• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • میٹھے راستوں کے ماسفر ماتھے پہ تیوری نہیں رکھتے۔۔خالد حسین مرزا

میٹھے راستوں کے ماسفر ماتھے پہ تیوری نہیں رکھتے۔۔خالد حسین مرزا

کسی لہجے میں بولو لیکن اردو بولو تو سہی۔ راستہ دشوار ہے اور پڑھنے والا ستمگر، کوئی بات نہیں مونس تو ہے ناں، مونس کا مطلب ہوتا ہے ساتھ۔ جب کوئی اپنی زبان بول رہا ہوتا ہے تو یوں لگتا ہے، جیسے کوئی ساتھ دینے والا مِل گیا۔ یار واقع میں وہ بندہ کمال ہے جی گیا زندگی ہم بچپن میں اس کو شوخا اور بددماغ سمجھتے رہے۔ اس نے زندگی میں وہ وہ چھلانگیں ماریں، اس اس جگہ پہنچا جس کا ہم خواب دیکھتے رہے۔ زندگی میں وہ رویہ اپنائے رکھا جو ہم سب اپنائے رکھنا چاہتے تھے۔ اور کسی کا تو معلوم نہیں لیکن میں ضرور پہاڑوں اور دریاؤں کے درمیان زندگی ضرور گزارنا چاہتا تھا۔ خیر! اب بھی زندگی کوئی مشکل نہیں ہے۔ خواب بھی کوئی مختلف نہیں ہیں۔ لیکن ابھی بھی دِل کرتا ویسے ہی زندگی ہو، ایک آوارہ سی احتیاط اپنی، صبر اپنا، لڑائی اپنی، جستجو اپنی، حاصل اپنا اور جو راہ ملے اس پر سفر اپنا ایک مہذب طریقے سے۔
شبِ وصال کیسے ساتھی بنا تکیہ؟ موجب sweet tripers شبِ وصال کیسے ساتھی بنا تکیہ؟ کہی اَن کہی دونوں نہیں ہو گی شبِ وصال مگر تکیہ تو ہو گا ناں۔ اب یہاں پر مطلب وہ شخص ہے جو آپ کے بہت زیادہ قریب ہے۔ یار! ہماری بھوک بہت زیادہ بڑھتی جاتی ہے، ایک چیز ہم حاصل کرلیں پھر بہت جلدی دوسرے کی فکر پڑ جاتی ہے۔ اب نہ جانے کیا کیسے زندگی کی تمنا اور اب روداد کا طلبگار رہوں، لیکن کہانی ابھی بھی مجھے سنانی ہے، اب کی بار اختتام تبدیل کر کے سناؤں گا۔ پہلے محنت کرتا تھا۔ کچھ نہ کچھ نظر آتا تھا کہ یوں ہو جائے گا تو ایسے ہو جائے گا۔ مگر اب ویسا نہ جانے کیوں نہیں ہوتا۔ ابھی تو اپنا مقصد بھی نہیں بنانا آرہا۔ سچی بات ہے بس زندگی میں ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ کچھ نہ کچھ خود سمجھنا ہے اور کچھ نہ کچھ لوگوں کو سمجھانا ہے اگر ہو گیا تو اچھا ہے نہیں ہوا تو دِل پر کوئی شکن ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔
چند اِک ہے چیزیں جو اکثر دِل لُبھا جاتی ہے، پتہ کیا لوگ کہتے ہیں ہمیں نہ اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکلنا چاہئیے، کچھ نیا ٹرائے کرنا چاہیئے، مزہ دِل کا ہوتا ہے اِک نئی چیز جب نکھر کر آتی ہے۔ سچ بتاؤں وہ لوگ کامیاب ہوتے ہیں جِن کو کم از کم ایک چیز تو ڈھنگ کی کرنی آتی ہے۔ مجھے نہ ضرورت نہیں ہے کسی اُلٹی سیدھی چیز کی اب نہیں واقع میں۔ پہلے تو جیسے گھنگھرالے بالوں گنجل میں پھنسنا اچھا لگتا تھا۔ لیکن اب سوچتا ہوں بس منظم ہونا ضروری ہے، انسان وقت کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور نیا سیکھتا رہتا ہے۔ نہ افراتفری، نہ بھاگم دوڑی اور نہ ہی کسی بات کا ڈر اور نہ ہی اپنے آپ کو کسی سے کم سمجھنا اور نہ ہی اپنے آپ کو کسی سے زیادہ سمجھنا۔ بس اتنی سی بات ہے اپنے آپ کو ایک عام انسان سمجھنا ضروری ہے۔ چند روایات پر، چند اوقات پر عمل کرنا ضروری ہے اور بعض دفعہ بلکہ زیادہ تر جو چیز اچھی نہ لگے۔ دِل کو نہ سمجھ آرہی ہو بس چھوڑ دینی چاہیئے۔ کچھ نہیں بگڑتا۔ ہاں جو اقدام اٹھانے ضروری ہوتے ہیں وہ سوچ سمجھ کر اُٹھانے چاہیئے۔ جن کے معاملات آپ کی آنے والی زندگی اور آپ کے حال کے خرچوں کے حوالے سے جُڑے ہوتے ہیں۔
ایک بات کسی نے کسی زمانے میں بتائی تھی، کہ تکیئے پر سلوٹیں تب پڑتیں ہیں، جب کوئی بے آرام ہوتا ہے۔
بادشہ چیں اب مجھے بھی لوگ اکثر ایسا ہی شخص گُمان کرتے ہیں، اب پتا نہیں میں ہوں بھی ایسا کہ نہیں۔ ہاں لیکن ہر وقت نہیں میرے ماتھے پر تیوری مگر کبھی سوچ وچار میں مگن ہوں تو اکثر یوں ہو جاتا ہے۔ میرے لیئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ مجھے اِک حد تک پہنچنا ہے، جہاں میری تسکین ہے، مجھے ڈر لگتا ہے بد انتظامی سے میں سب کے ساتھ ہوں تو سب کی فکر لگی رہتی ہے جیسے میں سب کا جوابدہ ہوں۔ بھائی سب اپنے اپنے عمل کے جوابدہ ہیں۔ نہ کسی کو اپنے اعمال سجا کے دِکھانے ہیں، جس کو دِکھانے ہیں اس کو معلوم ہے ویسے بھی اس سے کچھ چھپتا نہیں ہے۔
اطاعت ایسی ہو کہ خود کو ہضم ہو جائے، خود پر ستم کرنے کے لیئے اطاعت نہیں ہونی چاہیئے۔ اب میں ایک اس وقت ایک شاعری کی تشبیہ پڑھ رہا ہوں جس کو پڑھ کر میں اس وقت تو عش عش کر اٹھا تھا۔ اس وقت وہاں لکھا تھا کہ تمہارے بالوں پر شکنی ہوتی ہیں اس طرح تمہارے ہجر میں ہمارے تکیئے پر شکنیں ہیں۔ یہ بات تو پسند آئی، لیکن اس میں ماتھے پر تیوری چڑھانے والی بات کہاں سے آگئی۔
اب جِن پھولوں سے خوشبو آتی ہے، وہ سارے میرے پاس ہیں، اب اس میں کیا خیال پیدا کرنا ہے کس کو کس چیز سے ملانا ہے اب وہ بھی میرے اختیار میں ہے۔ نہ مجھے یہاں پر کسی کا انتظار کرنا ہے۔ نہ ہی کسی بات سے تنگ ہونے کی مجھ کو ضرورت ہے۔ اب بات یہ ہے کہ وہ حالت اب ایسی کیوں ہے۔ وہ پریشان کیوں ہیں۔ اگر ہیں بھی تو کیوں بات کو سمجھ نہیں پاتے۔ کیوں غلط سوچتے ہیں۔ دِل ہے میرے پاس اس میں بھی تکلیف ہوتی ہے۔ اُنہیں اپنا کیا ہوا نظر آتا ہے، لیکن برداشت کیا ہوا نظر نہیں آتا، یہ ہی زندگی ہے۔ سُکھ کے سب ساتھی بننا چاہتے ہیں مگر دُکھ کا کؤئی نہیں بن سکتا۔ روشن ستارہ بننا ہے جس کی قسمت چاند سے بھی زیادہ روشن ہوتی ہے۔ پھر معاشرہ جب بنتا ہے وہ آپ کو ایک مثالی شخصیت مانتا ہے۔ ہاں انا، ضد اور چاہ کا صیح استعمال کرنا سیکھ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply