ادبی محبت نامے(تبصرہ کتاب)۔۔۔احمد رضوان

 ڈاکٹر خالد سہیل کی ہمہ جہت اور متنوع شخصیت اپنی ذات میں ایک انجمن کا درجہ رکھتی ہے۔ انجمن بلاشبہ پنجابی فلم والی بھاری تن و توش سمجھ لیں  جو درختوں کے اردگرد گول گول گھوم کر گانا گاتے ہوئے ہیرو کی  بجائےتنے سے لپٹ کر  محبت کی پیام رسانی  کیا کرتی تھی۔ڈاکٹر خالد  سہیل صنفی امتیاز کے خلاف ہیں۔ کالوں کے حقوق پر” کالے ادیبوں کا ادب” کا ترجمہ کر ڈالا ۔بچوں سے زیادتی کرکے قتل کرنے والے مشہور کردار جاوید اقبال پر کتاب” سو بچوں کا قاتل” لکھ ڈالی ۔ادب کی کسی صنف میں بھی وہ کسی امتیاز کو درخور اعتناء نہیں سمجھتے۔لوگوں سے میل ملاقات اور مکالمہ کے لیے   “فیملی آف دا ہارٹ ورلڈ “نامی ایک تنظیم بنا رکھی ہے ،جس میں کتابوں کی رسم اجراء سے لے کر مختلف  النوع موضوعات  پرمباحث کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

ادب کی جس صنف پر آج کل ڈاکٹر صاحب کی نظر خاص ہے اس کا نام خطوط نویسی ہے ۔اس سلسلے میں وہ نسوانی خطوط پر بھی سوچ رہے ہیں۔انہیں لگتا ہے  کہ اس ادبی صنف کے ساتھ  سوتیلی اولاد جیسا سلوک روا رکھا  گیاہے ۔اور اب وہ اس صنف کے جائز حقوق دلانے کیلئے میدان میں اتر آئے ہیں ۔ اس سلسلے کا آغاز انہوں نے پچھلے سال” رابعہ الربا “کے ساتھ “درویشوں کا ڈیرہ “نامی کتاب لکھ کر کیا۔ اس کتاب میں انہوں نے درویش کا کردار نبھاتے ہوئے رابعہ الربا کو اپنے دور کی ولی رابعہ بصری سے متاثر ہو کر ان کے ساتھ زندگی کے ہر گوشے پر کھل کر بات چیت کی ۔رابعہ الربا  ڈاکٹر  صاحب کو خط لکھتیں، اپنے محسوسات و مشاہدات ڈاکٹر صاحب کو بزبان خط سناتیں اور ڈاکٹر صاحب ایک ماہر طبیب کی طرح ان کی مسیحائی کرتے، ان کے سوالوں کے جواب خط کے ذریعہ دیتے۔”چھیتی بوڑیں وے طبیبا “والا کوئی سین ہی نہیں تھاکہ جواب اسی وقت بذریعہ سوشل میڈیا ارسال کر دیا جاتا یوںتشنگی باقی نہ رہتی۔

اسی منفرد سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ڈاکٹر خالد سہیل نے چند مزید احباب کے ساتھ خط و کتابت کا ڈول ڈالا ۔ان کی تازہ ترین تخلیق “ادبی محبت نامے”  ان تمام احباب کے خطوط کا مجموعہ ہے جو ڈائیلاگ کی شکل میں ڈاکٹر صاحب کو بھیجے گئے ۔اس کتاب میں کل 26 مختلف   سوچ اور اپروچ  رکھنے والے لوگوں کے خطوط شامل کیے گئے ہیں۔ڈاکٹر خالد سہیل کے حلقہ احباب میں سے 19 خواتین اور پانچ مرد حضرات اس مجموعہءِ حاضرات و محاضرات کے حقدار ٹھہرے جن میں سے ایک یہ خاکسار بھی ہے ۔ گویا ہم موٹا موٹا حساب کریں تو خواتین اور مرد خطوط نگاروں کی تعداد میں ایک اور چار کی نسبت  ہے جیسے ہر مردِ مومن کو چار چار کی اجازت ہے ۔ اس نسبت تناسب کی وجہ کیا ہے یہ میرا ناقص ذہن  نہیں جان سکا مگر لگتا یہی  ہے کہ فیمنزم کی آواز مکے مدینے تک پہنچی ہو یا نہ ہو ڈاکٹر خالد سہیل کے کانوں تک ٹورنٹو میں ضرور پہنچی اور انہوں نے لبیک یا حبیبہ کہہ کر جواب دیا ۔بعض حاسدین یہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب حقوق انساں سے زیادہ حقوق نسواں کے حامی  ہیں۔  بڑی تعداد میں خواتین کی طرف سے ڈاکٹر صاحب کو خط لکھنے کی ایک اور توجیہہ کی جاسکتی ہے   کہ  ڈاکٹر صاحب  صنف مخالف میں مقبول  ہیں  اور خواتین بلاجھجک اپنے جذبات و احساسات کے اظہار کے لئے لیے ڈاکٹر صاحب کو ایک موزوں انسان سمجھتی ہیں۔ ان خطوط کو ادبی محبت نامہ یا دوسرے الفاظ میں سنبل نا مہ ،نوشی بٹ  یا نوید ِسحر نامہ بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ ان  خواتین کے خطوط کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔ان  خطوط کا  رنگ ادبی ہے اور ان کے بارے میں بات کرنا ذرا بھی بے ادبی  نہیں  ہے۔ڈاکٹر صاحب ادبی محبت ناموں میں لکھنے والے کو کھل کھیلنے کا موقع فراہم کرتے ہیں کہ کچھ اپنی کہو کچھ میری سنو،دل کرے تو جو مرضی کہو، ذاتی پھپھولے پھوڑو یا کسی سماجی مسئلے پر  گوہر افشانی کرو یہ کھلا میدان تمہارے  لئے.

خط میں لکھی ہے حقیقت دشت گردی کی اگر
نامہ بر جنگلی کبوتر کو بنانا چاہئے

خط لکھتے ہوئے لوگ کچھ گھبراتے ہیں شائد، کچھ بلند ہمت و حوصلہ لوگ جو اولوالعزمی کی بلند مچان پر پر جا بیٹھے  انہوں نے ایک سے زیادہ خطوط  لکھ کر اپنے اپنے احساسات و خیالات کا نکاس کیا اور اور اپنے دلی جذبات کا اظہار لفظوں کی شکل میں پیش کردیا۔زیادہ تر خطوط  فارغ  خطی کے اریب قریب ہیں مراد فقط ایک خط ہی لکھا گیا یا ہم جیسے ایک خط پر ہی راضی برضائے درویش ہوگئے ۔

ان ادبی خطوط کا اسلوب صاحب تحریر کی تصویر کشی کے مترادف ہے ۔خطوط کی اس سلسلہ جنبانی میں میں جہاں ڈاکٹر صاحب مسیحا کا کردار ادا کرتے ہیں وہیں اپنے مشوروں  سے خضر کا کام بھی کرتے ہیں کہ سب کوراہ بھی دکھلاتے جاتے ہیں اور منزل پر پہنچنے کے لئے خرچہ و ہرجہ بھی فراہم کرتے ہیں۔ طبیب اگر حبیب ہو توآدھا مرض ویسے ہی جاتا رہتا ہے۔ خود آگہی کا اگلا مرحلہ آگاہی ہوتا ہے یہ بھلے ذات کی ہو ،ماحول کی ہو،  قدرت کی ہو، مناظرِ قدرت کی ہو یا  صانع قدرت کی ہو۔ڈاکٹر صاحب کے ہاں آگہی اور آگاہی کا سفر اکٹھے طے کیا جاتا ہے۔

ان خطوط کا دائرہ بہت وسیع ہے ،ذاتی خصائل سے لے کر اجتماعی سماجی مسائل ان کے اندر یوں ڈسکس کئے گئے ہیں کہ اپنی ذات کے عرفان سے لے کر معاشرے کی تمام  چیزیں اس میں بیان کر دی گئی ہیں۔گویا یہ خطوط ایک طرح سے کتھارسس کرتے ہیں ان لکھنے والوں کا ۔ پھولوں کی دکان میں داخل ہوں تو گلہائے رنگین آپ کی توجہ فور اپنی طرف کھینچتے ہیں اور اگر ان کو کسی گلدستہ میں یکجا کر دیا جائے تو نہ صرف ان کے دلنشیں رنگ اور ان کی بو قلمونی کی جاذبیت اور خوبصورتی میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے جب یہ گلدستے میں ہوں۔ اس کتاب کو بھی گلدستہ ہائے رنگارنگ سے ہی تشبیہ دینی چاہیے اس میں لکھنے والوں کے خیالات و افکار یوں اکٹھے ہوگئے ہیں کہ ان کے اندر آپ کو میں اپنا آپا  اور سراپادکھائی دیتا ہے۔

انادبی محبت ناموں میں  تخلیقی یوفوریا کا تذکرہ ہے  اورTraditional  majoritiy  and  Creative  Minorityجیسیاصطلاحات کی روشنی میں نفسیاتی،سماجی اور معاشرتی رویوں کی نشاندہی  کی گئی ہے ۔زیادہ تر خطوط میں وہ خواتین وحضرات شامل ہیں جنہیں  کہیں نہ کہیں ذات اور شناخت کا سوال درپیش ہے، معاشرتی دباؤ ہے یا گھٹن ہے یا نامساعد حالات کی چکی ہے اور رشتوں کی ڈوریوں میں بندھے ہوئے فرد ہیں۔ڈاکٹر صاحب اس  انداز میں ان کی رام کتھا سنتے ہیں اور ان کے تجسس کو مزید ابھارتے ہیں کہ وہ اپنا آپ ان کے سامنے کھولیں۔اپنی ذات میں موجود ان گوشوں،پہلوؤں کو نشان ذد کریں جو ابھی تک خفتہ ہیں یا unutilized  ہیں۔انسان ماضی پرست ہے۔عہدِ رفتہ کی کی بیتی ہوئی باتیں ،گھاتیں اور ملاقاتیں اسے ہمیشہ نہ صرفکرتی ہیں بلکہ شمع فروزاں بن کر اس کے دل کو جواں رکھتی ہیں ۔ڈاکٹر خالد سہیل آج کے دور کے ایک ایسے فلسفی اور درویش ہیں جن کے آدرشوں اور خیالات پر اگر انسان کان دھر لے تو دنیا امن کا گہوارہ بن سکتی ہے ۔ایک فلسفی جس کی ہر بات انسان دوستی پر مشتمل ہوتی ہے ۔ ان کی کتاب” ادبی محبت نامے” یقیناً ادب عالیہ میں ایک اہم اضافہ ہے جس میں سب اپنی اپنی کتھا بزبان خطوط ایک دوسرے سے شئیر کی گئی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گزرے زمانوں میں خط آدھی ملاقات کے مترادف ٹھہرتا تھا اور ادبی خطوط کو تو پورے عہد کی تاریخ کو کندہ کرنے کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ڈیجیٹل دور میں اس کو دوبارہ سے زندہ کرنے پر میں ڈاکٹر خالد سہیل کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ کہ انہوں نے اس تابندہ، رخشندہ روایت کوتازہ کیا ہے۔

Facebook Comments

احمد رضوان
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد سرگشتہ خمار رسوم قیود تھا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply