خدارا! تعلیمی اداروں کو بچاؤ.

سچ ہمیشہ کڑوا ہی ہوتاہے لیکن پھر بھی سچ کا ساتھ دینا چاہیے، سچائی میں مشکلات ضرور پیش آتی ہیں لیکن اس کے نتائج دیرپا اور کار آمد ہوتے ہیں. لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں معاملہ الٹ ہی چلتا ہے، سچ کا ساتھ دینے کے بجائے جھوٹے لوگوں کا ساتھ دینے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایاجاتا ہے، کیونکہ عموما ہم خود بھی مجرم ہوتے ہیں،اور مجرم دوستوں پر کڑا وقت آئے تو ان کا دکھ اپنا دکھ سمجھ کر ان کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں. کوئی مجرمانہ واقعہ رونما ہوجائے تو ہم مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بجائے ان کی ستر پوشی کرتے ہیں، ان کو کیس سے بچانے، معصوم ثابت کرنے میں ہر ممکن جتن کرتے ہیں.شاعر نے کیا ہی خوبصورت ترجمانی کی ہے.
شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
یکم جنوری کو سندھ یونی ورسٹی کے سندھی شعبے کی ایورد یافتہ اسٹوڈنٹ، اسٹڈی سرکل کی نائب صدر نائلہ رند کی پنکھے سے لٹکتی لاش برآمد ہوئی، پولیس کے مطابق یہ کیس خود کشی تھا جبکہ والدین بضد ہیں کہ ان کی بیٹی کو قتل کیا گیا ہے، کیس کی پیش رفت میں سندھ یونی ورسٹی کے طالب علم انیس خاصخیلی گرفتار بھی ہوئے ہیں جس سے نائلہ کے ساتھ دیگر طالبات کو ہراساں کرنے کے شواہد بھی ملےہیں .اور چیئرمن ڈیپارٹمنٹ کے موبائل سے بھی نائلہ سے رابطہ کیا گیا وہ بھی زیر تفشیش ہیں، سندھ کے سینئر صحافی ذوالفقار قادری نے نائلہ کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ میں کیس کی شفاف تحقیقات کے لیے درخواست دائر کردی ہے، سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی ہورہے ہیں جہاں نائلہ قتل کیس ایک پیچیدہ صورتحال اختیار کر گیا ہے وہاں سندھ اور پورے ملک کے تمام اداروں کی طالبات میں سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے، والدین اپنی بچیوں کے حوالے سے خدشات میں گھرے ہوئے ہیں…
اسی طرح اداروں کے اساتذہ جہاں ایک باعزت شخصیت ہوتے ہیں، معاشرے کی ترقی میں ان کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے، بلکہ قوموں کی ترقی کا راز ہی اساتذہ ہوتے ہیں، جنکی عزت، ادب واحترم، سادگی، طلبہ کے ساتھ روحانی والدین کی سی شفقت دیکھ کر ان کے پاؤں چومنے کو جی چاہتا ہے وہاں اداروں میں کالی بھیڑیں بھی موجود ہیں جو طالبات کو جنسی زیادتی اور ہراساں کرنے کے نت نئے طریقے ایجاد کرتے ہیں، کبھی طالبات کو زیادہ نمبر دینے کی لالچ دیتے ہیں تو کبھی فیل کرنے کی دھمکی دیتے ہیں.
آج صبح ہی سندھ کے سینئر صحافی محترم ذوالفقار قادری صاحب نے اپنی فیس بک وال پر ایک خبر نشر کی کہ نائلہ رند کے واقعے کے بعد دو طالبات نے کال کرکے اطلاع دی کہ ہمیں بھی یونی ورسٹی چند اساتذہ جنسی طور ہراساں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ہم اپنے والدین کی عزت اور خاندان میں شرمندگی کی وجہ سے پڑھائی موقوف نہیں کر رہیں ہیں.
وہاں انیس خاصخیلی جیسے اسٹوڈنٹ بھی ہیں جو طالبات کو اپنی حرص وہوس کانشانہ بناتے ہیں.ڈرا دھمکا کر انہیں ہراساں کرتے ہیں.
یہ حال صرف سندھ یونی ورسٹی کا نہیں ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے اکثر اداروں کا ہے، جہاں اسٹوڈنٹ اور اساتذہ کی شکل میں ایسی کالی بھیڑیں موجود ہیں جن سے طالبات کی عزت اور تعلیم کو خدشات لاحق ہیں.ہم حکومت سے پر زرو مطالبہ کرتے ہیں نائلہ رند کیس کو شفاف بنایا جائے. طالبات کی عزت وعصمت کا تحفظ کیا جائے. اس طرح کے مجرموں کے لیے قانون سازی کی جائے، سخت سے سخت قوانین مرتب کیے جائیں..ورنہ ان کالی بھیڑوں کی وجہ سے ہمارے تعلیمی اداروں کی بربادی کے دن کوئی دور نہیں..اگر ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا گیا تو ہزاروں طالبات کی عزت، عصمت، مستقبل اور تعلیم داؤ پر لگ جائے گی

Facebook Comments

نعیم الدین
لکھنے پڑہنے والا ایک ادنی طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply