و باہر تھی بچے بھوکے تھے اور انہیں کھانا چاہئے تھا۔ معاشرے میں پھیلتی غربت ، والدین کی آمدنی کم اور بچے زیادہ۔ سرکاری طور پر ایسے بچوں کا کوئی پرسان حال نہ ہونا، مجبوراً ان بچوں کو گلی کوچوں میں بھیک مانگنے پر لے آیا تھا۔ ان سب کی عمریں پانچ سے دس سال کے درمیان ہوں گی ۔ فوری طور پران کوکچھ دیا لیکن ان کی ضرورت کہیں زیادہ کی تھی۔

بچوں کی حالت نے دل میں ایک تمنا جگا دی کہ کم از کم ان کو ایک دن پیٹ بھر کر کھانا کھلانا چاہئے۔ گھر میں جب بچوں سے بات کی تو چاروں بچوں نے بخوشی اپنے تحائف میں سے ایک مناسب رقم دے دی ۔ چنانچہ ایک دن ان سب بچوں کو بلایا ۔ ان کے کچھ اور ساتھی بھی آگئے اور تعداد تقریبا چالیس تک ہوگئی۔انہیں گھر میں باقاعدہ ترتیب سے بٹھا کر کھانے کے آداب بتانے اور کھانا کھلانے کی توفیق ملی ۔ کھانا کھا کر ان بچوں کے چہرے پر جو رونق اور خوشی کے جذبا ت تھے اس کا بیان ممکن نہیں ۔ یہ حقیقی خوشی تھی جسے ہم سب نے محسوس کیا ۔ ان شا ء اللہ   آئندہ مستقل یہ کوشش جاری رہے گی۔
میں نے دیکھا کہ بھوک کے باوجود کسی بچے نے بے صبری کا مظاہرہ نہیں کیا ۔جب انہیں کھانے کی اجازت دی گئی تو سب نے اپنے حصے کا کھانا آرام سے کھایا۔ ایک دانہ بھی ضائع نہیں کیا ۔ کوئی شور شرابہ نہیں ہوا۔ بچوں کو آرام سے کھانا کھاتے دیکھ کر مجھے یو ٹیوب پر دیکھی ہوئی ایک ویڈیو یاد آگئی جس میں کسی دینی اجتماع کے بعد کھانا کھانے کے لئے ’’دینی جماعت ‘‘ کے عاقل بالغ لوگوں کی دوڑیں لگ رہی ہیں ۔ہر ایک، دوسرے سے زیادہ اور جلدی کھانا حاصل کرنے کی کوشش میں تھا۔ چند منٹوں میں سارا انتظام درہم برہم ہو کر رہ گیا۔ لیکن ادھر ان معصوم بچوں کو جو پرندوں کی طرح روز کا کھانا روز تلاش کرنے نکلتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے صبر بھی زیادہ دے دیا ہے اور برداشت بھی بڑھ چکی ہے۔
کسی ضرورت مند کو کھانا کھلانے کا یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ۔ ا سکے بیان کا مقصدصرف اس احساس کو  بانٹنا  ہے جسے آپ اس میں سے گزر کر ہی حاصل کر سکتے ہیں۔ دوسرے اگر کسی ایک فرد کو بھی اس تحریر سے تحریک پیدا ہو جائے تو مقصد پورا ہو جائے گا۔ بے شمار لوگ روزانہ ضرورت مندوں کے کام آتے ہیں ، بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔لیکن اس سلسلے میں جتنا کام ساری دنیا مل کر کررہی ہے ضرورت اس سے کہیں زیادہ کی ہے۔ آج بھی بہت سارے لوگ کھانا کھائے بغیر سوتے ہیں ورلڈ فوڈ پروگرام  کے مطابق روزانہ 815 ملین لوگوں کو کچھ بھی کھانے کو نہیں ملتا۔ یعنی نو افراد میں سے ایک آدمی بھوکا رہتا ہے ۔بھوکے سونے کی تکلیف کا احساس ہمیں صرف اس تجربے سے گزر کر ہی ہو سکتا ہے۔ اگر کبھی ہمت ہو تو ٹرائی کر کے دیکھ لیں ساری کہانی سمجھ آجائے گی۔
تین میں سے ایک بچہ خوراک کی کمی کا شکار ہے۔ترقی پذیر ممالک میں ہر چھٹے بچے کا وزن اس کی عمر اور جسامت کے لحاظ سے کم ہے ۔ روزانہ پرائمری سکول کی عمر کے چھیاسٹھ ملین بچے ناشتے کیے بغیر سکول جاتے ہیں ۔ کیونکہ گھر میں کچھ کھانے کو میسر ہی نہیں۔پانچ سال سے کم عمر بچوں میں 129پنتالیس فیصد کی اموات کی وجہ خوراک کی کمی ہے ۔ اکیسویں صدی کے اس دور جدید میں ہو سکتا ہے کسی کے لئے یہ اعداد شمار حیران کن ہوں لیکن یہ آج کی دنیا ہے اوریہ حقیقت ہے۔ بلکہ بعض اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں بھوکوں کی اصل تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے ۔
جب ہم ان اعداد شما ر کو سنتے ہیں یا کہیں پڑھتے ہیں تو بعض اوقات سمجھتے ہیں کہ یہ دوردراز رہنے والے لوگ ہیں۔ ہمارے محلے اور شہر میں تو لوگ کھانا کھار ہے ہیں ۔شاید ہم پوری طرح اس بات کا ادراک نہیں کر پاتے اور ہماری سوچ اس طرف منتقل نہیں ہوتی کہ یہ بھوکے ضرورت مند لوگ ہمارے ہی اردگرد ہیں ۔ یہ سارے کے سارے دوردراز افریقہ کے جنگلوں یا مشرق و مغرب میں جنگ زدہ علاقوں میں نہیں ہیں۔ یہ ہمارے ہی بھائی بندے ہیں۔ ہمارے ہی ماحول میں رہتے ہیں ۔ ہمارے ہمسائے ہیں ۔ ہمارے ساتھ ہی گلی بازاروں میں چلتے پھرتے ہیں ۔کرہ ارض پر کوئی ایسا ملک نہیں جہاں یہ ضرورت مند پائے نہ جاتے ہوں ۔ ان میں سے کچھ دست سوال دراز کرتے ہیں تو کچھ خاموشی سے گھٹ گھٹ کر روزانہ تھوڑا تھوڑا مرتے رہتے ہیں ۔ میں نے پاکستان سے یورپ اور یورپ سے افریقہ تک لوگوں کو کوڑا کرکٹ اور گندگی کے ڈھیر میں سے رزق تلاش کر کے کھاتے دیکھا ہے۔
دنیا کی کوئی این ۔ جی۔ او، کوئی تنظیم کوئی حکومت اکیلے بھوک اور افلاس کے اس جن پر قابو نہیں پا سکتی۔ اگر ہم سب اپنے اپنے حصہ کا بوجھ اٹھا لیں اور روزانہ کم از کم صرف ایک ضرورت مند کو کھانا کھلا دیں ،  گھر میں روٹی پکاتے ہوئے ایک روٹی زائد بنالیں ۔سالن بناتے ہوئے شوربہ زیادہ کرلیں اور اسے مناسب طریق سے ضرورت مند تک پہنچا دیں کہ ہمارے آقا و مولیٰ ﷺ نے ہمیں یہی حکم دے رکھا ہے ۔( مسلم ۔حدیث نمبر6689) ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ریسٹورنٹ میں کھانا کھا کر بچا ہواکھانا پیک کروا لیں اور راستے میں کسی ضرورت مند کو دے دیں ۔ اگر گھر، ہوٹل اور ریسٹورنٹس میں ضائع کی جانے والی خوراک ڈسٹ بن میں ڈالنے کے بجائے ضرورت مند وں تک پہنچا دی جائے تو افلاس پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔کیا آپ کے علم میں ہے ایک تہائی خوراک ضائع کر دی جاتی ہے ۔ اور اگر اس ضائع کی جانے والی خوراک کا صرف چوتھا حصہ ضرورت مندوں تک پہنچا دیا جائے تو دنیا سے بھوک اور افلاس کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
مسلمانو ں کو تعلیم ہی یہ دی گئی تھی کہ اگر بہترین مسلمان بننا ہے توخدمت خلق کرو۔ آپ ﷺ نے فرمایا بہترین مسلمان وہ ہے جو سلام کو رواج دے اور اپنے دستر خوان کو وسیع کرے۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ۔ اطعموا لطعام و افشواالسلام ۔ یعنی کھانا کھلاؤ اور سلام کو رواج دو ۔ (ترمذی)
حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں :
نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت کا خیال رکھتا ہے ۔ اللہ ا سکی ضرورت کا خیال رکھتا ہے۔ او رجو شخص کسی کی تکلیف اور بے چینی کو ا س دنیا میں دور کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کی تکلیف اور بے چینی ا س سے دور کردے گا ۔( بخاری حدیث نمبر 2262 )
بھوکے مہمان کو کھانا کھلانے کے لئے دلچسپ انداز اختیار کرنے کا واقعہ صحابی رسول حضرت ابو طلحہؓ کا ہے۔ حضرت ابو طلحہ ؓ اور ان کی فیملی کواکثر مہمان نوازی کی سعادت ملا کرتی تھی ۔ اور وہ یہ ایثار اور قربانی دلی خوشی سے کیا کرتے تھے ۔ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے ہاں مہمان آیا ۔ اس نے کہا میں بھوکا ہوں ۔ آپ نے سب سے پہلے اپنے گھر ازواج مطہرات کے ہاں پیغام بھجوایا کہ مہمان نوازی کا کچھ انتظام کریں ۔ مگر حالات کی مجبوری کی وجہ سے کسی گھر میں بھی انتظام نہ ہو سکا ۔تورسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو تحریک فرمائی کہ کون اس مہمان کی تواضح کر سکتا ہے ۔ حضرت ابو طلحہؓ نے بخوشی حامی بھر لی او رگھر جا کر اپنی اہلیہ سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا مہمان ہے ا س کی ضیافت کریں ۔ انہوں نے کہا گھر میں کھانا تو صرف بچوں کے لئے ہے ۔ لیکن اس ایثار پیشہ میاں بیوی نے یہ تدبیر کی کہ بچوں کو بھوکا سلا دیا اورکھانا تیا رکر کے مہمان کو پیش کر دیا ۔ عین کھانے کے وقت گھر کی مالکہ چراغ درست کرنے کے بہانے اٹھیں اور اسے گل کر دیا تاکہ رسول اللہ ﷺ کا مہمان پیٹ بھر کر کھا لے ۔ اور اس طرح خود میزبان کھانے میں عملاً شریک نہ ہوئے ۔ مگر مہمان کے اعزاز اور اکرام کی خاطر یہی کرتے رہے کہ گویا وہ کھانے میں شریک ہیں خالی منہ ہلاتے مچاکے لیتے رہے ۔ خود رات فاقہ سے گزاری مگر مہمان کی خاطر داری میں فرق نہ آنے دیا ۔ صبح جب حضرت ابو طلحہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا رات مہمان کے ساتھ جو سلوک تم نے کیا خد اتعالیٰ بھی تمھاری یہ ادائیں دیکھ کر مسکرا رہا تھا ۔ اور تمھاری یہ ادائیں اسے بہت پسند آئیں ۔ (بخاری کتاب المناقب)
اگر ہم فضول خوشیوں اور بے معنی تقریبات میں سکون دل تلاش کرنے کے بجائے خدمت خلق کا کوئی کام کر لیں ۔ کسی ضرورت مند کی مدد کر دیں۔ اپنے ادرد گرد جائزہ لے لیں تو یقیناًہمیں ایسے لوگ مل جائیں گے جوبھوکے ہیں۔ جن کو ضرورت ہے۔ ایسے گھر مل جائیں گے جہاں ماں اپنے بچوں کو صرف دلاسہ دے کر سلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایسے بچے مل جائیں گے، جو ماں کا کلیجہ پھاڑ دینے والی بات ’’ماں مجھے بھوک لگی ہے ‘ کہہ رہے ہوں گے۔ بھوک ایسا مسئلہ ہے کہ ہمارے نبی ﷺ نے اس سے اللہ کی پناہ مانگی ہے اور اسے برا ساتھی قرار دیا ہے ۔ اللہ ہمیں اس برے ساتھی سے بچائے رکھے۔
آئیے اس کا ر خیر میں اپنے اپنے دائرے میں اپنی اپنی بساط کے مطابق حصہ لیں ۔ اپنے ارد گرد دائیں بائیں ،گھر،محلے ، شہر اور گاؤں میں ، چلتے پھرتے اور بازار میں، دوران سفر ان ضرورت مندوں کی مدد کر کے خدمت انسانیت کے جہاد کا حصہ بن جائیں ۔کاش ہم اس خوبصورت شعر کے مصداق بن جائیں۔
“مرا مقصود و مطلوب و تمنا خدمت خلق است
ہمیں کارم ہمی بارم ہمیں رسسم ہمیں راہم”
ہمارا مقصد حیات، ہمارا ٹارگٹ اور دلی تمنا خدمت خلق بن جائے۔اور پھر کسی گھر ، کسی فٹ پاتھ پر، کسی چوک اور چوراہے میں کوئی بھوکا نہ سوئے۔ایسا کریں تو پھر ہمیں بے معنی اورفضول خوشیوں کو ڈھونڈنے اور مارے مارے ان کے پیچھے بھاگنے کی بھی ضرورت نہ پڑے گی۔
اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی    آزما۔

 

 

Facebook Comments

چوہدری نعیم احمد باجوہ
محبت کے قبیلہ سے تعلق رکھنے والا راہ حق کا اایک فقیر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply