اشرف المخلوقات۔۔محمد وقاص رشید

وہ سڑک پر کانپتی ہوئی ٹانگوں کے سنگ ننگے پاؤں چل رہی تھی۔ پیسے بچانے کے لیے اسے پیدل چلنا تھا۔۔۔اگر کسی سواری پر سوار ہوتی تو اسں پر پیٹرول مہنگا ہونے کی وجہ سے زائد کرایہ وصول کیا جاتا۔۔اور اگر کرایہ ادا کر دیتی تو اپنے بچوں کے لیے مہنگا آٹا کیسے خرید پاتی۔ اپنی دِقت کے ثانیے کم کرنے کے لیے ان کے فاقوں کا دورانیہ کیسے بڑھنے دیتی ۔اس لیے جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی سڑک سے پتھر اسکے پیروں میں زخم کر رہے تھے لیکن یہ زخم بھوک سے نڈھال بچوں کی روح کو دیے گئے زخموں سے کم گہرے تھے  ۔ اگر وہ اپنی راحت دیکھے گی تو اس قرض کا کیا بنے گا جس کے سود ہی سے اسکی غربت بڑھتی جا رہی ہے۔۔ اس لیے اسے اس درد کو سہنا ہے۔اسے پیدل چلتے ہوئے موسموں کی شدت پر ضبط کا دامن نہیں چھوڑنا ہے۔۔۔

مگر آج اس وقت اسکا ضبط جواب دے گیا۔۔۔اسکی ٹانگیں بوجھل ہو گئیں ۔اتنی بوجھل جتنی اسکی زندگی تھی۔۔  سو ساقط ہو گئیں، وہ سڑک کنارے بیٹھ گئی۔۔اچانک اسے اپنے زخم گہرے لگنے لگے۔۔۔ یکسر پیروں کے چھالوں نے ناسوروں کا روپ دھار لیا۔  جن پر زاروقطار بہتے آنسوؤں کا نمک کچوکے لگانے لگا ۔ اپنے بھوکے بچوں کے چہرے اسکی آنکھوں کے آگے دن میں تارے بن کر بجھنے لگے۔  درد کی ایک لہر اسکے بدن سے روح تک سرائیت کر گئی کیونکہ منظر ہی ایسا تھا۔ ۔اسکو لگا یہ سڑک اسکا ستر سال سے بے سمت سرابوں کے پیچھے بھاگتا وجود ہے جسے اس گاڑی نے اسکے خوابوں سمیت کچل دیا۔

اسے یوں محسوس ہوا کہ اس گاڑی سےاڑتی دھول میں اسکی آنکھیں اپنے گھر، اپنی منزل کو دیکھنے سے محروم ہو چکی ہیں۔۔۔اسے یوں لگا اس گاڑی کی آواز بہت دور سے آ کر اسکے ذہن کے کون و مکاں میں گونج کر سماعتوں کو گنگ کیے جارہی ہے۔۔ کون سی گاڑی

اسکے  پاس  سے اسکے حکمران کی ایک گاڑی گزری اس گاڑی کی مالکن وہ ہے۔۔۔یہ گاڑی اس غریب کے نام ہے۔۔اور اسی کے وجود کو اس گاڑی سے دور رکھنے کے لیے بندوق بردار محافظوں سے بھری دوسری گاڑی بھی ساتھ ہے جو کہ اسے ہمہ وقت اپنے نام کی گاڑی سے ایک طرف دفع  ہونے کا نخوت بھرا اشارہ کرتے ہیں۔۔وہ اس نخوت کی تنخواہ بھی اپنا پیٹ کاٹ کر دیتی ہے۔ ان دونوں گاڑیوں کو اسکے بچوں کے ہاتھوں سے قلم اور نوالہ چھین کر قرض کی رقم سے خریدا گیا ہے جن میں پیٹرول نہیں بلکہ اسکے زخموں سے رستا خون اور بھوکے مساموں سے رستہ پسینہ ڈلتا ہے۔۔۔۔خون پسینہ اسے ہی کہتے ہیں۔۔

اسے لگا کہ حکمران کی گاڑی کی کھڑکی اس لیے کھلی رکھی گئی ہے تاکہ یہ کتا باہر سڑک کے کنارے اپنے بخت پر آنسو بہاتی قوم بی بی کا منہ چڑا کر اسے بتا سکے کہ۔۔اب اشرف المخلوقات دراصل وہ کتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اصحابِ کہف نہیں اصحاب انصاف کا کتا۔ ۔
یہی تبدیلی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply