امریکہ کی خلائی برتری: حقیقت یا فسانہ؟۔۔قیصر اعجاز

ہر سال 16 جون کو ہم خلاء میں جانے والی پہلی خاتون کی سالگرہ مناتے ہیں لیکن جب میں نے کل گوگل پر لکھا، “فرسٹ وومن ان سپیس”، تو اس نے مجھے پہلی خاتون نہیں بلکہ پہلی امریکی خاتون دکھائی جبکہ دونوں کے جانے میں دو دہائیوں کا فرق ہے۔ ہم نے تو چلیں مطالعہ پاکستان صرف اپنے تک محدود رکھ کر اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچایا ہے لیکن امریکہ نے تو مطالعہ امریکہ انٹرنیٹ کے ذریعے پوری دنیا پر مسلط کر رکھا ہے۔

 

بائیڈن ایڈمنسٹریشن کی جانب سے ناسا کے لیے نامزد ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر میڈم پامیلا میلروئے نے کچھ ایسے ہی مطالعہِ امریکہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین خلائی برتری میں امریکہ کو مات دینے کی سازش کر رہا ہے۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ یہ بیان ان کی نوکری کے لیے انتہائی  ضروری تھا لیکن آئیں ایک سرسری سا جائزہ لیں کہ کیا واقعی  کبھی امریکہ کو خلائی برتری حاصل رہی ہے؟

جدید دور میں خلائی  تحقیق کا پہلا ادارہ اسپین نے 1942ء میں قائم کیا۔ اور دوسرا ایسا ادارہ سوشلسٹ سوویت یونین میں 1946ء میں قائم کیا۔

پہلا مصنوعی سیارہ زمین کے گرد سوویت یونین نے اکتوبر 1957ء کو بھیجا۔ یہی سیارہ خلاء سے پہلا سگنل بھیجنے اور موصول کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔ مشن کا نام ‘سپتنک اول’ تھا۔

پہلا جاندار، لائکا نامی کتا، نومبر 1957ء کو سوویت یونین نے کامیابی سے خلاء میں بھیجا۔ مشن کا نام ‘سپتنک دوم’ تھا۔

امریکہ نے ان کامیابیوں کے ردعمل میں اپنا خلائی تحقیق کا ادارہ ناسا 1958ء میں قائم کیا۔

پہلا قمری خلائی مشن سوویت یونین نے 1959ء میں بھیجا۔ جس نے بہت سی کامیابیاں اپنے نام کیں۔ جیسا کہ پہلی مرتبہ راکٹ انجن کو خلاء اور زمین کے مدار میں دوبارہ چالو کرنا، پہلی مرتبہ شمسی ہوا کا پتہ لگانا، اور پہلی مرتبہ ہیلیو سینٹرک مدار میں پہنچنا۔ مشن کا نام ‘لونا اول’ تھا۔

پہلا خلائی  تحقیقی یونٹ جو چاند کی سطح تک پہنچ پایا، سوویت یونین نے 1959ء میں بھیجا۔ زمین کے علاوہ کسی دوسرے خلائی  جسم پر انسان کی بنائی  ہوئی  یہ پہلی شے تھی۔ مشن کا نام ‘لونا دوم’ تھا۔

پہلی مرتبہ چاند کے دور کی طرف (وہ قمری نصف کرہ جو زمین سے دور رہتا ہے) کی تصاویر سوویت یونین نے 1959ء میں حاصل کیں۔ مشن کا نام ‘لونا سوم’ تھا۔

جانداروں کا پہلا گروہ جو خلاء میں ایک دن گزار کر صحیح سلامت واپس آیا، سوویت یونین نے 1960ء میں بھیجا۔ اس گروہ میں دو کتے، ایک خرگوش، بیالیس چوہے، دو جنگلی چوہے، مکھیاں، بہت سے پودے اور فنگس کی کالونیاں شامل تھیں۔ مشن کا نام ‘سپتنک پنجم’ تھا۔

کسی بھی دوسرے سیارے اور وینس کی طرف پہلی خلائی  پرواز سوویت یونین نے 1961ء میں بھیجی۔ یہاں پہلی مرتبہ دو یا دو سے زیادہ مرحلہ وار راکٹ کا کامیاب استعمال کیا گیا، جن میں سے ہر ایک راکٹ کا اپنا انجن اور پروپیلنٹ تھا۔ پہلی مرتبہ پرواز کے دوران راستے کی درستگی اصلاحات کے زریعے کامیابی سے سر انجام دی گئی۔ پہلی مرتبہ خلائی  گاڑی کو گھما کر پرواز کو مستحکم کیا گیا۔ مشن کا نام ‘وینیرا اول’ تھا۔

پہلا انسانی خلائی سفر اور پہلی انسانی مداری پرواز سوویت یونین کے یوری گاگارین کے حصے میں 1961ء میں آئی۔ یہ کل انسانیت کے لیے ایک انتہائی  اہم سنگ میل تھا۔ مشن کا نام ‘ووستک اول’ تھا۔

انسانی عملے کے ساتھ ایک دن کا پہلا خلائی سفر بھی سوویت یونین کے حصے میں 1961ء میں آیا۔ مشن کا نام ‘ووستک دوئم’ تھا۔

پہلی بیک وقت دو خلائی پروازیں جو انسانی عملے پر مشتمل تھیں، سوویت یونین نے 1962ء میں کامیابی سے بھیجیں۔ انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک خلائی جہاز سے دوسرے خلائی جہاز کا ریڈیو رابطہ استوار ہوا۔ جہازوں کے نام ‘ووستک سوم اور چہارم’ تھے۔

پہلی خاتون اور پہلی سویلین جو خلاء کا سفر کر پائیں، سوویت یونین کی ویلنتینا تیریشکووا ٹھہریں۔ یہ خلائی پرواز 1963ء میں ہوئی، جبکہ امریکہ میں 1965ء تک افریقی خواتین کو ووٹ کا حق حاصل نہ تھا۔ مشن کا نام ‘ووستک ششم’ تھا۔

انسانی خلائی پراواز کا پہلا لمبا ترین ریکارڈ جو پانچ دنوں پر مشتمل تھا، سوویت یونین کے حصے میں 1963ء میں آیا۔ مشن کا نام ‘ووستک پنجم’ تھا۔

پہلی کثیر الشخصی (پیشہ ورانہ خلاء بازوں کے علاوہ) خلائی پرواز سوویت یونین نے 1964ء میں بھیجی، جس نے مزید کامیابیاں اپنے نام کیں۔ پہلی مرتبہ ایک سے زیادہ عملے کو خلاء میں لے جایا گیا جس میں خلاء بازوں کے علاوہ ڈاکٹر اور انجینئر بھی شامل تھے۔ یہ پہلی پرواز تھی جو خلائی لباس کے بغیر کی گئی۔ اس مشن نے خلائی جہاز کی اونچائی کا نیا ریکارڈ بھی اپنے نام کیا۔ یہ اراکین یادگاری طور پر پیرس کمیون کا ایک بینر بھی خلاء میں لے کر گئے۔ مشن کا نام ‘ووسکھود ون’ تھا۔

پہلی انسانی خلائی چہل قدمی جو بارہ منٹ تک جاری رہی، سوویت یونین کے حصے میں 1965ء میں آئی۔ الیکسی لینوو دنیا کے پہلے انسان ٹھہرے جو خلائی جہاز چھوڑ کر خلاء میں کامیابی سے قدم رکھ سکے۔ یہ بھی انسانی تاریخ میں ایک انتہائ اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ مشن کا نام ‘ووسکھود دوم’ تھا۔

کسی بھی خلائی جسم اور چاند پر تحقیقی یونٹ کی کامیاب لینڈنگ بھی سوویت یونین کے حصے میں 1966ء میں آئی۔ پہلی مرتبہ کسی خلائی تحقیقی یونٹ نے چاند پر اتر کر ایسی تصاویر لیں، جس سے پہلی مرتبہ چاند کی سطح کا ماحول اور منظر سامنے آیا۔ مشن کا نام ‘لونا نہم’ تھا۔

کسی بھی دوسرے سیارے اور وینس کی سطح کو چھونے والا پہلا تحقیقی یونٹ سوویت یونین نے 1966ء میں بھیجا، جو ناکام رہا لیکن یہ کسی بھی دوسرے سیارے کی آب و ہوا اور سطح پر تحقیق کی پہلی کوشش تھی۔ مشن کا نام ‘وینیرا سوم’ تھا۔

پہلا مصنوعی سیارہ جو کسی خلائی جسم کے مدار میں کامیابی سے گردش کر پایا، سوویت یونین نے 1966ء میں بھیجا۔ مشن کا نام ‘لونا دہم’ تھا۔

دو ریموٹ کنٹرول شدہ خلائی جہازوں کی پہلی ڈاکنگ کا مظاہرہ سوویت یونین نے 1967ء میں کیا۔ اس سے پہلے یہ تصور صرف تخیلاتی تھا۔ خلائی جہازوں کے نام ‘کوسموس 186 اور 188’ تھے۔

انسانی عملے کے ساتھ دو خلائی جہازوں کی پہلی کامیاب ڈاکنگ بھی سوویت یونین کے حصے میں 1969ء میں آئی۔ پہلی مرتبہ خلاء میں عملے کا کامیاب تبادلہ کیا گیا۔ خلائی جہازوں کے نام ‘سوئیز چہارم اور پنجم’ تھے۔

چاند پر پہلا انسان اور کسی بھی خلائی جسم سے خلاء کی پہلی پرواز امریکہ کے حصے میں 1969ء میں آئی۔ یہ بھی انسانی تاریخ کے اہم سنگ میل ثابت ہوئے۔ یہی وہ موقع ہے کہ جب امریکہ نے وسیع تر سرمایہ دارانہ   ذرائع ابلاغ کے زریعے اپنی “خلائی برتری” کا اعلان دنیا بھر میں کیا۔ دنیا کے لیے بہت اچھا ہوا کہ امریکہ کا یہ مشن کامیاب رہا ورنہ امریکہ کا حکمران طبقہ سوویت یونین کی مسلسل خلائی کامیابیوں سے اس حد تک تنگ آ چکا تھا کہ امریکی جرنیلوں کا مشورہ تھا کہ ناکامی کی صورت ہم چاند کو نیوکلیئر بم سے اڑا دیں گے تا کہ اگر ہم چاند پر پہلے نہیں پہنچے تو سوویت یونین بھی نہ پہنچ پائے۔ کچھ جرنیلوں کا یہ بھی مشورہ تھا کہ چاند کی جگہ سوویت یونین پر ہی نیوکلیئر بم گرا کا قصہ ہی ختم کر دیا جائے۔ سو چاند اور دنیا کے بچ جانا یقینی طور پر انسانیت کے لیے اچھا ثابت ہوا۔ بہرحال مشن کا نام ‘اپولو گیارہ’ تھا۔

دوسرے خلائی جسم اور چاند سے خودکار روبوٹ کے زریعے پہلا نمونہ بھی سوویت یونین نے 1970ء میں حاصل کیا۔ مشن کا نام ‘لونا سولہ’ تھا۔

دوسرے خلائی جسم اور چاند پر پہلی ریموٹ کنٹرول گاڑی سوویت یونین نے 1970ء میں بھیجی۔ مشن کا نام ‘لونا کھود اول’ تھا۔

کسی بھی دوسرے سیارے اور وینس کی سطح پر کامیابی سے اترنے والا پہلا تحقیقی یونٹ سوویت یونین نے 1970ء میں بھیجا۔ یہ بھی انسانی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل ہے۔ وینس تحقیق کے لیے ایک انتہائی  مشکل سیارہ ہے۔ اس لیے آج بھی زیادہ تر ممالک مشن صرف اس کے مدار تک بھیجنے پر ہی اتفاق کرتے ہیں کیونکہ وینس سیارے کی آب و ہوا انتہا درجے کی گھنی ہے اور وینس کی سطح کا درجہ حرارت 465 ڈگری سینٹی گریڈ ہے، جس پر لیڈ جیسی بھاری دھات بھی پگھل جاتی ہے۔ اس کے علاوہ وہاں زمین کے مقابلے میں بانوے گنا زیادہ ہوا کا دباو رہتا ہے۔ اس کے باوجود وینس پہلا سیارہ بنا جہاں سے ہم نے سگنل اور ڈیٹا موصول کیا۔ اس تحقیقی یونٹ نے وینس کی سطح سے 20 اور کل 53 منٹ تک معلومات ارسال کیں، اور پھر کام کرنا چھوڑ گیا۔ مشن کا نام ‘وینیرا ہفتم’ تھا۔

پہلا مستقل خلائی اسٹیشن سوویت یونین نے 1971ء میں خلاء میں بھیجا۔ اور یہی خلائی  اسٹیشن تکنیکی اور تجرباتی اعتبار سے 1998ء میں بنائے گئے بین الاقوامی خلائی  اسٹیشن کی بنیاد بنا۔ موجودہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کا پہلا ماڈیول (Zarya) سوویت یونین کے مستقل خلائی اسٹیشن کی ہی پیداکار ہے، جس نے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کی اسمبلی کے ابتدائی مراحل میں باقی سبھی ماڈیولز کو ہر لحاظ سے مکمل تیکنیکی رہنمائی فراہم کی۔ مشن کا نام ‘سالیوت اول’ تھا۔

پہلی مداری رصدگاہ جو انسانی عملے پر بنیاد رکھتی تھی، سوویت یونین نے 1971ء میں قائم کی۔ مستقل خلائی اسٹیشن پر پہنچنے والا پہلا انسانی عملہ بھی سوویت یونین کا تھا جس نے 23 دن تک خلاء میں رہنے کا ریکارڈ بھی اپنے نام کیا۔ مشن کا نام ‘سوئیز گیارہ’ تھا۔

مریخ کی سطح پر پہنچنے والا پہلا تحقیقی یونٹ بھی سوویت یونین نے 1971ء میں بھیجا۔ یہ انسان کی بنائ پہلی شے تھی، جو مریخ کی سطح تک پہنچ پائ، لیکن لینڈنگ کے دوران تباہ ہو گئ۔ مشن کا نام ‘مارس دوم’ تھا۔

مریخ کی سطح پر کامیابی سے اترنے والا پہلا تحقیقی یونٹ بھی سوویت یونین نے 1971ء میں بھیجا۔ مریخ سے موصول ہونے والا پہلا سگنل اسی مشن کا نتیجہ ہے۔ مشن کا نام ‘مارس سوم’ تھا۔

وینس کی سطح پر کامیابی سے اترنے والا دوسرا اور سب سے زیادہ دیر چلنے والا تحقیقی یونٹ سوویت یونین نے 1981ء میں بھیجا۔ پہلی مرتبہ کسی اور سیارے کی ہوا کی آواز کی ریکارڈنگ موصول ہوئی اور پہلی مرتبہ کسی سیارے کی سطح کی رنگین تصاویر حاصل ہوئیں۔ یہ تحقیقی یونٹ 127 منٹ تک معلومات ارسال کرتا رہا جو آج یعنی 2021ء تک ریکارڈ ہے۔ مشن کا نام ‘وینیرا تیرہ’ تھا۔

1991ء میں سوویت یونین کی تحلیل کے بعد دنیا ویسے ہی یک قطبی ہو گئی۔ یعنی امریکہ خلائی دوڑ میں اکیلا بھاگتا رہا اور پھر بھی آخری نمبر پر آتا رہا۔

امریکی خلاء باز بین القوامی خلائی اسٹیشن پر جانے کے لیے 2011ء سے لے کر آج تک (2020ء کی سپیس ایکس کی ایک کامیاب پرواز کے علاوہ) سوویت یونین کے سوئیز راکٹس ہی استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ امریکی خلائی شٹل (1981ء سے 2011ء تک) قدرے مہنگی اور انسانی جانوں کے لیے خطرہ بنی رہی۔ حادثات کی بڑھتی شرح کی وجہ سے 2011ء میں اسے ریٹائر کر دیا گیا تھا۔ امریکہ نے متبادل بنانے کی بھی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ اس کے بعد سے ناسا نے یہ کام نجی کمپنیوں کو دینا شروع کیا۔ اس موقع کا فائدہ اٹھا کر امریکہ کے حکمران طبقے نے نجی کمپنیوں اور انفرادی سرمایہ داروں کو سرمایہ اور ٹیکس میں چھوٹ دینا شروع کی۔ بوئنگ، سپیس ایکس اور بلیو اوریجن کمپنی کو قومی خزانے سے اربوں ڈالر ادا کیے جا رہے ہیں۔ یہی معاہدے، ادائیگیاں اور ٹیکس چھوٹ مستقبل قریب میں خلائی نوآبادیاتی دور کا آغاز کرسکتی ہیں۔ کائناتی وسائل اور انسانوں کے استحصال کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔ خیر ہم اپنے موضوع پر واپس آتے ہیں۔

پہلی مرتبہ چاند کی سطح پر دور کی طرف (وہ قمری نصف کرہ جو زمین سے دور رہتا ہے) کامیابی سے روبوٹ خلائی جہاز چین نے 2019ء میں اتارا۔ مشن کا نام ‘چینے چہارم’ ہے۔

پہلی مرتبہ مریخ پر ایک مکمل مشن کامیابی سے چین نے 2021ء میں بھیجا۔ اس مشن میں ایک عدد مصنوعی سیارہ ہے جو مریخ کے مدار میں گردش کرے گا، ایک لینڈر مریخ کی سطح پر اترے گا، اور ایک خودکار روبوٹ ہے جو مریخ کی سطح کا ارضیاتی سروے مکمل کرے گا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی ایک ملک نے یہ تینوں چیزیں ایک ساتھ کامیابی سے مریخ پر بھیجی ہوں۔ مشن کا نام ‘چورانگ’ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سوال یہ اٹھتا ہے: محترمہ  مادام میلروئے کہ آپ کو پچھلے ستر سال میں اگر کہیں امریکہ کی خلائی برتری واقعی نظر آئی ہو تو مجھے خط لکھ کر ضرور آگاہ کریں۔

Facebook Comments

قیصر اعجاز
مصنف تاریخ، سماج اور حالات حاضرہ کا مطالعہ مارکس کی طبقاتی تعلیمات کی روشنی میں کرتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply