• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اہمیت ِخواتین اور اسلامی تعلیمات و پاکستانی سماج کے درمیان تعارض۔۔نذر حافی

اہمیت ِخواتین اور اسلامی تعلیمات و پاکستانی سماج کے درمیان تعارض۔۔نذر حافی

مقدمہ
ایک پرامن اور فلاحی معاشرہ انسان کی قدیمی ترین آرزو ہے، اپنے ابتدائی ایّام سے ہی انسان اس آرزو کا اسیر ہے، خوف و خطرے، جنگ و جدال اور مار دھاڑ کے ماحول میں بھی کبھی انسان کی اس خواہش نے دم نہیں توڑا۔ یہ خواب وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتا رہا۔ کسی نے اس خواب کا نام مدینۃ الفاضلہ رکھا اور کسی نے اسے بہشتِ ارضی کا نام دیا، لیکن اس کے باوجود یہ خواب ازل سے خواب ہی ہے اور تاریخ کے کسی بھی موڑ پر انسان اپنے اس خواب کی تعبیر نہیں پاسکا۔ فطری طور پر انسان جہالت، پسماندگی، غربت، افلاس، کرپشن، خوف، جنگ اور مار دھاڑ کو پسند نہیں کرتا، لیکن اس کے باوجود وہ اپنی پوری تاریخ میں انہی ناپسندیدہ عناصر کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور رہا ہے۔ برس ہا برس کی محنت اور جدوجہد کے باوجود آج کا انسان بھی قدیم زمانے کے انسان کی طرح معاشرتی عدمِ مساوات، غربت، جہالت اور پسماندگی کا شکار ہے۔ اگر ہم تاریخ بشریت کو خاتونِ دو عالم حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے نعلینِ مبارک کی نوک ِمقدس پر رکھ کر تقسیم کریں تو ہم دیکھیں گئے کہ موجودہ دور کی طرح خاتونِ قیامت کی ولادت باسعادت سے پہلے بھی عورت انسانی معاشرے کی ایک مسترد شدہ اکائی تھی اور شاید سابقہ اقوام کی پسماندگی اور جہالت کا ایک بڑا سبب “عورتوں کے حقیقی مقام کو نظر انداز کرنا” ہی تھا۔

ناسمجھ، ضدی اور ہٹ دھرم افراد، ان پڑھ ماوں سے ہی جنم لیتے اور جاہل عورتوں کی آغوش میں ہی تربیت پاتے ہیں۔ چنانچہ دین اسلام نے دیگر تمام ادیان کے مقابلے میں سب سے زیادہ عورتوں کے حقوق اور خواتین کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی ہے۔ تاریخی کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ مصر میں ورودِ اسلام سے پہلے تک یہ رسم موجود تھی کہ ہر سال اہلیانِ مصر، دریائے مصر کے پانی میں اضافے کی نیت سے ایک لڑکی کو دریائے مصر میں قربانی کے طور پر پھینکا کرتے تھے۔ زمانہ جاہلیت کی ادبی کتابوں کی شعر و شاعری اور نثر نگاری اس بات پر شاہد ہے کہ اس زمانے کے لوگ عورت کے لیے کسی قسم کے تقدس، عفت اور پاکدامنی کے قائل نہیں تھے۔ اسی طرح بیٹی کی ولادت کو منحوس جاننا، بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا، بیوہ سے شادی کو معیوب سمجھنا وغیرہ وغیرہ یہ سب ظہور اسلام سے پہلے کی خرافات و مکروہات ہیں۔ اس حقیقت کی طرف قرآن مجید نے کچھ یوں اشارہ کیا ہے: وَ إِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُم بِالْأُنثىَ‏ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَ هُوَ كَظِيمٌ(58) يَتَوَارَى‏ مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَ يُمْسِكُهُ عَلىَ‏ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فىِ الترَُّابِ أَلَا سَاءَ مَا يحَْكُمُونَ: “اور جب خود ان میں سے کسی کو لڑکی کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ خون کے گھونٹ پینے لگتا ہے۔ قوم سے منہ حُھپاتا ہے کہ بہت بری خبر سنائی گئی ہے۔ [شرم کے مارے وہ سوچتا ہے کہ] اب اس لڑکی کو ذلّت سمیت زندہ رکھے یا خاک میں دفن کر دے، یقینا یہ لوگ بہت برا فیصلہ کر رہے ہیں۔”

دین اسلام میں عورت کی اہمیّت
دین اسلام نے خواتین کے اجتماعی احساسات، موروثی جذبات، خاندانی اوصاف، فطری خواہشات، جنسی میلان، فکری استعداد اور دینی جذبات کے حوالے انہیں ان کا حقیقی مقام دلوایا۔ یہاں تک کے قرآن مجید کا تیسرا سورہ “النساء” یعنی “خواتین” کے نام سے ہے اور خداوند عالم نے قرآن مجید کی دیگر سورتوں میں متعدد مقامات پر خواتین کی عظمت اور حقوق کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔

عورت اور سیرت النبیﷺ
جس معاشرے میں لوگ بیوہ سے شادی کرنے کو شرم کا باعث سمجھتے تھے، پیغمبر اسلامﷺ نے بیواوں سے شادیاں کیں اور اسی دور میں جب خاتون کو پست ترین مخلوق سمجھا جاتا تھا، پیغمبر اسلامﷺ نے اسی معاشرے اور اسی دور میں “بتولؑ” جیسی معصومہ کی پرورش اور تربیت کی۔ اسی معاشرے میں جہاں عورت کو مال مویشیوں کی طرح ملکیت سمجھا جاتا تھا، دین اسلام نے وہیں پر عورت کی آغوش کو دنیا کی پہلی درس گاہ قرار دیا، وہیں پر جہاں عورت کو انسان نہیں سمجھا جاتا تھا، پیغمبر اسلامﷺ نے جنت کو ماں کے قدموں تلے قرار دیا۔ وہیں پر جہاں پر لوگ بیٹی کو باعثِ ننگ و عار سمجھتے تھے، پیغمبر اسلامﷺ اپنی بیٹی کے احترام میں کھڑے ہو کر استقبال کیا کرتے تھے اور وہیں پر جہاں لوگ بیٹیوں کو زندہ دفن کرتے تھے، دین اسلام نے عورت کو میراث میں وارث قرار دیا۔

عورت اور ارث
اس ضمن میں قرآن مجید میں یوں ارشاد پروردگار ہے: لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَ الْأَقْرَبُونَ وَ لِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَ الْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثرَُ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا “مردوں کے لئے ان کے والدین اور اقرباء کے ترکہ میں ایک حصہّ ہے اور عورتوں کے لئے بھی ان کے والدین اور اقرباء کے ترکہ میں سے ایک حصہّ ہے، وہ مال بہت ہو یا تھوڑا یہ حصہّ بطور فریضہ ہے۔”

عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک
اس ضمن میں ایک مقام پر اس طرح سے ارشاد ہوا ہے: يَأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا يحَِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُواْ النِّسَاءَ كَرْهًا وَ لَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُواْ بِبَعْضِ مَا ءَاتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ وَ عَاشرُِوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسىَ أَن تَكْرَهُواْ شَيًْا وَ يجَْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيرًْا كَثِيرًا “اے ایمان والو، تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ جبراً عورتوں کے وارث بن جاؤ اور خبردار انہیں منع بھی نہ کرو کہ جو کچھ ان کو دے دیا ہے، اس کا کچھ حصہّ لے لو مگر یہ کہ واضح طور پر بدکاری کریں اور ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، اب اگر تم انہیں ناپسند بھی کرتے ہو تو ہوسکتا ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور خدا اسی میں خیر کثیر قرار دے دے۔”

عورتوں پر اعتماد
وہ معاشرہ جہاں پر عورت کو ہمراز بنانے کو عیب سمجھا جاتا تھا، وہیں پر پیغمبر اسلامﷺ کی خفیہ تبلیغ کے دوران بھی خواتین کو نظر انداز نہیں کیا اور انہیں مخفی طور پر بھی دین اسلام کی دعوت دی اور انہیں اپنا ہمراز بنایا۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بیعت عقبہ ثانی کے موقع پر دو عورتوں نے حضورﷺ کی بیعت کی، جن میں سے ایک نسیبہ دختر کعب تھیں اور دوسری اسماء دختر عمرو بن عدی تھی۔ فتح مکہ کے موقع پر مردوں کی طرح عورتوں سے بھی بیعت لی گئی، جسے “بیعت النساء” کہا جاتا ہے۔ اس بارے میں قرآن مجید کی آیت ملاحظہ فرمائیں: يَأَيهَُّا النَّبىِ‏ُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلىَ أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيًْا وَ لَا يَسْرِقْنَ وَ لَا يَزْنِينَ وَ لَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَ لَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْترَِينَهُ بَينْ‏َ أَيْدِيهِنَّ وَ أَرْجُلِهِنَّ وَ لَا يَعْصِينَكَ فىِ مَعْرُوفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَ اسْتَغْفِرْ لهَُنَّ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ۔ “پیغمبر اگر ایمان لانے والی عورتیں آپ کے پاس اس امر پر بیعت کرنے کے لئے آئیں کہ کسی کو خدا کا شریک نہیں بنائیں گی اور چوری نہیں کریں گی، زنا نہیں کریں گی، اولاد کو قتل نہیں کریں گی اور اپنے ہاتھ پاؤں کے سامنے سے کوئی بہتان (لڑکا) لے کر نہیں آئیں گی اور کسی نیکی میں آپ کی مخالفت نہیں کریں گی تو آپ ان سے بیعت کا معاملہ کر لیں اور ان کے حق میں استغفار کریں کہ خدا بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔”

اخروی اجر میں عورتوں کا حصہ
دین اسلام نے دنیا کی طرح آخرت میں بھی عورتوں کو اجر اخروی کا وارث قرار دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں قرآنی آیت۔ إِنَّ الْمُصَّدِّقِينَ وَ الْمُصَّدِّقَاتِ وَ أَقْرَضُواْ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَاعَفُ لَهُمْ وَ لَهُمْ أَجْرٌ كَرِيمٌ “بیشک خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں اور جنہوں نے راسِ خدا میں اخلاص کے ساتھ مال خرچ کیا ہے، ان کا اجر دوگنا کر دیا جائے گا اور ان کے لئے بڑا باعزّت اجر ہے۔” اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد پروردگار ہے: يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ يَسْعَى‏ نُورُهُم بَينْ‏َ أَيْدِيهِمْ وَ بِأَيْمَانِهِم بُشْرَئكُمُ الْيَوْمَ جَنَّاتٌ تجَْرِى مِن تحَْتهَِا الْأَنهَْارُ خَالِدِينَ فِيهَا ذَالِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ(12) “اس دن تم باایمان مرد اور باایمان عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نور ایمان ان کے آگے آگے اور داہنی طرف چل رہا ہے اور ان سے کہا جا رہا ہے کہ آج تمہاری بشارت کا سامان وہ باغات ہیں، جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور تم ہمیشہ انہی میں رہنے والے ہو اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔”

سورہ احزاب میں اس حقیقت کو کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے: إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَ الْمُسْلِمَتِ وَ الْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَتِ وَ الْقَنِتِينَ وَ الْقَنِتَتِ وَ الصَّدِقِينَ وَ الصَّدِقَتِ وَ الصَّبرِِينَ وَ الصَّبرَِاتِ وَ الْخَشِعِينَ وَ الْخَشِعَتِ وَ الْمُتَصَدِّقِينَ وَ الْمُتَصَدِّقَتِ وَ الصَّئمِينَ وَ الصَّئمَتِ وَ الحَْفِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَ الْحَفِظَتِ وَ الذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَ الذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لهَُم مَّغْفِرَةً وَ أَجْرًا عَظِيمًا “بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور صابر مرد اور صابر عورتیں اور فروتنی کرنے والے مرد اور فروتنی کرنے والی عورتیں اور صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں، روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی عفّت کی حفاظت کرنے والے مرد اور عورتیں اور خدا کا بکثرت ذکر کرنے والے مرد اور عورتیں. اللہ نے ان سب کے لئے مغفرت اور عظیم اجر مہّیا کر رکھا ہے۔”

نیک کاموں میں خواتین کی اہمیت
قرآن مجید نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں بھی عورتوں کو مردوں کے مساوی اہمیت دی ہے۔ نمونے کے طور پر یہ آیت ملاحظہ فرمائیں: وَ الْمُؤْمِنُونَ وَ الْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَ يُقِيمُونَ الصَّلَوةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكَوةَ وَ يُطِيعُونَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ أُوْلَئكَ سَيرَْحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ(71) “اور مومن مرد اور مومنہ عورتیں ایک دوسرے کے بہی خواہ ہیں، وہ نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ رحم فرمائے گا، بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔”

ماں کا خصوصی احترام
اسی طرح احترام والدین کا حکم دیتے ہوئے خداوندِ عالم نے نہ صرف یہ کہ ماں کو باپ کے برابر قرار دیا ہے بلکہ ماں کے ایثار کو خصوصیت کے ساتھ سراہا بھی ہے۔*وَ قَضىَ‏ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُواْ إِلَّا إِيَّاهُ وَ بِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَنًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبرََ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لهَُّمَا أُفٍ‏ّ وَ لَا تَنهَْرْهُمَا وَ قُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا۔وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلّ‏ِ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُل رَّبّ‏ِ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانىِ صَغِيرًا۔ “اور آپ کے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیکی کرو، اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے پاس ہوں اور بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا بلکہ ان سے عزت و تکریم کے ساتھ بات کرنا اور مہر و محبت کے ساتھ ان کے آگے انکساری کا پہلو جھکائے رکھو اور دعا کرو: پروردگارا! ان پر رحم فرما، جس طرح انہوں نے مجھے پچپن میں (شفقت سے) پالا تھا۔”

اسی طرح ایک اور مقام پر ارشادِ پروردگار ہے: وَ وَصَّيْنَا الْانسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَ وَضَعَتْهُ كُرْهًا وَ حَمْلُهُ وَ فِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شهَْرًا حَتىَّ إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَ بَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبّ‏ِ أَوْزِعْنىِ أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتىِ أَنْعَمْتَ عَلىَ‏َّ وَ عَلىَ‏ وَالِدَىَّ وَ أَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَئهُ وَ أَصْلِحْ لىِ فىِ ذُرِّيَّتىِ إِنىّ‏ِ تُبْتُ إِلَيْكَ وَ إِنىّ‏ِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ۔ “اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ پر احسان کرنے کا حکم دیا، اس کی ماں نے تکلیف سہ کر اسے پیٹ میں اٹھائے رکھا اور تکلیف اٹھا کر اسے جنا اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس ماہ لگ جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب وہ رشد کامل کو پہنچا اور چالیس سال کا ہوگیا تو کہنے لگا: پروردگار! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کروں، جس سے تو نے مجھے اور میرے والدین کو نوازا اور یہ کہ میں ایسا نیک عمل کروں، جسے تو پسند کرے اور میری اولاد کو میرے لیے صالح بنا دے، میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور بے شک میں مسلمانوں میں سے ہوں۔” عورت معاشرے کا اہم ترین جزو ہی نہیں بلکہ روحِ رواں بھی ہے، کائنات کی زیبائی، اولاد کی تربیت، زندگی کا حسن ایک بااخلاق، عفیف اور پاکدامن عورت سے ہی قائم ہے۔ ایک شخص نے پیامبر اسلام ﷺسے پوچھا میں کس سے نیکی کروں۔؟ آپؐ نے فرمایا ماں سے، اس نے دوبارہ پوچھا آپ نے پھر وہی جواب دیا، اس نے تیسری مرتبہ پوچھا، آپ نے پھر وہی جواب دیا، حتّیٰ کہ اس نے چوتھی مرتبہ پوچھا آپ نے فرمایا باپ کے ساتھ۔

حضرت امام خمینی کی نگاہ میں عورت
حضرت امام خمینی فرماتے ہیں کہ دنیا میں خواتین کا اثر خاص خوبیوں کا حامل ہے۔ کسی بھی معاشرے کی تعمیر و تخریب اس معاشرے کی خواتین کی تعمیر و تخریب سے ہی جنم لیتی ہے۔ عورت واحد عنصر ہے جو اپنے دامن سے ایسے افراد معاشرے کے سپرد کرسکتی ہے کہ جن کی برکات سے ایک معاشرہ نہیں بلکہ کئی معاشرے عزت و استقامت اور اعلیٰ انسانی اقدار میں ڈھل سکتے ہیں اور عورتوں کے باعث ہی اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ایک اور مقام پر آپ فرماتے ہیں کہ معاشرے کی تربیت عورت کرتی ہے۔ عورت کی گود سے ہی انسان جنم لیتے ہیں۔ عورت اور مرد دونوں کے صحیح و صالح ہونے کا پہلا مرحلہ عورت ہی کی گود ہے۔ عورت انسانوں کی تربیت کرتی ہے۔ ممالک کی خوش بختی اور بدبختی عورتوں کے وجود پر ہی منحصر ہے۔ عورت ہی انسانوں کی تربیت کرتی ہے اور صحیح تربیت کرکے ممالک کو آباد کرتی ہے۔ تمام خوش بختیوں کا سرچشمہ عورت کی گود ہی ہے۔

رہبر معظم کی نگاہ میں عورت
رہبرِ معظم سید علی خامنہ ای نے عورت کے مقام و مرتبے کے حوالے سے فرمایا ہے کہ اسلامی نکتہ نظر سے بعنوان انسان کمال کے تمام مراحل عورت کو طے کرنے چاہیئے۔ عورت بھی مرد کی طرح ایک دانشمند، موجد اور فلسفی بن کر سیاسی، دفتری اور حکومتی کاموں میں معاشرے کی خدمت کرسکتی ہے۔ رہبر معظم نے ایک اور مقام پر عورت کے بارے میں الحادی اور مشرک قوتوں کے افکار کا اسلامی افکار سے فرق کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ الحادی طاقتیں عورت سے اس کے بنیادی اوصاف جیسے حجاب، عفّت اور پاکدامنی کو چھیننے پر تلی ہوئی ہیں جبکہ اسلام عورت کو اس کی تمام تر صفات کے ساتھ معاشرے میں ممتاز اور سربلند دیکھنا چاہتا ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ “یہ اسلامی نگاہ ہے کہ عورت کے تمام احساسات اور خوابوں کو زنانہ خصوصیات کے ساتھ ہی محفوظ کیا گیا ہے۔ اس پر کسی قسم کا دباو نہیں ڈالا گیا۔ عورت کے تمام احساسات اور فطرت کا محور “عورت ہونا ہی” ہے۔ اسلام نے جیسے عورت کے عورت ہونے کی حفاظت کی ہے، اسی طرح علم، معنویت، پرہیزگاری اور سیاسی میدان کے دروازے بھی اس کے لیے کھولے ہوئے ہیں اور اسے بھی حصول علم کی رغبت دلائی ہے۔

پاکستانی معاشرے میں خواتین کی اہمیت
ایک طرف تو اسلام کی تعلیمات ہیں اور دوسری طرف پاکستانی مسلمانوں کی زندگی اور معاشرہ ہے۔ صنف ِنازک کے موضوع پر ان دونوں میں شدید اختلاف اور تعارض دیکھنے میں آتا ہے۔ اسلام خواتین کو گوہر مقدس سمجھتا ہے اور ان کی تعلیم و تربیت اور عزت و ناموس کی حفاظت کو ہر چیز پر مقدم گردانتا ہے۔ دوسری طرف عملی طور مسلمان گھرانوں اور سماج میں خواتین کی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ بہت کم خواتین کو اسلامی اقدار اور ماحول کے مطابق تعلیم و تربیت اور معاشرتی خدمات انجام دینے کے مواقع میسر آتے ہیں۔ ایک طرف زمانہ جاہلیت کی طرح آج بھی خواتین کے نقش و نگار کو شعر و شاعری کا موضوع بنایا جاتا ہے اور اُن کے جسمانی خدوخال کو فلموں و ڈراموں میں نمایاں کرکے دکھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ خواتین کو گھورنا، ہراساں کرنا، آوازے کسنا اور اُن کے راستوں میں بیٹھ جانا، ان سب برائیوں کو جرم یا گناہ تصور ہی نہیں کیا جاتا اور دوسری طرف عورتوں کا مال مویشیوں کی طرح خرید و فروخت کرنا اور جانوروں کا سا لین دین کرنا، انہیں تعلیم سے محروم رکھنا اور انہیں ہر برائی کی جڑ سمجھنے کو اسلامی اقدار سمجھ لیا گیا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ عزت اور غیرت نیز مختلف علاقائی و قبائلی رسموں وغیرہ کے نام پر عورتوں کو ہی نشانہ بنایا جاتا ہے۔

مسلمان گھرانوں میں خاص طور پر دیہی علاقوں میں بات بات پر خواتین کو بے شعور ہونے کا طعنہ تو دیا جاتا ہے، لیکن اُن کی تعلیم و تربیت پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ اس عدم توجہ کا نتیجہ افلاس، پسماندگی، جہالت اور دہشت گردی کی صورت میں آج ہمارے سامنے موجود ہے۔ ظاہر ہے جہاں پر عورت کو پسماندہ رکھا جائے اور اس کی تعلیم و تربیت پر قابل ذکر توجہ نہ دی جائے، وہاں پر اچھی، پروقار اور باشعور نسل جنم نہیں لے سکتی۔ ان پڑھ اور غیر تعلیم یافتہ ماوں کی گودوں میں دہشت گرد اور سماج دشمن افراد ہی پروان چڑھا کرتے ہیں۔ آج ہم پاکستان میں بخوبی یہ تجربہ کرچکے ہیں کہ جس صوبے کی خواتین جتنی پسماندہ اور عقب ماندہ ہیں، وہیں مجموعی طور پر بھی پسماندگی و عقب ماندگی سب سے زیادہ ہے۔ یعنی خواتین اور صوبوں کی ترقی لازم و ملزوم ہے اور یہی حال ملکی و قومی ترقی کا بھی ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں مذہبی کارڈ سب سے زیادہ چلتا ہے، وہاں پر خواتین کا استحصال بھی مذہب کے نام پر ہی زیادہ ہوتا ہے۔ ان دونوں صوبوں میں مذہبی متشدد رویئے خواتین کی تعلیم اور اُن کے سماجی کردار کے راستے میں حائل ہیں۔ یہاں پر اکثر روندے ہوئے جذبات اور کچلے ہوئے احساسات کے ساتھ خواتین پروان چڑھتی ہیں اور پھر اُن کی آغوش میں ایسی ہی نسل جوان ہوتی ہے، جو دوسروں کے عقائد و جذبات و احساسات کو درک کرنی سے عاری دکھائی دیتی ہے۔ صوبہ سندھ اور پنجاب میں عورت کولہو کے بیل کی طرح کام کرتی ہے، اسے آپ اینٹوں کے بھٹوں، کھیتوں میں کام کرتے اور جنگلوں سے لکڑیاں کاٹ کر لانے بلکہ بعض جگہوں پر تعمیراتی کاموں میں مشقت کرتے ہوئے بھی دیکھ سکتے ہیں۔

آزاد کشمیر میں بھی عام طور پر خواتین کو اچھوت سمجھا جاتا ہے۔ اکثر مرد حضرات کے دماغوں میں پہلے سے ہی یہ بیٹھا ہوا ہوتا ہے کہ عورتیں احمق اور بیوقوف مخلوق ہیں۔ وہاں بھی خواتین کو معاشرتی مسائل میں حصہ لینے اور ملک و قوم کی خدمت کیلئے تعلیم دلانے کے بجائے، کچھ نہ کچھ تعلیم اس لئے دلائی جاتی ہے، چونکہ اب وہاں ڈگری بھی سوشل اسٹیٹس (معاشرے میں مقام و مرتبے) کیلئے ضروری سمجھی جاتی ہے۔ آزاد کشمیر کے بہت سارے علاقوں میں بچیوں کی شادی بیاہ کے موقعوں پر زیورات کی طرح تعلیمی ڈگری کو بھی خاص اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ اس عمل کا ردعمل بھی ان بچیوں کی آغوش میں پلنے والی نسل کی روزمرہ زندگی میں دکھائی دیتا ہے۔ اب وہاں کے نوجوانوں کی اکثریت ڈگری اور سند کی تلاش میں ہوتی ہے۔ کچھ آئے یا نہ آئے، نام کے ساتھ کسی نہ کسی دینی یا دنیاوی تعلیمی ڈگری یا سند کا ذکر ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے۔

مطلوبہ شعور اور سلیقہ
پاکستان میں کہنے کو تو خواتین کی اہمیت اور حقوق کے نعرے تو بہت لگائے جاتے ہیں، سیاستدان، حکمران، مذہبی اشرافیہ، این جی اوز اور والدین سب خواتین کی حالتِ زار کا رونا روتے ہیں، لیکن عملاً آج بھی مجموعی صورتحال ویسی ہی ناگفتہ بہ ہے، جیسی ماضی میں تھی۔ یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان جیسے اسلامی ملک میں سرکاری و قومی یا معاشرتی سطح پر خواتین کے لیے اسلامی تعلیمات کے مطابق کوئی معیاری، معتدل اور موزوں منصوبہ بندی موجود نہیں ہے۔ مختلف عوامی حلقوں کی طرف سے بھی زیادہ سے زیادہ بچیوں کے لیے سلائی کڑائی کے مراکز، پبلک سکول یا چھوٹا موٹا دینی مدرسہ یا ہاسٹل بنانے پر ہی اکتفا کر لیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں بچیوں کو تعلیم دلانے کا رجحان نسل در نسل کم ہی ہے، جس کی وجہ سے بہت ساری بچیاں یا تو سکولوں میں داخل ہی نہیں کرائی جاتیں اور اگر داخل ہو بھی جائیں تو جلد یا بدیر تعلیم نامکمل چھوڑ کر گھر بیٹھ جاتی ہیں۔

بہت سارے علاقوں میں اگر بچیاں میٹرک کر بھی لیں تو اس کے بعد دینی ماحول میسر نہ ہونے کے باعث مجبور ہوکر انہیں تعلیم ترک کرنا پڑتی ہے۔ بچیوں کو روزانہ تعلیمی درسگاہوں تک لانا اور واپس لے جانا بھی ایک مسئلہ ہے۔ ہمارے ہاں آج بھی خواتین آزادانہ طور پر اکیلے اپنی تعلیمی درسگاہوں تک بھی نہیں جا سکتیں۔ انہیں باقاعدہ باپ یا بھائی کی صورت میں روزانہ ایک سکیورٹی گارڈ (محافظ) یا خصوصی ٹرانسپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ سب خاندان سکیورٹی گارڈ یا خصوصی ٹرانسپورٹ سروس فراہم نہیں کرسکتے اور یوں بھی بہت ساری بچیاں تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں، چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانیوں میں پائی جانے والی بے راہروی بھی خواتین کی تعلیم و تربیت کے راستے میں ایک اہم مگر غیر محسوس رکاوٹ ہے۔ ہمارے ہاں خواتین کے حوالے سے زبانی ہمدردی اور جمع خرچ کا رواج تو ہے لیکن عملاً مشکلات کو حل کرنے کا شعور اور سلیقہ ابھی تک مطلوبہ سطح کو نہیں پہنچا۔

نتیجہ
دین اسلام خواتین کی آغوش کو انسان ساز قرار دیتا ہے، انسان کی پہلی یونیورسٹی اور تربیت گاہ ماں کی گود ہے۔ یہیں پر انسان کی سوچ کا حدود اربعہ طے ہوتا ہے اور یہی گود اس کے رویئے اور کردار کا سانچہ ہوتی ہے۔ ماں، بہن اور بیٹی کے روپ میں عورت سے منسوب رشتے انسانی گفتار و کردار پر انمٹ اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ایسے میں پاکستان جیسے اسلامی و نظریاتی ملک اور مسلمانوں کے معاشرے میں خواتین کی تعلیم و تربیت کا مناسب انتظام نہ ہونا انتہائی افسوسناک امر ہے۔ اگرچہ کچھ ادارے اس حوالے سے سرگرم نظر آتے ہیں لیکن ان کا دائرہ کار یا تو انتہائی محدود ہے اور یا پھر زیادہ تسّلی بخش نہیں ہے۔ خصوصاً میٹرک کے بعد والدین کو بچیوں کی تعلیم کے حوالے سخت مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ یوں تو ہمارے اکثر سرکاری تعلیمی اداروں میں مناسب رہنمائی، دینی ماحول اور الہیٰ افکار کا سایہ خال خال ہی نظر آتا ہے اور اربابِ اقتدار کو اس سلسلے میں کوئی خاص دلچسبی بھی نہیں ہے، لیکن ایسے میں اپنی نوجوان نسل خصوصاً طالبات کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا یقیناً بہت بڑی غلطی ہے۔ ہمیں چاہیئے کہ اس سلسلے میں ہم معاشرے میں اسلام کی تعلیمات کا اجرا کریں اور خواتین کو ان کا حقیقی مقام دلانے میں ہر ممکنہ تگ و دو کریں۔

آج پاکستان میں خواتین کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی جتنی شدید ضرورت ہے، عوامی سطح پر اسلام کے درست فہم اور شعور کی اتنی ہی شدید کمی بھی ہے۔ آج پاکستان میں عوامی سطح پر خواتین کی دینی و دنیاوی تعلیمی و تربیتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایسے معیاری اداروں کا خلاء واضح طور پر موجود ہے، جن کی شاخیں پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہوں اور عام خواتین کی ان اداروں تک رسائی بھی آسان ہو اور والدین اور دینی حلقے بھی اس کے ماحول اور تربیّت کے حوالے سے مطمئن ہوں۔ آج ضرورت ہے کہ پاکستانی خواتین کو دینی رجعت پسندی اور مذہبی متشدد رویوں سے بچاو کے ساتھ ساتھ مغربی افکار کے مطابق پیسے کمانے اور جنسی لذت کی مشین بننے سے بھی بچایا جائے، عورت کو یہ باور کرایا جائے کہ وہ طالبانی نظریات کے مطابق ایک پالتو حیوان یا شیطانی افکار کے مطابق “صرف جنسی جانور” نہیں ہے بلکہ ماں بہن، بیٹی اور بیوی جیسے مقدس و حسین رشتوں میں ڈھلی ہوئی ایک انسان ساز درسگاہ اور یونیورسٹی ہے۔ چنانچہ گھٹیا لٹریچر، لچر فلموں اور ڈراموں میں عورت کو معشوقہ، محبوبہ، مظلومہ اور مجبور بنا کر پیش کرنے کے بجائے، اس کی حقیقی تصویر پیش کی جائے اور اسے قوم کی عزّت ہونے کے ناطے اس کا حقیقی کردار ادا کرنے کی ترغیب دی جائے، تاکہ وہ معاشرے میں مفید اور موثر کردار ادا کرسکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر پاکستانی معاشرے میں خواتین کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ان کا حقیقی مقام عطا کیا جائے اور ان کے لیے بہترین تعلیمی اداروں خصوصاً دینی تعلیم و تربیّت کا اہتمام کیا جائے تو پسماندگی اور جہالت جیسے مسائل کافی حد تک کم ہوسکتے ہیں اور پاکستان میں ایک حقیقی اسلامی معاشرے کی تشکیل کے خواب کو پورا کرنے میں کافی حد تک مدد مل سکتی ہے۔ ملکی ترقی اور قومی خوشحالی کے لئے والدین اور ارباب حل و عقد کو اپنی ترجیحات میں خواتین کو بھی مردوں کے مساوی اہمیت دینی ہوگی۔ خواتین کو اہمیت دیئے بغیر ملکی و ملی تعمیر و ترقی کے سارے منصوبے پانی کی موجوں پر نقشے بنانے کے مترادف ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع و ماخذ
قرآن مجید
آئینہ زن۔ دفتر مطالعات و تحقیقات زن،۱۳۹۶
پیشوائی، مہدی، تاریخ اسلام، انتشارات موسسه آموزشی و پژوهشی امام خمینی، ۱۳۸۵قم
دورانت، ویل، تاریخ تمدن، بنگاه ترجمه و نشر کتاب پارسا ۱۳۸۵تہران
دورانت، ویلیام جیمز، عصر ایمان، ترجمہ ابو طالب صارمی، ناشر: اقبال تہران ۱۳۹۰
زریاب، عباس، سیرہ رسول اللہ ص، ناشر: اسرا، ۱۳۹۵قم
سیمای زن در کلام امام خمینی، تهران: وزارت فرهنگ و ارشاد اسلامی، ۱۳۶۵
طباطبائی، محمد، حسین تفسیرالمیزان، انتشارات دارالفکر، ۱۳۸۲قم
عاملی، حر، وسائل الشیعہ، ناشر: منشورات ذوی القربی قم ۱۳۸۰
قمی، عباس، سفینۃ البحار، انتشارات موسسه آموزشی و پژوهشی امام خمینی، ۱۳۸۵قم
مجموعه مقالات هم اندیشی ج 2، مقاله: اشتغال زنان در جامعه، دکتر مسعود آذربایجانی
نصیری، علی، مقالہ سیمای زن در اسلام

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply