اور طالبان پھر آگئے۔۔۔ معاذ بن محمود

دیکھئیے مقصد کسی کی کسی بھی قسم کی گلورفکیشن نہیں۔ البتہ جس اصول کے تحت امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کیا تھا بعینہ اسیاصول کی بنیاد پر آج طالبان دوسری بار افغانستان پر دعوی کر رہے ہیں۔ اس اصول کو طاقت کہتے ہیں اور یہ دستیاب اصولوں میںسے طاقت ور ترین اصول ہے۔

طالبان کے خلاف آپ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں کچھ بھی بول سکتے ہیں کیونکہ کسی نہ کسی شکل میں یہ مروجہ پریکٹس ہے البتہ بیس سالسپر پاور کے زیر عتاب رہنے کے بعد بھی یہ طالبان اگر ختم نہیں ہو سکے بلکہ الٹا آج کابل کو گھیرے میں لیے پرامن انتقال اقتدار پراصرار کر رہے ہیں تو کم از کم درجے میں بھی چند باتیں جو ان کے بارے میں عام ہیں آج کی حد تک غلط ثابت ہو رہی ہیں۔ اگر یہخونی درندے تھے یا ہیں تو ابھی اس وقت کابل میں شب خون نہیں مان رہے۔ اگر یہ بدلہ لینے پر یقین رکھتے ہیں تو کم از کم آج ابھییہ بدلہ بھی نہیں لے رہے۔ ماضی کا میرا دعوی نہیں مستقبل کی امید نہیں تاہم حال ہم سب کے سامنے ہے۔

بیس سال امریکہ و اتحادی افواج کے میزائلوں کا لوہا چکھ چکھ کر بھی یہ طالبان اگر ختم نہ ہو پائے تو بھیا انہیں ایک طاقت کے طورپر تو ماننا پڑے گا۔ کوئی بھی تحریک عوامی تائید کے بغیر ریاست بھر پر قابض نہیں ہو سکتی۔ یہ ڈی چوک والا کمینہ پن نہیں ہے، یہباقاعدہ جنگ کے ذریعے اقتدار کا حصول ہے۔ ہمارے سامنے شام، یمن، عراق بھی موجود ہیں جہاں آج بھی مدافعت جاری ہےالبتہ طالبان جس طرح دوسری بار ایک سپر پاور کے خلاف لڑتے رہے اور ایک بار پھر کابل تک آن پہنچے ہیں تو بھیا آپ کے پاسانہیں سیاسی طاقت ماننے کے سوا بھی کوئی چارہ نہیں۔

سو۔۔۔ آپ کو اچھا لگے یا برا، یہ طالبان ایک حقیقت ضرور ہیں۔ اور جو حالات چل رہے ہیں کم از کم اگلے کچھ برس تو آپانہیں سرکاری پروٹوکول دینے پر مجبور رہیں گے۔

دیگر افغان حکومتوں کی نسبت پاکستان کے تعلقات طالبان کے ساتھ بہتر رہے ہیں۔ اس کی اپنی وجوہات ہیں اور اپنی ایک تاریخہے تاہم یہ حقیقت ہے۔ پچھلی بار کی طرح اس بار مغربی میڈیا انہیں خاص ڈریکولا بنا کر پیش نہیں کر رہا۔ مطلب آپ کچھ بھیکہہ لیں یہ روش جاری رہی تو کچھ عرصے میں آپ ان کا ماضی کچھ کچھ بھول کر ان کے حال اور مستقبل پر نظر رکھنا شروعہوجائیں گے۔

یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ جدید اسلحے سے لیس افغان فوج بھلا کیسے طالبان کے آگے ریت کی دیوار ثابت ہوگئی؟ جب دونوںجانب افغان ہیں تو کیسے ایک افغان فریق دوسرے کو ڈھیر کرتا ہوا نہایت سرعت کے ساتھ کابل تک پہنچ گیا؟ ویسے آپس کی باتہے، کیا آپ کو یقین ہے کہ موجودہ افغان حکومت اور امریکہ کبھی سو فیصد افغانستان پر قابض بھی ہوا تھا؟ یا انہوں نے اسی باتکا یقین دلایا جو وہ چاہتے تھے؟

کسی بھی ریاست میں بدترین حکومت کی موجودگی بھی حکومت کے عدم یعنی سول وار سے بہرحال بہتر ہی ہوتی ہے۔ اب جبایک طاقت خود کو دوسری بار ثابت کر کے کابل تک پہنچ چکی ہے تو انہیں طوعاً یا کرہاً قبول کرنا ہی پڑے گا۔ سٹوڈنٹس اب کئی دلجلا کر ہی رہیں گے۔ اس بار پچھلی بار کی نسبت سوشل میڈیا بھی مضبوط ہے اور اب کی بار سوشل میڈیا اور روایتی مین سٹریممیڈیا میں فرق بھی کافی ہے سو پروپیگنڈا کسی بھی جانب سے اتنا آسان نہیں ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دیکھتے ہیں اس بار طالبان کی حکومت کیسے چلتی ہے۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply