سیک سیمینار پر بےربط خیالات

سیک سیمینار پر بے ربط خیالات

Advertisements
julia rana solicitors london

عقل مندوں سے بهری دنیا میں کچه میرے جیسے پاگل بهی پائے گئے ہیں… ثاقب ملک بهی انہی میں سے ہے… وہ جنہیں ہواوں کے مخالف چلنے میں لطف آتا ہے. وہ جو خواب دیکهتے ہیں اور پهر انہیں پورا کرکے ہی دم لیتے ہیں.. وہ جو اسی لیے کماتے ہیں کہ جنون کی بهینٹ چڑها سکیں… وہ جو ضروریات کو بهی جنون پہ وار دیتے ہیں….
میری کتاب “اسلام کو مولوی سے بچاو” ثاقب سے تعارف کی وجہ بنی اور اسی پر خطاب کی غرض پہلے اسلام آباد اور پهر لاہور سیمینار میں شرکت کی سعادت بهی حاصل ہوئی جو یقینا ثاقب ملک کی محبت ہی کی بدولت ہے. یہ الگ بات کہ موقع ملنے کے باوجود اپنی قوم سے خطاب کی دیرینہ خواہش دونوں بار ہی ادهوری رہی. اس معاملے میں اپنے وکیل بابو انعام رانا خوش نصیب ہیں کہ جن کا خطاب دلنواز سن کر تمام گنجے انهیں آہ بهر کر دیکه رہے ہیں. میری خطاب کی خواہش پوری نہ ہونے میں زبان کی تهرتهراہٹ اور جسم کی کپکپاہٹ کے ساته ساته سیمینار میں مولوی صاحبان کی دو تہائی اکثریت کا بهی خاص عمل دخل ہے… کہ ہم ذرا کهل کر بات کرنے کے عادی ہیں اور سیمینار ڈپلومیٹک گفتگو کا تقاضا کررہا تها…. ورنہ دوتہائی اکثریت کی طاقت سے تو آپ واقف ہی ہیں…
لاہور سیک سیمینار ایک طرح سے مزہبی کانفرنس تهی جہاں ایک خاص مکتب کے لوگوں کی خاص تعداد موجود تهی. تین محترم اسپیکرز جنہیں بات کرنے کا پورا موقع بهی ملا، خالصتا ایک خاص مکتب سے تهے جن میں آن لائن سیشن والے دوست بهی شامل تهے. ظاہر ہے کہ سامعین بهی اسپیکرز کے حساب سے ہی آتے ہیں. سامعین کی اکثریت ان سے متاثرین ہی کی تهی، ان کے متاثر کم کم ہی تهے.
اس سیمینار میں آکر مجه جاہل کو پتہ چلا کہ اچهے اور برے طالبانوں میں کیا فرق ہے..؟ معلوم ہوا کہ جو ہمیں مارتے ہیں، وہ برے طالبان ہیں اور دوسروں کو مارنے والے اچهے طالبان ہیں……
رانا اظہر کمال کو مناسب وقت نہ ملنے کا مجهے دکه ہے… اگرچہ وہ پینل سیشن کا ہی حصہ تهے مگر سیمینار دیر سے شروع ہوا اور وہ وقت پینل سیشن کے وقت سے کاٹا گیا…. پینل سیشن کو پورا وقت ملنا چاہیے تها.. رامش فاطمہ کی حاضری بهی برائے نام ہوئی… ایک تو وقت بهی کچه کم تها اور دوسرا شاید وہ تهوڑا کنفیوز بهی تهیں… رامش کو ان کی تحریروں سے متاثر ہوکر بلایا گیا. ویسے رامش بہت اچها لکهتی ہے اور انتہائی جانبدار بهی… اگر ان کے گرد حائل واہ واہ کا ٹولہ تهوڑا دائیں بائیں ہوجائے تو وہ بہت اچها لکهنے کے ساته ساته معتدل بهی لکه سکتی ہے.
اگر انعام رانا کی بات کی جائے تو صاحب تهوڑے کنفیوز بهی تهے اور باقی خراب انٹرنیٹ کنکشن نے بهی رقابت کا حق ادا کرنے میں کوئی کسر نہ چهوڑی. پہلی بات تو یہ کہ راجپوت کوئی ڈهنگ کا کام کرتے نہیں اور اگر یہ رانگهڑ کوئی چج کا کام کرنے نکلا ہے تو انٹرنیٹ سمیت ساری دنیا سڑنے لگی ہے. میرے پلے تو انعام کی دو ہی باتیں پڑیں…. پہلی اور آخری.. پہلی یہ کہ اسے امران خان کی طرح تو اپنی قوم سے خطاب کا بہت شوق تها جو ثاقب ملک کی مہربانی سے پورا ہوا.. ( ثاقب ملک کا شکریہ ورنہ یہ بهی کپتان کی طرح پتہ نہیں کب تک قوم کو کهجل کرتا) اور دوسری یہ کہ خواب دیکهو.. خواب دیکهو گے تو پورے ہونگے….
عامر ہاشم خاکوانی نے بہت اچهی گفتگو کی.. فرنود عالم کے کیا کہنے…. ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کا تو جواب ہی نہیں…پروفیسر ہمایوں احسان کی شخصیت اور گفتگو.. دونوں کمال… عظیم الرحمان عثمانی…. سجاد خالد…رعایت اللہ فاروقی نے بهی اپنی اپنی باری کو بخوبی نبهایا…… باطنی سکون کے آن لائن سیشن نے صوفیوں کی ذکر پر مشتمل روحانی محفلوں کی یاد تازہ کردی…. آن لائن تبلیغی سیشن کے کیا کہنے اور اس پر سوال و جواب کی تو بات ہی کیا تهی…
اچها میرا خیال ہے کہ یہ سیمینار مزہب سے بالاتر ہوکر ہونا چاہیے… الحمدللہ ہم مسلمان ہیں.. پاکستان میں اکثریت مسلمان ہے… ہمارا مسئلہ مزہب نہیں، علم وشعور سے دوری ہے.. یہ سیمینار خالصتا علمی بنیاد پر ہونا چاہیے، جہاں فقط علمی گفتگو ہو.. علمی بحث ہو.. مجهے لگتا ہے کہ کچه لوگوں کو فقط اس لیے بلایا گیا تاکہ انهیں دیکهنے، ملنے اور سننے لوگ آئیں اور لوگ آئے بهی ان کی وجہ سے مگر یہ تو عقیدتوں کا کهیل ہوا نا…. امید ہے کہ برا بهی نہیں مانیں گے اور آئندہ سیمینار میں خیال بهی رکهیں گے…
اسلام آباد سیمینار اسپیکرز کے اعتبار سے بہت بہتر تها. وہاں بیلنس تها… بہت زبردست گفتگو سننے کو ملی تهی…
اس سیمینار میں میرے لیے خوشگوار ترین اور قابل رشک لمحہ دوستوں کی حیرت تهی.. اکثریت مجهے “سڑیل بابا” اور ادهیڑ عمر شخص سمجهتی تهی… یہی وجہ ہے کہ سب کو زبردستی تعارف کرواتا رہا اور حیرانی سے لطف اندوز ہوتا رہا… رانا تنویر عالمگیر کی شکل میں ایک نوعمر لڑکے کا ان کے سامنے ہونا ان کے لیے حیران کن تها
سیک ایک زبردست کاوش ہے… کچه خامیاں ہوسکتی ہیں… اس میں کچه احباب کے مشوروں پر مجبورا عمل درآمد بهی شامل ہوسکتا ہے… مگر یہ ایک ایسا کامیاب تجربہ ہے جس کا جواب نہیں… تمام سامعین کو ثاقب ملک کا احسان مند ہونا چاہیے جس نے سب کو ملوانے کا اتنا حسین بندوبست کیا اور معلوم نہیں کیسے کیا. یہ تو کنفرم ہے کہ وہ بڑا آدمی ہے مگر پیسوں کے اعتبار سے بڑا نہیں ہوگا کیونکہ پیسے والے بڑوں کے دل بہت چهوٹے ہوتے ہیں… ثاقب ملک وہ بڑے دل والا ہے جو خواب دیکهتا ہے اور اسے پورا کرکے چهوڑتا ہے… اس کا اصل خواب ایک صحت مند معاشرے کا قیام ہے اور اس کے لیے ہم سب کو اس کا ساته دینا ہوگا…

Facebook Comments

رانا تنویر عالمگیر
سوال ہونا چاہیے.... تب تک، جب تک لوگ خود کو سوال سے بالاتر سمجهنا نہیں چهوڑ دیتے....

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply