اطمینان۔۔کلثوم مہر

رات کے ڈھائی بج رہے ہیں درجہ حرارت 40 ڈگری ہے,اس پہر بھی ہر چیز آگ برساتی محسوس ہورہی ہے, پیاس سے حلق میں کانٹے چبھنے لگے ہیں، دماغ کی شریانیں پھٹنے کے قریب اور جسم یوں تپ رہا ہے جیسے بخار نارمل حالت سے نکل کر اپنی تمام حدیں پار کر چکا ہو۔ ۔
لیکن یہ باہر کی گرمی اور تپش اس آگ کا مقابلہ نہیں کر پا رہی جو آگ میرے سینے کو جلا رہی ہے۔

میں جو منافقت، بے حسی، بے بسی، بے ضمیری، مفاد پرستی اور تعصب گری جیسے کئی جوار بھاٹوں کی زد میں ہوں۔
میرے اندروں کا شور چیخیں آہ و بکا مجھے وحشت میں مبتلا کر رہی ہیں۔۔۔ اسی وحشت سے گھبرا کر میں نے اچانک کھڑکی کھول دی ۔باہر بھی اسی سماں کا سامنا کرنا پڑا جو کمرے کے اندر ہے، آسمان کی سیاہی ماحول کو دہشت ناک بنا رہی ہے، سڑک ویراں اور راستے خاموش ہیں، کوئی ذی روح حد نگاہ تک نہیں اور ہوگا بھی کیوں بھلا ؟۔۔رات کے اس پہر کون پھرتا رہے گا رات بھر!

ذہن الجھا ہے دل ویران ہے ۔عجیب طرح کی گھٹن ہے، آسمان پر بے اختیار میری نظریں جم گئیں، میرا ذہن حضرت انسان کی عقل کی جانب مائل ہوگیا ،زمین پر فساد برپا کردینے  والا یہ فتنہ اب دوسرے سیاروں پر بھی اپنی دھاک بٹھانے کے در پے ہے۔

اتنی بلندیوں تک پہنچ جانے والا انسان کیا یہ وہی انسان ہے۔۔ جس نے اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں پر سانس لینا تک حرام کر رکھا ہے ،بے دریغ ایک دوسرے کے گلے کاٹے جا رہے ہیں، نفرتیں خون میں سرائیت کر کے نسلوں تک منتقل ہورہی ہیں۔

جذبات کچلے جا رہے ہیں خواب نوچے جا رہے ہیں اور خون کے آنسو رلائے جا رہے ہیں

رشتوں کا مان ان کا پاس کہیں مردہ ہوچکا ہے اب تو اس کی لاش سے بدبو کے بھبھکے اٹھنے لگے ہیں اور اس بدبو کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ اب اسے محسوس ہی نہیں کیا جا رہا۔
انسانیت نوحہ کناں ہے، احساس بین کر رہا ہے ، ضمیر سسک رہا ہے۔
شور ہے بے انتہا شور قیامت خیز شور کانوں کے پردے پھٹ رہے ہیں
خاموشی ہے جان لیوا خاموشی کہ اپنی ہی سانسوں کی آواز بھیانک لگنے لگی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مئی کا مہینہ  ہے سنا ہے کچھ دنوں میں آندھی چلے گی طوفان آئے گا ۔۔ہاں خوش آئند ہے ،شاید اس بار یہ آندھی طوفان سب اپنے ساتھ اڑا اور بہا کر لے جائے۔۔۔!!! زمین پر ایک نئی دنیا آباد ہو۔۔
نئی دنیا
نئی سوچ
نیا انسان !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply