میری چھ سالہ بیٹی میری بہترین دوست ہے میری کوشش ہوتی ہے کہ اس کے سوال کرنے کی حس کو کبھی ٹھیس نا پہنچنے دوں ہم اکثر لائبریری میں بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں جہاں ہم دونوں تبادلہ خیال بھی کرتے رہتے ہیں کچھ نہ کچھ بناتے بھی رہتے ہیں اور ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ پڑھتے بھی رہتے ہیں
میرا مشاہدہ ہے کہ بچے جس معصومیت، محبت، خلوص، اور جاننے کی غرض سے سوال کرتے ہیں ایسے عظیم سوال کوئی مفکر بھی نہیں کر سکتا
کل بھی ہم بیٹھے باتیں کر رہے تھے تو پوچھتی ابو کیا اللہ تعالٰی نے لڑکیوں کو سر کے بال چھپانے کا حکم دیا ہے میں نے کہا کہ ہاں تو کہتی پھر ہمارے سر کے بال بنائے کیوں ہیں اور لڑکوں کے بھی سر کے بال ہوتے ہیں انہیں بھی پھر چھپانا چاہیے؟
تو اس موضوع پہ ہماری کافی گفتگو رہی میرے جوابات کے مقابل بہت سی ذیلی باتیں گفتگو کا حصہ بنتی رہیں مگر وہ کسی بھی جواب سے مطمئن نہیں ہو رہی تھی پھر خود ہی جواب دیا کہ ابو ایسا نہیں ہے ابو یار یہ وہ عزت ہے جو اللہ تعالیٰ لڑکیوں کو دیتے ہیں جیسے ہم آپ کے ساہ(سانسیں) ہیں تو آپ کیسے ہمارا خیال رکھتے ہیں ہماری اتنی کئیر اور ہم سے اتنی محبت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ لڑکوں کے مقابل بیٹیوں سے زیادہ پیار کرتے ہیں اسی لئے وہ ہمارا بہت زیادہ خیال کرتے ہیں تاکہ ہم اچھے لگیں
میری بیٹی کے اس جواب نے مجھے بھی انتہائی مطمئن کر دیا کیونکہ یہ وہ جواب ہے جو انسان کی ذات کے اندر کی پیداوار ہے جو ابھی تک کسی کتاب کسی لٹریچر سے کشید کیا ہوا نہیں ایک معصوم ذہن کا معصومیت سے بھرا خالص انسانی بنیادوں پہ استوار خیال ہے

میرا مطالعہ قرآن بھی یہی کہتا ہے کہ اللہ نے جس قدر عورت کی عزت افزائی کی ہے کسی انسان کے بس کی بات نہیں کبھی کبھار تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے مرد عورت کے مقابلے میں ایک محافظ ہے جس نے عورت کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اس کی ضروریات زندگی کا بھی مکمل خیال رکھنا ہے وگرنہ وہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں