• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • زیاں (روح و دل کو پاش پاش کرتی داستان )تیسرا،آخری حصّہ۔۔محمد وقاص رشید

زیاں (روح و دل کو پاش پاش کرتی داستان )تیسرا،آخری حصّہ۔۔محمد وقاص رشید

اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ میرے والد اور دیگر شرکاء کے جاتے ہی قاری اظہر اور اسکے ساتھی نے مجھے بلایا اور کہا کہ کس کی اجازت سے تو وہاں بڑھ بڑھ کر یہودو نصری کی زبان بول رہا تھا فلاں فلاں کے بچے۔۔۔ آج دیکھ تیری جرات تیری ۔۔سے نہ نکال دی تو۔۔۔تیرے جیسے بڑے دیکھے۔ ۔ فلاں فلاں کی نسل اور اسکے بعد مجھ پر وہ تشدد ہوا کہ آج مجھے پہلی دفعہ لگ رہا تھا کہ ہاں آج شاید وہ خدا میری سچائی کو قبول کر لے۔ انہوں نے اتنا مارا کہ میرا جسم سارا نیلا پڑ گیا مجھے لگا شاید آج یہ مجھے جان سے مار دیں گے ۔وہ مجھے پائپ ،تار اور بانس کی چھڑی سے مار رہے تھے ۔وہ میرے نازک اعضا ء پر ضربیں لگاتے ہوئے ایسے وحشیانہ انداز میں ہنستے اور جو جملے بولتے تھے وہ میں آپکو بتا نہیں سکتا ۔آج میں نے انکی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا اور بدلے میں انہوں نے میری کوئی رگ ایسی نہ چھوڑی جو دکھتی نہ ہو۔  اسکے بعد مجھے الٹا لٹکا دیا گیا  اور یہ کہا گیا کہ اگر آئندہ زندگی بھر کے لیے توبہ نہ کی تو واقعی جان سے مار دیں گے۔ ۔ میں بیچ میں بے ہوش بھی ہوا ۔ میرے ناک سے بھی خون بہہ رہا تھا پھر مجھے رسی سے اتارا گیا اور ایک کمرے میں بند کر دیا گیا۔

اس رات میں نے خدا سے کہا اے زبانوں کی قید سے ماورا پروردگار۔۔۔۔صبح تک زندہ رہا تو تجھ سے اردو یا پنجابی میں ملاقات کر لوں گا لیکن میں اس دین کے تعلیم کو نہیں مانتا جو تیرا علم نہ دے۔  میں وحشیانہ تشدد کے نتیجے میں ملنے والی جنت سے انکار کرتا ہوں۔  میں اپنی زندگی کو دوزخ بنا کر اپنے ننھے جسم کے حصوں کو جہنم کی آگ سے پاک کرنے سے ناپاک ہی بھلا ۔میں اپنا بدلہ اگلی نسل کے معصوم بچوں سے لینا تیرے سلامتی و رحمت کے دین کی توہین سمجھتا ہوں اور اس توہین میں شراکت دار بننے سے انکار کرتا ہوں۔۔توبھی جانتا ہے اور میں بھی جانتا ہوں کہ یہ بھیڑیے درندے وحشی کائنات کے سب سے مشفق ، نرم خو، محسنِ انسانیت اور عالمین کے لیے رحمت کے پیامبر صلی اللہ علیہ وسلم کے فلسفے کے وارث نہیں میں ان نام نہاد انبیاء کے وارثوں کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتا ہوں ،مجھے راستہ دکھا اور میری مدد فرما ۔اے رحم دل مددگار مشکل کشا اے ازلی و ابدی شہنشاہ ۔

خدا نے میری دعا سن لی لیکن اپنے طریقے سے۔۔۔ میں اس کمرے میں نیم بے ہوشی کی حالت میں پڑا تھا۔۔۔کہ مجھے تھوڑا تھوڑا ہوش آنے لگا۔۔مجھے اس کمرے کے ساتھ ملحقہ ایک سٹور روم سے قاری اظہر کے بولنے کی آواز آئی۔ میری چھٹی حس مجھے کسی غیر معمولی صورتحال کی نشاندہی کی  ۔میں انتہائی غیر محسوس انداز میں کھڑکی کے ساتھ جا کر لگ گیا ۔جالی کے ساتھ ایک آنکھ میں نے ٹکائی تو میرے زخمی پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی ۔سر پر سے آسمان تو پہلے ہی چھن چکا تھا، دل اچھل کر حلق سے باہر آنے کو بے تاب تھا، میرے جسم سے پسینہ چھوٹ گیا ۔ کاش اس وقت زمین پھٹتی اور یہ سب کچھ غرق ہو جاتا۔  کاش آسمان ٹوٹ کر ہم پر گرتا اور اس بھیانک منظر سمیت سب کچھ ملیا میٹ ہو جاتا ۔میں نے پہلے سوچا کہ شور مچاؤں۔۔۔ چیخوں چلاؤں، دھاڑوں۔ ۔ مگر پھر میں نے سوچا کہ بے موت مرنے سے کسی مقصد کے تحت جینا بہتر ہے۔  میں خاموشی سے واپس آ کر اپنی جگہ پر لیٹ گیا  لیکن نیند آنکھوں سے گرتے آنسوؤں کے ساتھ بہہ گئی ۔ میرے آنسو پگھلے ہوئے سیسے کی طرح دل پر گر رہے تھے، سینے میں وہ گھٹن تھی کہ الامان الحفیظ۔۔۔میں خدا سے مخاطب ہوا۔

کتنا بڑا ظرف ہے تیرا۔۔۔ تو واقعی پروردگار ہے، تو واقعی مالکِ کائنات ہے، تو واقعی اللہ اکبر ہے ۔ اے میرے کبریا ۔ لیکن میں کیا کروں میرے مالک۔۔۔ میں تو تیرا نائب آدم ہوں۔  یہ منظر کیسے دیکھ پاؤں۔  میرے پاس تیرے جتنا نہ  ظرف ہے نہ صبر ،نہ اختیار نہ فراست۔۔ میں کسی طرح انسانیت کی یہ توہین برداشت کروں۔۔۔ دن رات تیرے اور تیرے رسول ص کے نام کی مالا جپتے یہ بہروپیے،کتنے غلیظ ہیں۔۔۔۔ مگر میں کائنات کے سب سے شفاف اور مطہر ہستی محمد رسول اللہ کی نسبت پر یہ غلاظت یہ گندگی کیسے برداشت کروں۔۔ اے میرے رب

اگلے ہی لمحے جو خیال میرے ذہن میں آیا اس نے میرے ذہن و دل میں ایک تسکین کا احساس پیدا کیا مگر اسکے ساتھ جڑی سنسنی رگ و پے میں اضطراب بھی لا رہی تھی۔۔۔۔اسی دوراہے کے بستر پر میں نے اپنی نم آنکھیں موند لیں۔

صبح آنکھ کھلی تو یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ بھوک پیاس کی شدت زیادہ ہے یا  جسم پر لگے زخموں کی اذیت یا رات دیکھے گئے انسانیت سوز اور درندہ صفت منظر کی وحشت۔

میں قاری اظہر کے پاس گیا اور اسکے پیروں میں گر کر کہا۔  مجھے معاف کر دیں استاد جی، مجھ سے بڑی غلطی ہو گئی ۔ میں ساری رات پچھتاتا رہا۔۔۔ مجھے ایک موقع عنایت فرمائیں ۔ آپ ایک بالکل بدلے ہوئے حاشر کو دیکھیں گے، بالکل بدلے ہوئے حاشر کو۔۔۔۔ جسکی زندگی کی سمت ہی بدل جائے گی،  مقصدِ حیات ہی کچھ اور ہو گا۔ ایک موقع دے دیں پلیز ۔

قاری نے فاتحانہ مسکراہٹ اور بھرپور رعونت سے پیر جھٹکے اور اپنے جونئیر قاری کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔۔ ہاں کہا تھا ناں ۔ نکلے بل رسی کے کہ نہیں۔ ۔ قاری اظہر نے بڑے بڑے سورموں کو سیدھا کیا یہ چھچھوندر کیا چیز ہے۔ ۔ چل بے۔ ۔ جا اب اور آئندہ ناک کی سیدھ میں چلیں ۔۔ اور آج کی رات یاد رکھیں ۔
وعدہ قاری صاحب۔۔  عزت والے خدا کی قسم آج کی رات زندگی میں تو کیا مرنے کے بعد بھی نہیں بھولوں گا ۔اور یہ کہہ کر میں لنگڑاتا اور لڑ کھڑاتا ہوا وہاں سے طالب علموں کے پاس آ گیا۔۔

مجھے پورا ہفتہ لگ گیا۔۔۔۔زخموں کو مندمل ہونے میں۔۔۔لیکن مجھے جسم کے زخموں کو بھرنا اور روح کے زخم کو ہرا رکھنا تھا تا کہ اسکی اذیت مجھے اپنے منصوبے پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد دے۔

ثاقب کو میں اکثر دیکھتا تھا وہ گم سم سا رہتا تھا۔۔وہ ان چند بچوں میں سے تھا جو کہ دوسروں کو مار پڑتا دیکھ کر ہنستے یا حظ نہیں اٹھاتے تھے۔ ایک اور بات اس مدرسے کے ماحول کی عجیب تھی جنسیت کے موضوع پر شرعی مسائل ہوں ،عورت کا تذکرہ ہو ، حتی کہ قومِ لوط کا قرآنی قصہ ہو۔  قاری اظہر اور اسکے جونئیر کا انداز کبھی مذمتی ،سنجیدہ اور فکر مندی والا نہیں ہوتا تھا بلکہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان چیزوں پر وہ لطف اٹھانے کے انداز میں گفتگو کرتے تھے  ۔ اگر خدا کسی چیز کو عبرت پکڑنے کے لئے بیان کر رہا ہے تو یہ کیسی عبرت ہے جس سے انسان لطف اٹھاتے ہوں ،قہقہے لگاتے اور لگواتے ہوں ،اس پر جگتیں کرتے ہوں ۔ یہ سب بڑا شرمناک تھا۔۔ لیکن ثاقب کو یہاں بھی یہ بات ممتاز کرتی تھی کہ وہ اسطرح کی بے ہودگی پر ہنستا نہیں تھا۔۔بلکہ جھینپ جاتا تھا۔۔۔تو پھر اس رات وہ وہاں۔۔۔۔۔ کیوں۔۔۔ کیسے ؟

میں نے موقع جان کر ایک دن ثاقب سے کہا۔۔۔یار تجھ سے ایک بات کرنی ہے۔ ۔ ثاقب نے کہا جی۔۔۔میں نے لگی لپٹی کے بغیر ہمت کی اور اس سے کہا ۔ میری زندگی کا مقصد اب اس شیطان سے بچوں کو بچانا ہے جس نے ایک دینی درسگاہ کو جسمانی اور جنسی تشدد کا اکھاڑہ بنا رکھا ۔جب میں نے یہ کہا تو اچانک ثاقب کی آنکھیں ایک لمحے کے لیے حیرت سے کھلیں اور پھر ان میں ایک نمی تیرنے لگی۔۔۔۔ اس نے کہا ۔ حاشر بھائی آپ کو۔ ۔۔ کیسے۔۔۔۔میرا مطلب ؟ ۔اور میں نے اسکی مشکل آسان کرنے کے لئے جھٹ سے اسے اس رات کی روداد سنا دی۔۔۔۔اور اپنے منصوبے سے آگاہ کیا۔۔۔ اور اس سے انسانیت کی بھلائی کے لیے مدد مانگی ۔ اس نے کہا کہ اگر پکڑے  گئے تو کیا کریں گے۔  یہ سفاک درندہ جان سے مار دے گا اور ویسے بھی میں کہاں جاؤں گا۔  میرے تو ماں باپ ہی نہیں۔  ایک چچا نے پالا اور چچی نے سر سے بوجھ اتارنے کے لیے یہاں دفع کر دیا ۔دو تین اور بھی ہیں میرے جیسے جو کہ سماجی لحاظ سے کٹی پتنگ جیسے ہیں  ،زندگی کے دریا کی لہروں پر تیرتے خس و خاشاک کی طرح۔  انہیں ڈرا دھمکا کر  وہ شیطانیت کا کھیل رچاتا ہے۔  میں نے کہا۔۔۔ ایسے عالم بننے سے جاہل رہنا بہتر ہے ۔ جس میں اس ظلم پر خاموش رہ کر اسکی اعانت کرنی پڑے۔ خدا نے ہمیں قرآن میں حکم دیا کہ نیکی اور اچھائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور برے کاموں میں ہر گز تعاون نہ کرو۔ ۔اس نے کہا ٹھیک ہےپھر ۔۔۔ منصوبہ کیا ہے؟ ۔

مدرسے کے ساتھ والے محلے میں ایک صحافی تھا جس سے کبھی کسی تقریب وغیرہ میں ملاقات ہو ہی جاتی تھی ۔وہ ایک پچیس چھبیس سال کا انتہائی محنتی اور راست گو آدمی تھا ۔وہ مجھے نہ جانے کیوں دیانت دار آدمی بھی لگتا تھا ۔ وہ اپنے صحافتی کیریئر میں کسی بلاک بسٹر سٹوری کی تلاش میں تھا ۔میں ایک دن نظر بچا کر عصر کے بعد اسی دیوار کو پھلانگ کر نکلا اور اس صحافی کے گھر پہنچ گیا ۔خدا کا شکر کہ وہ گھر پر ہی تھا ۔ میں نے اسے بیٹھک کھولنے کا کہا اور وقت کی کمی کے باعث ساری بات فورا ً  اسے بتا دی۔  وہ سن کر اپنے صوفے سے اچھل پڑا۔  اور مجھ سے کہا۔۔۔ خدا کی پناہ۔ ۔ اب تمہارے ذہن میں کیا منصوبہ ہے ؟ میں نے کہا۔۔۔۔رنگے ہاتھوں پکڑوانا۔۔۔ آپ نے اگلی چند راتیں مدرسے کے آس پاس ہی رہنا ہے اب جس دن وہ ثاقب کو مجبور کرے گا میں وہاں شور مچا دوں گا۔  اور آپ وہاں پہنچ جائیں اور پھر پولیس کو کال کر دیجیے گا  ۔ چلو ٹھیک ہے ۔۔اس بات کا ثاقب کے علاوہ کسی سے تذکرہ مت کرنا۔۔۔۔مغرب کی اذان ہونے میں کچھ ہی دیر باقی تھی۔۔۔۔میں وہاں سے بھاگا اور مدرسے پہنچ گیا ۔

اس سے ٹھیک چوتھی رات کو ثاقب نے مجھے بتایا کہ اس بے شرم شیطان نے اسے آج بلایا ہے۔ ۔میں نے اسے کہا ٹھیک ہے بس تو بے فکر رہ۔۔۔۔ آج انشاللہ خدا کی نصرت ساتھ ہو تو اسے کیفرِ کردار تک پہنچا کر دم لیں گے۔  رات تقریباً ایک بجے جب میں سونے کی اداکاری کرتے ہوئے چادر کے اندر ایک سوراخ کر کے باہر کا منظر دیکھ رہا تھا تو وہ بد صفت آیا اور ثاقب کے بستر کے پاس آیا اور اسکا پاؤں ہلایا اور اس کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔ ۔ تھوڑی دیر بعد ثاقب بھی اٹھا میرے بستر کے قریب سے گزرتے ہوئے میرے پاؤں پر ٹھوکر لگا کر اس طرف دیا۔۔۔  میں تھوڑی دیر میں خاموشی سے اٹھا اور پچھلی دیوار کی طرف رینگتے ہوئے پہنچا۔  وہاں پر وہ صحافی اورنگزیب موجود تھا۔ اس نے جیب سے موبائل نکالا اور پولیس کو اطلاع کر دی ۔میں اس کمرے کے پاس گیا اور اپنی پوری قوت سے چیخنے چلانے لگا۔ دیکھو یہ شیطان کیا کر رہا ہے۔  اٹھو سب طالب علموں،او محلے والو دیکھو اسے۔  او کوئی پولیس کو بلاؤ۔۔۔۔۔ یہ ثاقب سے زبردستی بد فعلی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ ظالم یہ جابر یہ بے شرم۔۔۔ خود کو انبیاء کا وارث کہتا ہے  اور کسی کے سر پر باپ کا سایہ نہ ہونے کا نا جائز فائدہ اٹھاتا ہے ،قاری اظہر کا جونئیر اور اسسٹنٹ ایک ڈنڈا لے کر میری طرف بڑھا۔  لیکن آج خدا نے ننھی ابابیلوں سے ہاتھیوں کو مروانے کا فیصلہ کر لیا تھا اور تمام طلبا اٹھ کر آ گئے اور میری ڈھال بن گئے ۔ اتنے میں صحافی اورنگزیب دیوار پھلانگ کر اندر آیا۔۔۔اور کچھ ہی دیر بعد پولیس بھی آ گئی۔۔۔ جو کہ قاری اظہر کو مجھے اور ثاقب کو ساتھ لے گئی۔۔۔۔وہاں پولیس کے سامنے سارا ماجرا رکھا۔ ۔ثاقب نے ساری بات بتائی کہ کس طرح اس نے اسکو بے آسرا اور بے یارو مددگار جان کر زبردستی جال میں پھانسنے کے لئے ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا۔ اور ڈرا دھمکا کر کیسے خوفزدہ رکھ کر دینی تعلیم کی آڑ میں اپنی خباثت و قباحت ظاہر کرتا رہا ۔صحافی اؤرنگزیب نے اگلے ہی دن اپنی اخبار میں مین پیج پر اس کریمنل سٹوری کو اس رات لی گئی تصاویر کے ساتھ بریک کیا۔ ۔لیکن ابھی عشق کے امتحان اور بھی تھے ۔پھر وہی ہوا جو یہاں کے قانونی اور عدالتی نظام میں ہوتا آیا ہے۔۔۔۔۔ جس نظام میں سب سے پہلے وہی نعرہ زندہ درگور ہوا جو اس دیس کی تخلیق کا مقصد تھا جو مطلب تھا ۔اسلام جسکا دوسرا نام عدل و انصاف اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عدلیہ کے سامنے لگے ہوئے ترازو کو انتہائی حسرت سے دیکھتا ہے۔

پیر نے اپنا سیاسی اثرو رسوخ استعمال کر کے ثاقب کے چچا کو اس پر دباؤ ڈالنے کے لیے آمادہ کیا کہ ثاقب عدالت میں گواہی نہ دے۔  جسے وہ نہ سہہ پایا  اور بن ماں باپ کا بچہ کرتا بھی کیا۔ ادھر میں ماں باپ کے ہوتے ہوئے بن ماں باپ کے تھا تو وہ تو پھر حقیقی یتیم و یسیر تھا ۔میرے باپ کو بھی حکم ملا کہ مجھے سمجھائیں کہ جو ہوا سو ہوا ۔ جب ثاقب کو خاموش کرا دیا گیا تو میری کون سنے گا۔ میں نے انکی بات ماننے سے انکار کر دیا اور اسکے بعد میرے خلاف جو ہوا  اس پر دنیا کی ہر کہانی،ہر الزام، ہر بہتان ہیچ ہے ۔ ملاں اظہر نے مجھ پر وہی الزام عائد کیا جو کہ مذہبی طبقے کا سب سے بڑا ہتھیار ہے اور وہ ہے توہینِ مذہب۔۔ ۔ صحافی اورنگزیب کو بھی اپنے اخبار کی نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اس رات وہ میرے پاس ہانپتا کانپتا آیا اور مجھے کہنے لگا کہ تیرے خلاف چوک میں لوگ اکٹھے کیے جا رہے ہیں ۔تیری جان کو خطرہ ہے۔۔۔۔بھاگ جا۔۔۔۔ تجھے نہیں پتا پیر کو اس مدرسے سے کتنا چندہ اکٹھا ہوتا ہے۔  میں کھیتوں میں سے چھپتا چھپاتا سرگودہا اسٹیشن پہنچا اور کراچی کی ٹکٹ خرید لی۔۔۔۔پانچ سال کراچی رہا۔۔۔ اب والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے سو واپس آ گیا ہوں۔

میرا زیاں تو ہو گیا لیکن میں نے اس سوئے ہوئے معاشرے کو اس حد تک تو ضرور جھنجھوڑ دیا کہ کئی والدین جاگ گئے اور انہوں نے اپنے بچے مدرسے سے اٹھا لئے۔بات جب پھیلی تو مدرسے کا چندہ بھی جاتا رہا۔۔۔قاری اظہر کو یہ شہر چھوڑنا پڑا اب نہ جانے کہاں خدا کے دین پر بوجھ بن کر بیٹھا ہو گا۔۔ ڈبہ پیر کی مدرسے سے آمدنی ختم ہوئی تو سیاسی اثرو رسوخ بھی جاتا رہا مدرسہ ختم ہو گیا آج وہاں پر ایک شاندار اور جدید سکول ہے۔ بہت سے ماں باپ کی طرح میرے ابا کو بھی رحلت سے پہلے یہ افسوس ہونے لگا کہ انکے ہاتھوں میرا زیاں ہوا۔ انکی صحت گرنے لگی دکان پہلے ہی بند ہو چکی تھی۔۔۔۔ اور بس وہ چل دیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن وقاص بھائی۔۔۔۔ میں پھر بھی خوش ہوں کہ جس جگہ سے بچوں کے سسکنے ،تڑپنے ،چیخنے،کراہنے اور رونے کی آوازیں آتی تھیں۔۔۔آج وہاں سے بچے ہنستے کھیلتے مسکراتے چہکتے میرے رکشے میں بیٹھتے ہیں تو مجھے ان میں کھویا ہوا حاشر مل جاتا ہے۔۔۔۔۔سوچتا ہوں
شاید میرا زیاں ہی میرا حاصل ہے۔۔۔۔۔۔۔خدا حافظ!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply