اجنبی….ڈاکٹر انور نسیم

کینیڈا اور  امریکہ کے بڑے بڑے شہروں کا منظر

بے شمار لوگ جو بہت زیادہ مصروف ہیں۔سڑکوں پہ اَن گِنت گاڑیاں فراٹے بھرتی ایک دوسرے سے آگے  نکل جانے کے لیے بے قرار۔ہر دوسرے موڑ پر شاپنگ پلازے،دلچسپ اور خوبصورت۔ان بارونق پلازوں میں لاتعداد سٹور شدید گرمی یا برف سے یخ بستہ سردی۔بہت سارے عمر رسیدہ لوگ یہاں آتے ہیں،غالباً گھر میں تنہائی ہے،دو چار ان میں سکون کی تلاش میں چپ چاپ ان Benchesپہ بیٹھ جاتے ہیں۔

امرت کور نے افسردہ اور دھیمے لہجے میں اپنے شوہر رنجیت سنگھ سے کہا،اپنا ملک اچھا تھا،مکان بہت چھوٹا ہی سہی مگر سکون تو بہت تھا،گاؤں کے سبھی لوگ جانتے تھے،چھوٹا سا بازار مگر ہر دکاندار اتنے خلوص اور پیار سے بات کرتا تھا۔اُدھار لینے کے لیے کسی کریڈٹ کارڈکی بھی ضرورت نہیں۔یہاں کی دنیا مختلف ہے۔بچے تو بہت مصروف تھے،بس بیٹا اور بہو اپنے دفتروں اور بچے سکولوں میں سبھی سے کبھی کبھار فون پر بات ہوجاتی ہے،یہ سوچتے ہوئے امرت کور بہت افسردہ ہوکر خاموش ہوگئی،یا کسی گہری  سوچ میں گُم، اتنے بڑے ہجوم اور اس قدر بارونق شاپنگ پلازہ میں پھر یہ اُداسی اور خاموشی کیسی۔

تھوڑی دیر بعد ایک Coupleاُن کے قریب والے Bench پر بیٹھ گیا۔سکینہ نے بھی اپنے شوہر سلطان سے اسی قسم کی گفتگو شروع کردی۔وہ کیسی خوبصورت جگہ تھی،سامنے ہی تو چشمہ تھا،شام کو وہیں جاکر بیٹھ جاتے تھے۔ہر کوئی گزرتے ہوئے سب خاندان کی خیریت پوچھتا،کیسے ہوجی؟بچے تو سب باہر چلے گئے ہیں،سبھی ٹھیک ٹھاک ہیں۔یہاں تو کچھ اور ہی منظر ہے۔اپنے ہی محلے میں رہنے والے لوگ خاموشی سے گزر جاتے ہیں،بہت اچھے موڈ میں ہوتے تو  ہیلو کہہ دیا یا پھر موسمNice  day.یوں لگتا ہے جیسے اس کے علاوہ اس دنیا میں کوئی اور مسئلہ یا موضوع ہی نہیں۔سکینہ اور سلطان پھر چپ چاپ بیٹھے گزرتے ہوئے لوگوں کو دیکھنے لگے۔پھر وہی پرانے سوال۔کینیڈا کب آئے؟دو سال پہلے۔یہاں آنا کیسا لگ رہا ہے؟بس ٹھیک ہی ہے۔بچوں کے پاس آنے کے لیے اس عمر میں اتنی لمبی فلائٹ بھی اتنی آسان نہیں،18گھنٹے جہاز میں۔

عمر کے اس دور میں سبھی کی ایک ہی جیسی کہانی ہے۔بس کچھ ایسے ہے کہ ہم اپنے Grand  Childrenکو بہت یاد کرتے تھے۔بچوں کے لیے ہر سال پاکستان آنا بھی بہت مشکل ہے۔وہ لوگ اتنا کرایہ کیسے ادا کریں،آمدنی ساری تو اخراجات زندگی اور Taxکی نذر ہوجاتی ہے۔

“بس جی یہ  صورتِ حال تھی”۔۔پھر ایک طویل خاموشی۔۔۔خاموشی سے اُکتا کر چلیے کوئی بات ہی شروع کریں۔

“آپ اُدھر پاکستان میں کہاں رہتے تھے؟”

“جی:ایبٹ آباد سے قریب۔”

یہ سُنتے ہی امرت کور ایک دم چونک گئی۔”وہاں سے قریب!اچھا اچھا،تو آپ کا آبائی علاقہ وہی تھا؟یعنی باپ دادا کی رہائش۔”سکینہ پھر سے شاید کسی گہری سوچ یا پرانی یادوں میں گُم ہوگئی۔”بہن جی،پہلے تو ہم لوگ ہندوستان میں رہتے تھے جب مُلک تقسیم ہوا تو اِدھر چلے آئے۔پہلے سلطان ایبٹ آباد میں ملازمت کرتا تھا،مگر جب ریٹائرڈ ہوا تو اُس کی معمولی پنشن میں کہاں گزارا ہوتا،سوچا اس گاؤں میں چلے جائیں،دونوں بیٹوں نے تعلیم مکمل کرلی اور پھر تلاشِ روزگار اور بہتر زندگی کی تلاش میں کینیڈا چلے گئے۔پَر جی یہ بھی کیا بہتر زندگی؟وطن تو اپنا ہی پیارا تھا۔۔بس انسان کی بھی اپنی ہی مجبوریاں ہیں۔کچھ سمجھ میں نہیں آتا اپنے اختیار میں کیا ہے.”

“بس جو مقدر میں لکھا ہے”۔سکینہ نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔

“پھر جی وہ 1947آیا تو تقسیم کے بعد اپنا سب کچھ چھوڑ کرسرحد کے پار چلے آئے۔ شتکیاری تو ہندوستان سے پاکستان بن گیا۔”سکینہ خاموشی اور حیرت سے یہ سب کچھ سُن رہی تھی۔”پھر یہ سب کچھ چھوڑ کر دہلی چلے گئے۔”

“اب کہاں رہتے ہیں؟”امرت کور نے کہا “بس پہلے تو رنجیت کو دہلی میں ملازمت ملی تھی،پھر باقی وہی آپ والی کہانی ہے”،ریٹائرڈ ہوئے تو سوچا اُس قصبے میں جائیں،جہاں رنجیت کے سارے رشتے دار بھی ہیں۔کھیتی باڑی کرکے گزر اوقات ہوجاتی تھی،امرتسر کے قریب ایک قصبہ ہے سرہال

سکینہ ایک دم اُٹھ کھڑی ہوئی

“سرہال۔۔سرہال۔۔جہاں ہم رہتے تھے۔”بچپن جوانی وہیں گزرا۔سکینہ،سلطان،امرت کور،رنجیت،شتکیاری،سرہال،ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے والے لوگ۔یہ سب کیا ہے؟

سیاست، تاریخ،رزق کی تلاش

Torontoکے اس خوبصورت اور بہت مصروف شہر میں بیٹھے تھے،شدید سردی تھی۔سب کی آنکھوں میں آنسو،کینیڈا میں یہ اجنبی لوگ،ان سب کی آپس میں بہت ہی پرانی جان پہچان تھی،صدیوں کا ساتھ،پیار محبت،ہم آہنگی۔۔

شتکیاری،سرہال اور اب  Toronto

لوگ،بہت سارے لوگ۔بچوں سے دور،اور اب  Grand   Children

اس بہت خوصورت اور انتہائی مصروف شاپنگ پلازہ میں جہاں ہر کوئی تیزی سے اِدھر اُدھر بھاگ رہا تھا

کوئی جلدی ہے یا شاید کہیں سیل لگی ہوئی ہے۔

اتنے خوشحال اور امیر لوگ چند ڈالر بچانے کے لیے اتنے بے قرار۔یہ بھی تو  Race ہی ہے۔انسانی رویے۔۔

شتکیاری،سرہال،برطانوی حکومت,1947،ہر چیز کی تقسیم۔۔نئی نسل،تلاشِ روزگار،نئے مواقع۔

کینیڈا Land  of  Opertunity،ریٹائرڈہونے والے عمررسیدہ لوگGrand  Children اُن سے محبت۔۔یہ سب کچھ کیا ہے؟

مگر سچ پوچھیے تو یہ سب ایک گورکھ دھندا ہے

اچانک پرانی یادوں میں گُم ایک جذباتی کیفیت سے دوچار امرت کور،سکینہ سلطان اور رنجیت نے ایک دوسرے کو گلے لگا لیا۔ان سب کو گلے مل کر روتے ہوئے دیکھ کر قریب بیٹھی ہوئی ایک سفید فام بیوی نے اپنے شوہر سے کہا

Darling!What  happend?

پھر خود ہی ایک توقف کے بعد بولی،I  guess,may  be  a  death  in  family

شوہر جو شاید کچھ سُن ہی نہیں رہا تھا،بڑی بے اعتنائی سے بولا،ہمیں ان سے کیا لینا دینا

Advertisements
julia rana solicitors london

Mind  your  own  bussiness.

 

 

 

 

 

 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply