• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عدم برداشت کی وجوہات اور اس کے معاشرتی اثرات۔۔ڈاکٹر محمد عادل

عدم برداشت کی وجوہات اور اس کے معاشرتی اثرات۔۔ڈاکٹر محمد عادل

خیبر پختونخوا کے ضلع مردان میں ایک شخص کے کتے نے دوسرے شخص کا پالتو پرندہ کھا لیا، پرندےکے مالک نے کتے کو فائرنگ کرکےمار دیا۔ فریقین کے درمیان تکرار ،ہاتھاپائی اور بعد میں فائرنگ ہوئی اور نیتجے میں تین افراد قتل اور پانچ زخمی ہوئے۔یہ واقعہ جولائی ۲۰۲۱ء میں پیش آیا،جو ملکی میڈیا میں رپورٹ ہوا۔ اس جیسے دسیوں واقعات روازنہ کی بنیاد پر میڈیا کی زینت بنتے ہیں۔

سوچا جائے کہ آخر اتنی معمولی سی بات کے لیے ایک انسان دوسرے کے قتل پر کیوں آمادہ ہوجاتاہے؟ اس سوال کا جواب ہر ذی شعور انسان یہی دے گا کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم ِبرداشت اس کی بنیادی وجہ ہے۔درج ذیل سطور میں عدم برداشت کی وجوہات اور اس کے معاشرتی اثرات کا جائزہ لیا جائے گا اور اس کے حل کے لیے تجاویز دی جائیں گی۔

عدمِ برداشت کی وجوہات:
معاشرے میں بڑھتے عدمِ برداشت کی مختلف وجوہات ہیں ،جن میں چند درج ذیل ہیں:

۱۔ دین سے دوری
عدمِ برداشت کی سب سے بڑی وجہ دین سے دوری ہے۔ معاشرہ کی اکثریت خصوصاً نوجوان نسل دینی تعلیمات سےبے بہرہ ہے، اس لیے ان میں خود پسندی ، حسد، جلد بازی،اسراف اوردوسروں کی تحقیر سمیت لاتعداد روحانی امراض پیدا ہو رہے ہیں، جو عدمِ برداشت کی جڑ ہیں۔جبکہ دوسری طرف برداشت اوراحترام باہمی کو فروغ دینے والی اخلاق فاضلہ مثلاً صبرو شکر،حلم وبردباری، قناعت سے محروم رہتے ہیں۔

۲۔ مقابلہ بازی
ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے مختلف صلاحیتیں عطا کر رکھی ہیں،کسی کو زندگی کے ایک پہلو میں مہارت حاصل ہوتی ہے ،تو کسی کو دوسرے پہلو میں۔ لیکن ہمارے معاشرہ میں دوسروں سے مقابلہ کی فضا کچھ ایسے پروان چڑھی ہے کہ ہر ایک دوسرے سے اس کی صلاحیتیں جانے بنا اعلیٰ کارکردگی کا خواہاں ہوتا ہے،مثلاً بچوں سے ان کی دلچسپی جانے بنا،ہر مضمون میں اچھے گریڈز کا مطالبہ کیا جاتا ہےاور دوسرےبچوں کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ جس سے انسان غیر ضروری دماغی دباؤ کا شکا ر ہوجاتا ہے اور اس کا نتیجہ عموماً عدم برداشت کی خطرناک بیماری کی صورت میں نکلتا ہے۔

۳۔ مہنگائی
روز بروز بڑھتی مہنگائی بھی عدمِ برداشت کا ایک سبب ہے،جب کوئی باپ باوجود بارہ گھنٹے مزدوری کرنے کے، اپنے بچوں کو اچھے ادارے میں تعلیم تو کیا دو وقت کی روٹی بھی نہیں دے پاتا یا کوئی بیٹا بستر پر پڑے اپنے بیمار والدین کے علاج کی طاقت نہیں پاتا،تو رفتہ رفتہ وہ برداشت کھو دیتا ہے۔اسی طرح مہنگائی کے اس دور میں شادی وغمی کے موقع پر بےجا رسوم ورواج بھی انسان کے برداشت کو ختم کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

۴۔ طبقاتی تقسیم
ایک ہی ملک میں یکساں ٹیکس دینے والےلوگوں میں جب کچھ لوگ سہولیات سے بھرپور زندگی گزارتے ہوں اور کچھ کو زندگی کی بنیادی ضروریات میسر نہیں ہوں، ایک طبقہ کے لیے قانون موم کی ناک اور دوسرے طبقہ کے لئے آہنی دیوار بن جاتا ہو،ایک گھنٹوں دفاتر کے باہرقطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرتا ہو اور دوسرا گاڑی سے اتر کر سیدھا دفتر کے اندر پہنچ کر منٹوں میں فارغ ہوتا ہو، تو انسان کے اندر گھٹن، بے چینی اور نفرت پیدا ہوتی ہے اور روز مرہ کی بنیاد پر ایسے واقعات اس کا برداشت ختم کر دیتے ہیں۔

۵۔ قناعت پسندی کا نہ ہونا
دینِ اسلام کی تعلیم یہی ہے کہ دین کے معاملے میں اپنے سے بہتر اور دنیا کے مقابلے میں اپنے سے کمتر لوگوں کو دیکھو ،تاکہ اپنے پاس موجود نعمتوں کی قدر معلوم ہو اور اس پر منعم کا شکر ادا کیا جائے۔لیکن یہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے ،ہر کوئی اپنی موجودہ حالت سے غیر مطمئن اور دوسروں کی نعمتوں کا آرزو مند ہوتا ہے اور جب ہر طرح کےجائز و ناجائز وسائل بروئے کار لا کر بھی دوسرے کی طرح نہیں بن پاتا ،تو پھر مختلف نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو کر عدمِ برداشت کا شکار ہو جاتا ہے۔

۶۔ نفسیاتی امراض کا علاج نہ کرنا
پوری دنیا میں نفسیاتی امراض کے شکار لوگ ماہرین نفسیات سے رجوع کرتے ہیں ،لیکن ہمارے ہاں ماہرین نفسیات سے علاج کرانا ایک قسم کا عیب سمجھا جاتا ہے اور ایسے مریض کو گویا پاگل تصور کر لیا جاتا ہے۔نتیجہ یہ نکلتا ہےکہ نفسیاتی امراض کا بروقت علاج نہیں کیا جاتا ، بلکہ اسے سرے سے مرض ہی نہیں سمجھا جاتا ۔لہٰذا یہی امراض انسان کی برداشت چھین لیتے ہیں اور ہر چھوٹی بڑی بات پر حد سے زیادہ رد عمل دیتے ہیں۔

عدم برداشت کے معاشرتی اثرات :
معاشرے میں بڑھتے عدمِ برداشت کے اثرات صرف فرد تک محدود نہیں رہتے ،بلکہ پورے معاشرے پر اس کا اثر پڑتا ہے۔ذیل کے سطور میں اعداد و شمار کی روشنی میں عدم ِبرداشت کے معاشرے پر اثرات کا جائزہ لیا جائے گا:
طلاق و خلع کے کیسزمیں بے تحاشہ اضافہ
میاں بیوی کے خوشگوار تعلقات ازدواجی زندگی کی پائیداری کے لیے نہایت ضروری ہیں ۔ اس رشتے کو دوام بخشنے کے لیے برداشت آکسیجن کا کام کرتی ہے،کیونکہ جب کسی ایک فریق کی طرف سے عدمِ برداشت کا مظاہرہ کیاجاتا ہے، تو اس رشتہ کو برقرار رکھنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ ہمارےمعاشرے میں عدمِ برداشت کی وبا مکمل طور پر پھیل چکی ہے،لہٰذا خاندانی زندگی پر اس کے بُرے اثرات نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ مختلف سرکاری و غیر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں طلاق کی شرح ۶۰ فیصد تک پہنچ گئی ہے،حالانکہ۷۰ کی دہائی میں یہی شرح ۱۳ فیصد تھی، جبکہ پچھلے سال صرف سندھ میں خلع کے کیسز میں ۷۰۰ فیصد سے زائد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ایک مشرقی اسلامی معاشرے میں خاندانی زندگی کے لیے یہ اعداد و شمار موت سے کم نہیں ۔

خود کشی
دنیوی زندگی میں کسی بھی انسان کی حالت یکساں نہیں رہتی بلکہ اس پر مختلف حالات آتے رہتے ہیں۔ کبھی انسان راحت و آرام میں گھری زندگی گزارتا ہے ، تو کبھی اس کو سکون و اطمینان کا ایک لمحہ بھی میسر نہیں آتا ۔ گردش ایام میں مزید نقصان اور مسائل سے بچنے کے لیے انسان کے پاس واحد طریقہ برداشت کا ہوتا ہے، جس انسان کی قوت برداشت جتنی زیادہ ہوگی ،اتنی ہی آسانی سے وہ سخت حالات سے نکلے گا،لیکن اگر کوئی قوت ِبرداشت سے محروم ہوتا ہے تو دوسروں کے ساتھ خود اپنے لیے بھی خطرہ بن جاتا ہے،جس کی بدترین شکل خود کشی ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر گھنٹہ میں خود کشی کا ایک واقعہ رونما ہوتا ہے، اس حساب سے سالانہ یہ تعداد ہزاروں میں پہنچتی ہے۔ خود کشی کی تباہی صرف ایک فرد تک محدود نہیں رہتی بلکہ یہ پورے خاندان کو تباہ کرتی ہے،لہٰذا دیکھا جائے تو عدم برداشت سالانہ ہزاروں خاندانوں کا چین و سکون چھین لیتا ہے۔

قتل و اقدام قتل
معاشرہ مختلف الخیال افراد کے مجموعےکا نام ہے۔ لہٰذا کسی بھی معاشرہ کے امن وسکون کے لیے رواداری اور احترام ِ باہمی نہایت ضروری ہوتی ہے۔لیکن اگر کسی معاشرے میں دوسرے فرد کے نظریہ اور اختلاف رائے کو برداشت نہیں کیا جاتا ،تو اس کے خوفناک نتائج برآمد ہوتے ہیں ۔ ایسے معاشرہ میں امن و مان کی صورتحال دگرگوں رہتی ہے اور ہر وقت جھگڑے، قتل و فساد کا ماحول ہوتا ہے۔Pakistan Bureau of Statistics کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال قتل و اقدام قتل کے اوسطاً ۲۰ ہزار واقعات رونما ہوتے ہیں۔ ان اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عدم ِبرداشت نے ہمارے معاشرے کو کہاں لا کھڑا کیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

عدم ِ برداشت کا حل
معاشرے میں عدمِ برداشت کی وجوہات اور اس کے خطرناک اثرات پر نظر ڈالنے کے بعد ضروری ہے کہ اس کے حل کےلیے سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔ ذیل میں اس حوالے سے چند تجاویز ذکر کی جائیں گی:
• عدمِ برداشت کے لیے سب سے اکسیر نسخہ قرآن کریم کی سورۃ البقرۃ آیت نمبر ۱۰۹ میں بیان کیا گیا ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے فَاعفُوا وَاصفَحُوا(عفو و درگزر سے کام لو)۔ ہمارے معاشرےمیں آج اس قرآنی تعلیم پر عمل کرنے کی شدید ضرورت ہے۔
• معاشرے کےتمام افراد خصوصاً نوجوان نسل کی مناسب دینی تعلیم کا بندوست کیا جائے، تاکہ قرآن و حدیث میں موجود عدمِ برداشت کی وجوہات اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے بدترین اثرات کےشرعی حکم پر ان کی نظر رہے اور وہ کسی واقعہ پرعدم برداشت اور شرعاً ناجائز رد عمل کا مظاہرہ نہ کریں۔
• نصابی کتب میں اختلاف رائے ، رواداری اور احترامِ باہمی کے مضامین و واقعات شامل کیے جائیں،تاکہ طالب علم کی اس حوالے سے مناسب تربیت ہو۔
• والدین پر لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اس نہج پر تربیت کریں کہ ان میں رشتوں کے حوالے سے قربانی اور صلہ رحمی کا بھرپور جذبہ موجود ہو۔

Facebook Comments

ڈاکٹر محمد عادل
لیکچرار اسلامک اسٹڈیز باچا خان یونیورسٹی چارسدہ خیبر پختونخوا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply