لاہور کو سلام۔۔سید مہدی بخاری

سائبیریا کے صدر مقام ارکتس میں دو دن سے حلال کھانے کے چکر میں بے سوادا کھانا کھا کر منہ کا ذائقہ بینگن جیسا ہو چکا تھا۔ میرے ہوسٹل میں ایک بھارتی نوجوان آیا۔ اس نے اپنا سامان رکھا اور مجھے دیکھتے ہوئے بولا ” ادھر انڈین ریسٹورنٹ ہے دو کلومیٹر کی واک پر۔ اس کا نام ہے “گنگا”۔ اگر بھوک لگے تو بہترین ہے۔ میں وہیں سے آ رہا ہوں”۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور گوگل میپ پر گنگا کی لوکیشن لگا کر نکل کھڑا ہوا۔

پھوار برس رہی تھی۔ سردی بڑھ چکی تھی۔ جیکٹ کی زپ چڑھائی اور ارکتس کی سڑکوں پر چلتا رہا۔ بارش سے دھل کر شہر نکھر گیا تھا۔ یوں بھی ارکتس انتہائی خوبصورت شہر ہے۔ اس کی گلیاں و سڑکیں دیدہ زیب ہیں۔ سجاوٹ کمال کی ہے۔ ریسٹورنٹس و کیفے خوبصورت ڈیکور رکھتے ہیں۔ ایک چوک میں چند روسی نوجوان کرتا  و بھارتی لنگی پہنے بھجن گا رہے تھے۔ انہوں نے سپیکرز پر لگا رکھا تھا “ہرے کرشنا ہرے راما، راما راما ہرے کرشنا”۔ یہ چار نوجوان تھے اور بھجن کی لے پر مست انداز میں سر ہلاتے اور خود بھی گھومتے جاتے تھے۔

گنگا ریسٹورنٹ آیا۔ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو سامنے ہی ایک سردار جی کھڑے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی بولے ” انڈیا ؟ “۔ میں نے ان کی صورت دیکھی۔ عمر لگ بھگ 50 سال۔ خوبصورت چہرہ۔ سر پر نارنجی رنگ کی پگڑی۔ شلوار کرتا  زیب تن۔ میں نے پنجابی میں جواب دیا ” سردار جی گوانڈی آں۔ لاہور توں” ۔۔۔

یہ سنتے ہی سردار جی کے پہلے سے کھلے چہرے پر مزید مسکراہٹ پھیل گئی۔ انہوں نے بڑھ کر مجھے ہاتھ کے اشارے سے تشریف رکھنے کو کہا۔ خود وہ سامنے بیٹھ گئے۔ ” لاہور دی کیا باتاں نیں۔ میرا ناں امرندر اے۔ ایتھے 9 سال توں بزنس کر رہیا۔ بڑی مدت بعد کوئی اپنی دھرتی دا بندہ ملیا اے۔ ایتھے خیر نال آئے او ؟ “۔ میں نے جواب دیا کہ ٹورسٹ ہوں بس سیاحت کی غرض سے آیا ہوں اور مجھے بہت بھوک لگی ہے۔

بس بھوک کا نام سننا تھا۔ امرندر سنگھ کے چہرے پر سنجیدگی عود آئی۔ اس نے روسی زبان میں اپنے سٹاف کو کچھ کہا۔ اور پھر کہنے لگا ” مسلمان ؟ “۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ ” فیر دال دے نال چپاتی تے بٹر چکن چلے گا ؟۔ چکن حلال ہے گا”۔ میں نے کہا کہ سردار جی چلے گا بس سواد اپنی دھرتی والا ہووے۔

آرڈر دے چکے تو پھر کہنے لگے ” توں ایتھے کتھے رکیا ہے گا ؟ میرا چھوٹا بھرا ایک ہفتہ پہلاں ای پنجاب توں آیا اے۔ تیری عمر دا اے۔ او تینوں شہر گھما سکدا اے۔ 7 دناں توں باہر ای پھر ریا اے۔”۔ پھر انہوں نے موبائل نکالا اور کال ملائی۔ ” نوجوت پتر چھیتی نال ریسٹورنٹ پہنچو۔ لاہور توں ایک مہمان آیا اے”۔

امرتسر سے لاہور کا ذکر چلا۔ بات ہوتی رہی۔ سردار جی بہت خوش ہوئے۔ میں بھی پنجابی میں بات کر کے ہلکا ہوتا رہا۔ اتنے دنوں بعد کوئی مادری زبان بولنے سننے والا ملا تھا۔ کھانا آیا۔ ایک چھوٹی سی بالٹی میں دال۔ ڈش میں چاول اور ایک چھوٹی سی ہنڈیا میں بٹر چکن۔ امرندر سنگھ کی زندگی بھونچال کا شکار رہی۔ وہ اپنی داستان سنانے لگے۔ کئی بار ان کی آنکھیں بھیگیں۔ شاید ان کو سالوں بعد کوئی ماں بولی سمجھنے والا ملا تھا اور وہ بھی لاہور سے کہ جس شہر کے بارے سن کر وہ بہت جذباتی ہو جاتے تھے۔

کھانا انتہائی مزیدار تھا۔ پیٹ بھر کر کھا چکا تو ایک نوجوان اندر داخل ہوا۔ یہ امرندر کا چھوٹا بھائی نوجوت تھا۔ اس نے پگڑی نہیں باندھ رکھی تھی۔ جینز شرٹ میں ملبوس تھا۔ باتوں کے بیچ وقت بیتتا رہا۔ طے پایا کہ نوجوت مجھے یہاں سے ارکتس شہر کے مرکز تک لے کر جائے گا وہاں آرتھوڈوکس چرچز ہیں۔ دریائے انگارہ کا کنارہ ہے۔ دریائے انگارہ سائبیریا کے بیچوں بیچ بہتا ہے اور کیا ہی جوان دریا ہے۔

ریسٹورنٹ سے نکلنے لگے تو امرندر نے بل لینے سے انکار کر دیا۔ میری پرزور فرمائش پر آدھا بل لیا اور آدھے پیسے واپس کر دیئے۔ بولا ” کدی لاہور آیا تے میں وی بل نئیں دیاں گاں۔ برابر ہو جائے گا”۔ باہر بارش کی پھوار تھم چکی تھی۔ نوجوت باتونی انسان تھا۔ وہ بتاتا رہا کہ کیسے امرتسر میں اس کا کاروبار ڈوبا اور اب وہ بھائی کے پاس اس کی مدد کرنے کو آ گیا ہے۔

روس میں سرراہ بوس و کنار کرتے جوڑے اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ قوم اپنے ہر قسم کے جذبات کے اظہار میں کھلی بلکہ الف ننگی ہے۔ فٹ پاتھ پر ایک نوجوان جوڑا دیوار سے ٹیک لگائے باہمی تعلقات کو سرعام مضبوط بنانے میں مشغول تھا۔ نوجوت کی نظر پڑی ” اوئے تہاڈی پین دی !  سانوں ایتھے کڑی نئیں لبھدی تے ایناں نوں ایتھے کمرہ نئیں لبھدا” ۔۔۔ یہ سن کر میری ہنسی نکل گئی۔ نوجوت کی پھر آواز آئی ” بخاری !! ست دن ہو گئے مینوں مجال اے کسی روسی نے مینوں منہ لایا ہووے۔۔ تسی سناؤ، توانوں کسے نے چمی دتی یا تسی وی میرے ہار ویخ ویخ ای رجدے او ؟ “۔۔۔

میں نے پلٹ کر جواب دیا ” نوجوت! سگریٹ لا۔ آپا دویں تمباکو ساڑیئے، دل نئیں”۔۔۔ نوجوت نے مالبرو نکالا۔ ہم دونوں کش لگاتے آگے بڑھ گئے۔ کچھ آگے بڑھے تو اسی چوک میں جہاں دو گھنٹے قبل چار روسی نوجوان بھجن کی تھاپ پر مست تھے اب وہ گا رہے تھے ” علی مولا علی مولا علی دم دم”۔ سپیکروں پر غیرمعروف قوال کی قوالی لگی ہوئی تھی اور وہ چاروں ویسے ہی سر ہلاتے گھومتے مست تھے۔ میں یہ دیکھ کر رکا۔ نوجوت سے کہا کہ یہ کیا چکر ہے ؟ پہلے بھجن گا رہے تھے اب علی مولا پہ آ گئے۔ وہ بولا کہ یہ کچھ دیر بعد عیسائیت کے مذہبی ترانے بھی لگا لیں گے۔ یہ تمام مذاہب کے ماننے والے ہیں۔ ان کا روز کا کام ہے یہ۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ شام بیت گئی۔ نوجوت مجھے ہوسٹل چھوڑ کر گھر چلا گیا۔ اگلی صبح میں جھیل بائیکال کو نکل لیا۔ وہاں سے 3 دن بعد واپسی ہوئی۔ جس شام میں نے فلائٹ لے کر ماسکو پہنچنا تھا کھانا کھانے گنگا ریسٹورنٹ گیا۔ امرندر سنگھ سے الوداعی ملاقات کی۔ نوجوت کہیں مصروف تھا اس سے ملاقات نہ ہو سکی۔ دم رخصت امرندر نے میرا ہاتھ تھاما اور آخری جملہ بولا ” لاہور دی فضا نوں میرا سلام دے دینا۔ میرے باپو دی جنم بھومی اے۔ “۔ پھر اس نے قریب ہو کر میرے ماتھے کو چوما۔ لاہور سے ایسی والہانہ غائبانہ محبت دیکھ کر دل بھر آیا۔ میں نے ریسٹورنٹ کو چھوڑا تو پیچھے مڑ کر دیکھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ سائبیریا کہیں پیچھے رہ گیا ہے۔ لاہور آگے ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply