یہ استعمار کی شکست ہے: انعام رانا

افغانستان کا بالآخر سٹوڈنٹس کے ہاتھ واپس جانا امریکی استعمار کی شکست ہے۔ ایک ٹریلین ڈالر سے زائد رقم، بیس سال کے وقت اور ہزاروں جانوں کے ضیاع کے بعد اقتدار پکے پھل کی مانند واپس سٹوڈنٹس کی جھولی میں آنا استعمار اور اسکے ساتھیوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ سٹوڈنٹس کے نظریات اور ہمارے ان سے اختلافات کو سائیڈ پہ رکھتے ہوے آج جیسے امریکی بھاگ رہے ہیں، اپنے سفارتخانے پہ حملہ نا ہونے کی یقین دہانی لینے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ امریکی استعماری تاریخ کا ایک شرمناک باب رہے گا۔

اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سٹوڈنٹس بہت اچھے ہیں یا ہم انکو گلوریفائئ کرنے لگ جائیں۔ لیکن ہمیں ماتم کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ یہ ایک تاریخی لمحہ اور تاریخی ڈیویلپمنٹ ہے۔ اس صورتحال کا تجزیہ کرنا چاہیے اور مستقبل کی پیش بینی۔ ابھی تک کی رپورٹس سے دو تین اہم نکات سامنے آتے ہیں۔
1- امریکی امداد اور محنت سے کھڑی افغان فوج ریت کی دیوار بن گئی۔ آپ اس پہ ہنس بھی سکتے ہیں لیکن مجھے تو یہ افغان قوم کی دونوں ہی جانب سے سمجھداری لگتی ہے۔ استعمار رخصت ہوا تو کیوں خود ایک دوسرے کے گلے کاٹے جائیں۔ سویت پسپائی کے بعد والی صورت اس بار نہیں ہے۔ شاید افغان قوم نے تاریخ سے سبق سیکھا ہے۔ اک جانب سٹوڈنٹس کا کابل پہ حملہ نا کرنا اور دوسری جانب اشرف حکومت کا جنگ سے گریز اسکا ثبوت ہے۔

2- سٹوڈنٹس حتی الامکان خون ریزی و تصادم سے گریز کر رہے ہیں۔ وہ سرعت سے قابض تو ہوتے رہے لیکن بڑی جنگ سے گریز رہا۔ اس وقت بھی وہ بس کابل کے دروازوں پہ بیٹھ گئے ہیں لیکن اندر داخل ہو کر جنگ نہیں کر رہے۔ بلکہ اشرف حکومت کو سرنڈر پہ راضی کرنے کو کوشش ہو رہی ہے۔

3- ترجمان کے بی بی سی انٹریو اور دیگر کچھ بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ بیس برس نے سٹوڈنٹس کو بھی کافی کچھ سکھایا ہے۔ وہ بین الاقوامی تعاون کی بات کر رہے ہیں، امن اور مکمل امان کی، بدلہ نا لینے کی، بین الاقوامی اداروں میں کام کرنے والوں اور صحافیوں کی حفاظت کی بات کر رہے ہیں۔ یہ اہم ہے، یعنی وہ شاید اس بار بیس برس قبل کے سخت گیر نا ہوں۔

4- انتہائی دلچسپ نکتہ خواتین بارے بیان ہے کیونکہ مغربی میڈیا اس پہ ایک ہوّا کھڑا کر رہا تھا۔ ترجمان نے کہا ہم عورت کی آزادی پہ یقین رکھتے ہیں۔ اسے تعلیم اور کام کرنے یا گھر سے اکیلی باہر جانے کی اجازت ہو گی۔ میرے لئیے حیرت کا دھچکا تھا جب اینکر کے اکسانے پہ رہنما نے واضح کیا کہ پردہ فقط برقع نہیں ہوتا بلکہ حجاب کی دیگر اقسام بھی ہیں اور عورت کو بس حجاب کرنا ہو گا۔ یہ بیس برس کے طالب کی سوچ سے نوے ڈگری کی بات ہے۔

۵- اگرچہ کنفرم نہیں لیکن کہا جا رہا ہے کہ علی جلالی متفقہ عبوری رہنما ہوں گے۔ اگر یہ ہوا تو یہ بھی دونوں دھڑوں کی سمجھداری کا اک ثبوت اور سٹوڈنٹس کی جانب سے بڑا قدم ہو گا کہ وہ “غیر مولوی غیر روایتی” کو عبوری رہنما مان لیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

افغان قوم پچھلے چالیس برس سے عالمی طاقتوں کے ہاتھوں پامال رہی ہے۔ شاید افغان قوم سے زیادہ تصادم کے نتائج اور ہولناکیوں کو کوئی نہیں جانتا۔ میری خواہش اور امید ہے کہ تمام تر سٹیک ہولڈرز نے سبق سیکھا ہے اور ایک پرامن تبدیلی کی کوشش ہو رہی ہے جو دعا ہے کہ کامیاب ہو۔ اس وقت نا تو ہمیں جشن منانے کی ضرورت ہے نا ماتم کی اور نا اک دوجے کو طعن و تشنیع کی۔ بلکہ بطور ہمسایہ ریاست مکمل کوشش اور بطور ہمسایہ قوم ہماری یہ دعا ہونی چاہیے کہ ایک پرامن افغانستان وجود میں آئے جو پاکستان کا بہترین دوست بنے۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply