سید علی گیلانی کو کیا کرنا چاہیے ؟

سید علی گیلانی گولیوں کی گھن گرج میں پاکستان زندہ باد کہنے والے بزرگ کشمیری لیڈر ہیں ، کشمیری اُن کے نظریے سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن اُن کی محنت ، جدوجہد اور عزم کو سلام پیش کیے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ سید علی گیلانی نے کشمیر کمیٹی کے چئیرمین مولانا فضل الرحمان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے ۔ دیکھا جائے تو مولانا فضل الرحمان کی کارکردگی اجلاسوں تک ہی محدود ہے ، تاہم مجھے یہ تسلیم کرتے ہوئے بالکل بھی جھجک محسوس نہیں ہوتی کہ جب انتخابات کے دنوں میں مولانا ، عمران خان اور نواز شریف کشمیر آئے تو ایک طرف پانامہ ، ایک طرف میگا پراجیکٹس کی بات ہوئی اور دوسری طرف مسئلہ کشمیر پر مولانا کی آواز پلندری کے پہاڑوں سے ٹکراتی نظر آئی ۔ لیکن مولانا فضل الرحمان کشمیر کے مسئلے پر خاطر خواہ دلچسپی نہیں لے رہے اور اگر لینا بھی چاہیں تو وہ کچھ بھی نہیں کرسکتے ۔ میں سید علی گیلانی کے مطالبے کی حمایت کرتا ہوں ،ایک بزرگ کشمیری لیڈر کا مطالبہ حکومتِ پاکستان کو زیرِ غور لانا چاہیے ۔ لیکن مطالبات میں اگر سنجیدگی نہ ہو تو اُن کی حیثیت محض سیاسی بیان کی ہی رہ جاتی ہے ۔
کیا سید علی گیلانی اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ کشمیر کے معاملے پر کشمیر کمیٹی کی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہے ، پارلیمنٹری کمیٹی محض رائے ہی دے سکتی ہے ۔ اس کمیٹی میں مولانا کے حریف و حلیف دونوں جماعتوں کے لوگ ہیں ، وہ واقفِ حال ہیں وہ جانتے ہیں ۔ اصل پالیسی ساز اسٹیبلشمنٹ ، حکومت اور مجاہدین ہیں ۔ کیا یہ راز سید علی گیلانی کی نظروں سے پوشیدہ ہے کہ حکومتِ پاکستان کے ایک سرکاری ملازم کو آزادکشمیر کا صدر بنانے کے لیے قانون میں ترمیم کی گئی ، اور وہ شخص صدر بنا جس نے کبھی آزادکشمیر میں اپنا ووٹ بھی رجسٹر نہیں کرایا ۔آخر کون ہے جو کشمیریوں کی آزادی کا دشمن ہے ؟کیا سید علی گیلانی یہ نہیں جانتے کہ آزادکشمیر میں کشمیر بنے گا خود مختار کا نعرہ لگانا جرم ہے ،ا یسے کرنے والا شہری نہ سرکاری ملازمت کرسکتا ہے اور نہ انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے ۔ یہ پالیسی کِس کمیٹی کی بنائی ہوئی ہے ؟کیا سید علی گیلانی یہ بھی جانتے ہوں گے کہ آزادکشمیر کی سینیٹ ( کشمیر کونسل ) کا سربراہ کوئی کشمیری نہیں بن سکتا۔ کیا مسئلہ ِ کشمیر پر کشمیر کونسل نے کوئی کارکردگی دکھائی ؟ نہیں تو پھر اُس کے سربراہ نواز شریف کے استعفٰی کا مطالبہ کیوں نہیں ؟
سید علی گیلانی کے مطالبے کے بعد اخلاقی طور پر مولانا کو خود ہی کشمیر کمیٹی کی سربراہی سے الگ ہوجانا چاہیے ، لیکن سید علی گیلانی کو بھی اپنے مطالبات کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے کشمیر کونسل کے سربراہ نواز شریف ، آزاد کشمیر کے صدر و وزیرِ اعظم ، کشمیر کے نام پر قائم کردہ بے شمار تنظیموں ، متحدہ جہاد کونسل سمیت کئی جہادیوں سے اُن کی کارکردگی کا حساب مانگنا ہوگا ، اور خراب کارکردگی کی صورت میں اِن سب سے بھی استعفیٰ طلب کرنا ہوگا ، بصورت دیگر یہی سمجھا جائے گا کہ یہ بیانات محض شعبدہ بازی ہے ۔
اسلام آباد میں بیٹھے کشمیری حریت والوں کی باتوں میں آنے کی بجائے سید علی گیلانی کو پاکستان کے مقتدر ، پالیسی ساز اور بااختیار حلقوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرحقیقی مطالبات کرنے ہوں گے ، اور مولانا یا کسی اور بے اختیار کے استعفٰی سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا ۔
ریاست جموں و کشمیر اپنی محنت اور سرمائے سے 1500 میگاواٹ سے زائد بجلی پیدا کرتی ہے ، جبکہ ضرورت 320 میگاواٹ ہے لیکن آزادکشمیر کے وزیرِ اعظم کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ320 میگاواٹ بھی حاصل کرے ، کشمیر سے جڑی ہائی پروفائل شخصیات کتنی بے اختیار ہیں تو مولانا کے اختیارات کا عالم کیا ہوگا؟

Facebook Comments

اُسامہ بن نسیم
اُسامہ بن نسیم کیانی ۔ میں سول انجینئرنگ کا طالبِعلم ہوں، میرا تعلق آزادکشمیر سے ہیں ، کئی مقامی اخبارات اور ویب سائٹس کے لیے کالم نگاری کے علاوہ فیس بک پر مضامین بھی لکھتا ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply