فوج کو درپیش چیلنجز ۔ ۔اظہر سید

بطور ادارہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بتدریج ولن بن چکی ہے ۔ ایک ناکارہ اور نوسر باز وزیراعظم کو ذمہ دار ٹھہرانے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانک کر خود احتسابی کی جتنی ضرورت آج ہے کبھی نہیں تھی ۔اسٹیبلشمنٹ نے جس طرح آکٹوپس کی طرح ریاست کے تمام اداروں پر گرفت مستحکم کی ہے یہ ایک خوف کی علامت ہے اور خوف ہی شکست کی اولین وجہ ہوتا ہے ۔عوام میں ساکھ بحال کرنا ہے تو شخصیات کی بجائے ادارے کو ترجیح دینا ہو گی اور ان لوگوں کو کڑے احتساب سے گزارنا ہو گا جنہوں نے خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی ناکامیوں کے باوجود 2018 کے الیکشن میں ہارے ہوئے گھوڑے پر داؤ لگا دیا اور ساتھ میں ریاست اور ادارے کی ساکھ بھی داؤ پر لگا دی ۔

چیف صاحب پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی گزرنے کے بعد اعتراف کرتے ہیں ڈان لیک مس ہنڈل ہوا نیز نواز شریف محب وطن ہیں ۔یہ اگر خود احتسابی کی طرف ایک قدم ہے تو پھر الیکشن میں دشمن قوتوں کو شکست دینے اور عزت اور زلت اللہ کے ہاتھ میں ہے والی ٹویٹ کو بھی غلط تسلیم کرنا چاہیے ۔
نواز شریف ہی نہیں آصف علی زرداری سے بھی معافی مانگنا ہو گی کہ ریاست اور ادارے شخصیات سے بالا ہوتے ہیں ۔

نواز شریف تین مرتبہ کا وزیراعظم اور اسٹیبلشمنٹ کی تمام تر کہہ مکرنیوں کا عینی شاہد ہے ۔ نواز شریف نے کارگل کے موقع پر کارگل کا فیصلہ کرنے والے چار کے ٹولہ کو نہیں بچایا تھا بلکہ فوج اور ملک کیلئے جنگ بندی کیلئے امریکہ کا دورہ کیا تھا ۔اسقدر خود غرض اور مکار لوگ اعلی عہدوں پر پہنچ جاتے ہیں شکر گزار ہونے کی بجائے نواز شریف پر کارگل کی ناکامی کا ملبہ گرا دیا ۔ایسے کم ظرف اور نیچ لوگ ہیں بینظر بھٹو کی شہادت کی جگہ خود دھلوا دی کہ شواہد باقی نہ رہیں اور الزام آصف علی زرداری پر رکھ دیا کہ قتل کا فایدہ آصف علی زرداری کو ہوا تھا ۔زرداری نے تحقیقات کیلئے اقوام متحدہ کی ٹیم بلوائی ادارے کے افسران کو ٹیم سے تعاون سے منع کر دیا ۔

اس قدر چھوٹے لوگ ہیں ملک بچانے کی بجائے اپنی کھال بچاتے ہیں ۔جونیجو نے اوجڑی کیمپ کی تحقیقات کیلئے کمیٹی بنائی حکومت ہی برطرف کر دی ۔ نواز شریف نے کارگل کی تحقیقات کیلئے ذمہ دار آرمی چیف کو تبدیل کیا چار جنرلوں کو ساتھ ملا کر نواز شریف کی برطرفی کا پیشگی بندوبست کر لیا ۔

ادارے کی ساکھ اب داؤ پر ہے دیکھنا ہے کہ وقت کا پہیہ شخصیات کی ہمیشہ کی طاقت برقرار رکھتا ہے یا پھر تیزی سے طوفان کی طرح بڑھتی ہوئی ناکامیاں شخصیات کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرتی ہیں ۔
یونیورسٹی کے زمانہ میں میر تقی میر کے ایک شعر کی تشریح آج کے حالات دیکھ کر سمجھ آرہی ہے ۔
کس طرح آہ قعر مزلت سے میں اٹھوں
افتادہ تر جو مجھ سے میرا دستگیر ہو

جو حال کشمیریوں کو ستتر سال مروانے کے بعد ان کا کیا طالبعلموں کا اس سے برا حال افغانستان میں کریں گے ۔طالب اگر سیانے نکلے جس طرح انہوں نے اپنی عبوری حکومت میں کرزی اور عبداللہ عبداللہ کو شامل کرنے کی ہدایات مسترد کیں وہ شائد بچ نکلیں ورنہ جو خود اپنے ملک کو دیوالیہ کرا بیٹھے ہیں طالبعلموں کی کیا مدد کریں گے ۔
افغانیوں اور افغانستان کا بندوبست خطہ کے دوسرے ملک خود کر لیں گے ۔جو سپائی چیف اسلام آباد حکمت عملی کی تشکیل کیلئے بلائے ہیں وہ اپنے ملکوں کے مفادات کے تحت چلیں گے ہمارے والوں کی خواہشات پر نہیں ۔

میزائل ، ٹینک اور بڑی فوج ریاست کو بچا پاتی تو سوویت یونین نہ ٹوٹتا ۔صرف معیشت ہی ریاست کی بقا کی ضامن ہے اور معیشت دیوالیہ ہو رہی ہے ۔
ابھی نواز شریف کو محب وطن بتا کر ایک قدم اٹھایا ہے وقت تیزی سے قریب آرہا ہے کہ بات قدم اٹھانے سے کہیں آگے نکل گئی ہے اب پہلے تیز تیز قدم اٹھانے ہونگے پھر بھاگنا پڑے گا ۔سابق وزیراعظم میاں نواز شریف صحیح اور درست وقت کا انتظار کر رہے ہیں اور یہ انتظار آصف علی زرداری سمیت تمام ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے والے سیاسی راہنما بھی کر رہے ہیں ۔
عوام کو سڑکوں پر لا کر انقلاب برپا کرنے سے کہیں زیادہ بہتر انتظار ہے ۔

نواز شریف کارگل کے وقت ملک کے بہترین مفاد میں جنگ بندی کیلئے امریکہ گئے اس وقت درخواست پر امریکہ گئےجب چین کے دورہ کے دوران جنرل صاحب کی بات چیت لیک کرائی گئی ۔اس وقت کے  ذمہ داران اور موجودہ حالات کے زمہ داران ایک ہی ہیں صرف نام اور چہرے مختلف ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

فوج کی ساکھ کی بحالی اور معیشت کی بحالی یہ دو کوہ گراں اسٹیبلشمنٹ کے موجودہ سائنسدان نہیں اٹھا پائیں گے ۔ یہ بزرجمہر تو افغانستان کے طالبعلموں کی کامیابی کا بوجھ اٹھانے سے بھی قاصر ہیں ۔وقت کا انتظار لازمی ہے تاکہ حب الوطنی کا لباس اوڑھے چہروں کے رخ سے نقاب اٹھے کہ وہ دم سادھے چپکے چپکے نواز شریف سے کارگل کی طرح بیل آؤٹ مانگتے ہیں یا پھر ملک اور ادارے کے استحکام کیلئے غلطیوں کا اعتراف کرتے ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply