انتہا پسند لبرلز۔۔عدیل احمد

یہ بٹھو کے دور کا پاکستان تھا۔ اسمبلی میں سیکولر اور مذہبی لیڈروں کی بھرمار تھی اور ہر بندہ مہارت میں اعلیٰ  تھا چاہے وہ سیکولر ہو یا پھر مذہبی۔ اسمبلی کا ایک سیشن چل رہا تھا تو ایک عورت رکن اٹھ کھڑی ہو گئیں اور کہنے لگیں کہ اسلام جب مردوں کو چار شادیوں کی اجازت دیتا ہے تو عورت چار شادیاں کیوں نہیں کر سکتی؟اس پر تو مفتی محمود رحمتہ اللہ نے کہا کہ میڈم یہ حکم قرآن کے ماننے والوں کے لیے ہے، آپ بھلے سے چار سے زیادہ کر لیں ۔

دنیا میں سیکولرز اور لبرلر ایک ہی قسم کے ہوتے ہیں ۔ وہاں سیکولر ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مذہب کا کسی کی ذاتی زندگی میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ 1648 میں ہونے والے معاہدہ ویسٹ فیلیا کے بعد یوپینز کے اندر سے مذہب آہستہ آہستہ معدوم ہوتا گیا اور  ایک ذاتی چیز بن گیا ، جس کا معاشرے اور معاشرتی رویوں کے ساتھ تعلق ختم کر دیا گیا اور تا حال یورپ اسی معاہدے پہ عمل پیرا ہے اور وہ لوگ چاہتے ہیں کہ دنیا کے دوسرے لوگ بھی اسی معاہدے کے تحت زندگی گزار  یں ۔اس کے برعکس ہمارے ملک کے سیکولرز کا رویہ کچھ اور ہی ہے ۔ وہ مانتے تو ہیں کہ مذہب کا ذاتی زندگی سے کوئی تعلق نہیں لیکن وہ مذہب صرف اسلام ہے ۔ یہاں کے لبرلز جنہیں عرف عام میں دیسی لبرلز بھی کہا جاتا ہے، وہ صرف اسلام کو تختہ مشق بنانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔

پاکستان اسلام کے نام پہ وجود میں آیا اور یہی اس کی  بقا کا ضامن ہے۔لیکن جب سے پاکستان بنا یہ نام نہاد لبرلزجو اپنے آپ کو سیکولرزم کا علمبردار کہتے ہیں کے سینوں پہ  سانپ لوٹ رہا ہے اور وہ کئی موقعوں پہ اس اسلامی تشخص کو خراب کرنے کی کوششیں کر چکے ہیں ،چاہے وہ 1962 کے آئین  سے اسلامی جمہوریہ کا نام نکلوانا ہو، یا پھر توہینِ  رسالت کے قانون کے ساتھ وقتا فوقتا چھیڑ چھاڑ کرنا۔

یہ طبقہ اس حد تک انتہا پسند ہے کہ اگر کوئی  داڑھی والا خدانخواسطہ کوئی غلط حرکت کرے تو سارے پاکستان کو سر پہ اٹھالیتا  ہے کہ مدرسہ والے نے یہ کیا اور یہ کہ پاکستان میں اسلامی لوگوں نے گند مچا دیا ہے اور اگر یہی حرکت یا اس سے بری حرکت کوئی کالج یا یونیورسٹی کا بندہ کرتا ہے تو ان کو بات کرتے ہوئے موت  پڑ  جاتی ہے۔اس طبقے کو فرانس میں ہونے والے حملے نظر آتے ہیں اور وہاں مرنے والے چار پانچ لوگوں کے لیے  اپنے فیس بک پروفائل کو نیلا  پیلا  کر دیتےہیں لیکن فلسطین میں مرنے والے سینکڑوں لوگوں کو دیکھنے سے پہلے آنکھوں میں موتیا  اُتر  آتا ہے۔

یہ طبقہ اس حد تک انتہا پسند ہے کہ یہ ہر اس شخص سے چِڑ جاتا ہے جو ان کے نظریات کو رَد کر دیتا ہے۔ پاکستان کی اشرفیہ اپنے وجود کے بعد سے ہی اس طبقے کے زیر ِ اثر رہی ہے، چاہے وہ فوجی حکمران ہوں یا پھر سویلین۔ بالواسطہ یہ طبقہ پاکستان کا حکمران رہا ہے اور جب کبھی پاکستان کی تباہی کا ذکر آتا ہے تو یہی دیسی لبرلز مذہبی لوگوں پر چڑھ دوڑتے ہیں کہ ان کی وجہ سے پاکستان ترقی نہیں کر رہا۔ یہی طبقہ ہے جو ملالہ جیسی لڑکی کو پاکستان کی بیٹی باور کراتا ہے اور یہی بیٹی پوری دنیا کے سامنے پاکستان کی عزت کا جنازہ نکال دیتی ہے ۔یہی طبقہ ہے جو عافیہ صدیقی پہ ہونے والے ظلم پہ اپنا منہ سی لیتا ہے لیکن آسیہ مسیح کے کیس میں منہ پھاڑ کے آوازیں نکالتا ہے۔ یہی طبقہ ہے جو مذہبی لوگوں کے خلاف فوجی  آپریشن کی حمایت کرتا ہے لیکن قوم پرستوں کے خلاف آپریشن کا   مخالف ہے۔ یہی طبقہ ہے جو ایک مذہبی انسان کو سیاست میں برداشت نہیں کرتا لیکن ایک غیر مسلم اسے قبول ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

حاصل ِ کلام یہ کہ یہ لبرلز انتہا پسند طبقہ ہی پاکستان کی بربادی کی جڑ  ہے۔ یہ پاکستانی ہوتے ہوئے بھی کبھی امریکہ کبھی یورپ اور کبھی انڈیا کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو پاکستان کے اسلامی تشخص کو برباد کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے ۔ اگر ہم اب بھی نہ سنبھلے تو وہ دن دور نہیں کہ پاکستان میں ایک ایسا طبقہ معرض وجود میں آئے گا جو دین بے زار اور مغربی روایات کا علمبردار ہوگا پھر ہم پاکستان کو معاشرتی طور پہ تباہ ہونے سے نہیں روک سکیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply