مسلم تاریخ کے کچھ دلچسپ گوشے۔۔پروفیسر ساجد علی

ہمارے ہاں کچھ حلقوں کی جانب سے ایک شکوہ بہت عام ہے کہ ہمیں غلط تاریخ پڑھائی جار ہی ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صحیح تاریخ کیا ہوتی ہے؟ تاریخ گزشتہ ادوار میں پیش آنے والے وقوعات و حادثات کا بیان ہے۔ اگر ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کئی صدیوں پیشتر کوئی واقعہ درحقیقت کس طرح پیش آیا تھا تو یہ جاننے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں۔ ہماری مجبوری ہے کہ ہم ان بیانات پر انحصار کریں جو مورخین نے اپنی کتابوں میں بیان کیے ہیں۔ تاہم آنکھیں بند کرکے ان مورخین پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ کتب تاریخ میں مذہبی، ریاستی، نظریاتی، نسلی، اور قومی تعصبات کا غلبہ رہا ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ ہم کسی کتاب کو پڑھتے ہوئے کچھ سوالات پوچھیں۔ اگر مورخ بیان کرتا ہے کہ فلاں واقعہ اس طرح رونما ہوا تھا تو ہم پوچھ سکتے ہیں کہ آیا ممکنہ طور پر کوئی اور صورت بھی ہو سکتی ہے یا نہیں۔

تاریخ کے مطالعے میں ایک اور دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ اس میں بالعموم فاتح کا ورشن ہی پڑھنے کو ملتا ہے۔ اگر ہم سرزمین ہند پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں کے باسیوں نے کبھی تاریخ نگاری کی ہی نہیں تھی۔ سکندر اعظم نے ہندوستان پر حملہ کیا لیکن ہمیں کسی تاریخ میں ہندوستان کا نقطہ نظر نہیں ملتا۔ آج کل کچھ لوگ بہت بلند آواز سے دعویٰ کرتے ہیں کہ دراصل پورس نے سکندر کو شکست دی تھی۔ اس بات کی تائید میں لیکن ہمیں کوئی شہادت نہیں ملتی۔ سکندر کو شکست ہونا کوئی بعید از قیاس بات نہیں۔ تا ہم اس کو جاننے کے لیے کچھ واقعاتی شواہد پر انحصار کرنا پڑے گا۔ جس فوج کو شکست ہو وہ واپس بھاگتی ہے ۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اسے شکست تو ہوجائے لیکن اس کی پیش قدمی جاری رہے۔ اب اگر تو یونانی افواج شکست کھا کر پنڈی کی طرف بھاگ گئی تھیں تو ہم یہ بات تسلیم کر سکتے ہیں کہ انھیں شکست ہوئی تھی۔ لیکن اگر یونانی افواج جہلم دریا عبور کرکے آگے بڑھی تھیں تو پھر اس دعوے کو تسلیم کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ مزید براں سکندر کے بعد کئی صدیوں تک اس علاقے میں یونانی سلطنت بھی قائم رہی تھی۔

مسلمانوں کا بازنطینی سلطنت کے ساتھ تقریباً آٹھ صدیوں تک محاذ گرم رہا ہے۔ اس تاریخ کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ دونوں اطراف کا لکھا ہوا مواد دستیاب ہے جس کی بنا پر تقابلی مطالعہ ممکن ہے۔ اگر ایک واقعہ کا مسلم اور رومی دونوں تاریخوں میں ذکر ملتا ہے تو ہم کافی وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ واقعہ رونما ہوا ہو گا۔ غلام احمد پرویز صاحب کا ابتدائی مسلم تاریخ کے بارے میں یہ موقف تھا کہ تمام صحابہ کو قرآن حکیم نے چونکہ یہ سرٹیفکیٹ عطا کیا ہوا ہے کہ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، اس بنا پر وہ تمام واقعات جعلی شمار ہوں گے جو صحابہ کے مابین مناقشات یا محاربات کو بیان کرتے ہیں۔ چنانچہ مندرجہ بالا سرٹیفکیٹ کی روشنی میں ان نفوس قدسیہ سے ان واقعات کا صدور محال ہے۔ لیکن اگر رومن تاریخ بھی حضرت عثمانؓ کی شہادت کا ذکر کر رہی ہو، اسی طرح اس میں جنگ جمل، جنگ صفین، واقعہ کربلا اور عبداللہؓ بن زبیرؓ کی شہادت کا ذکر ملتا ہو تو پھر ان واقعات کے وضعی ہونے پر یقین کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ ہوتا ہے کہ تاریخی واقعات کے متعلق افراد کے تقویٰ یا تقدیس کے حوالے سے فیصلہ کرنا اتنا آسان نہیں۔ ایک اہم اصول یہ ہے کہ کسی مشہور تاریخی واقعے کی تردید کی خاطر بہت قوی شواہد درکار ہوتے ہیں، اسے محض خیال آرائی سے رد کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

ہمارے وہ مورخین جو تاریخ کو مذہبی نقطہ نظر سے دیکھنے کے عادی ہیں ان کے لیے اس دور کے واقعات کی توجیہ بیان کرنا بہت مشکل ہوتا ہے جسے فتنہ اولیٰ یا کبریٰ قرار دیا گیا ہے۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد امیر معاویہؓ کے تخت حکومت پر فائز ہونے تک پانچ سال کا عرصہ خانہ جنگی کا ہے۔ان جنگوں میں جاں بحق ہونے والے مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ بیان کی جاتی ہے۔ ان کی اتنی سی توجیہ قابل قبول نہیں ہو سکتی کہ دو نیک نیت اور متقی فریقوں کے مابین محض غلط فہمی اورچند افراد کی فتنہ انگیزی کے سبب برپا ہو گئی تھیں۔ان جنگوں کا ایک اہم پہلو اور بھی ہے جسے عام طور پر تاریخوں میں نظر انداز کیا گیا ہے یا بہت سرسری طور پر بیان کیا گیا ہے۔

جب مسلمان باہم برسر پیکار تھے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت رومی سلطنت والے کیا کر رہے تھے۔ وہ ابھی اتنے کمزور نہیں ہوئے تھے کہ اس صورت حال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرتے۔ طرفین کی تحریروں کے تقابلی مطالعے سے اس سوال کا جواب حاصل کرنے میں کسی قدر آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔

ہمارے تاریخ نگاروں کو بھی اس سوال کی اہمیت کا احساس رہا ہے چنانچہ انھوں نے اس خلا کو پر کرنے کی کافی سعی کی ہے۔ تاریخی کتب میں اس امر کا ذکر ملتا ہے کہ قیصر روم اپنی فوجوں کو آگے بڑھا لایا تھا۔غور طلب بات یہ ہے کہ اس کے بعد کیا ہوا تھا؟ زمانہ جدید کے مورخین جو صدر اول کے مسلمانوں کو تقدیس کے اعلیٰ مراتب پر فائز دیکھتے ہیں وہ لازم سمجھتے ہیں کہ اس دور کے کسی فرد پر وارد ہونے والے اعتراض کا جواب مہیا کریں۔ اس کی ایک مثال ہمیں اکبر شاہ خان نجیب آبادی کی مشہور کتاب “تاریخ اسلام”میں ملتی ہے۔ اس صورت حال کو ان لفظوں میں بیان کرتے ہیں، “جب حضرت علی اور امیر معاویہ کے مابین جنگ کا بازار گرم تھا اور قیصر روم نے شمالی ایران کے علاقوں پر حملہ کرنے کا سوچا تو امیر معاویہ نے اسے خط لکھا: ہماری آپس کی لڑائی تم کو دھوکے میں نہ ڈالے۔ اگر تم نے علی کی طرف رخ کیا تو علی کے جھنڈے کے نیچے سب سے پہلا سردار جو تمھاری گوشمالی کے لیے آگے بڑھے گا وہ معاویہ ہو گا۔” (جلد اول، ص 660)

فاضل مصنف نے کوئی حوالہ نہیں دیا کہ یہ خط انہیں کس کتاب میں ملا ہے۔ قیصر روم کا شام کے قریبی علاقوں کو چھوڑ کر شمالی ایران پر حملہ کرنے کا ارادہ قرین قیاس دکھائی نہیں دیتا کیونکہ دونوں میں جغرافیائی بعد تھا اور آرمینیا کے اکثر علاقوں پر مسلمانوں کا قبضہ تھا۔

اس کے برعکس ندوہ سے شائع ہونے والی شاہ معین الدین ندوی کی “تاریخ اسلام” میں ابوحنیفہ دینوری کی “الاخبار الطوال” کے حوالے سے یہ واقعہ کچھ اس طرح بیان ہوا ہے: جب حضرت علی سے جنگ تقریباً یقینی ہو گئی تھی اس وقت رومی بھی سواحل شام پر فوجیں جمع کر رہے تھے۔ امیر معاویہ کو عمرو بن العاص نے یہ مشورہ دیا قیصر روم کے قیدیوں کو چھوڑ کر اس سے صلح کر لو، اس شرط پروہ فوراً آمادہ ہو جائے گا( حصہ اول، ص 236)۔ البتہ اس مورخ نے بھی یہ بتانا پسند نہیں کیا کہ اس مشورے کا نتیجہ کیا تھا۔ آیا قیصر روم نے بس اتنی سی بات پرصلح کر لی تھی یا کچھ اور تقاضا بھی کیا تھا؟

ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں ایک ملتا جلتا واقعہ نقل کیا ہے: جب شاہ روم نے حضرت معاویہ کو حضرت علی سے مصروف پیکار پایا تو وہ عظیم فوجوں کے ساتھ ملک کے بعض حصوں کے قریب آ گیا اور ان میں دل چسپی لیے لگا تو حضرت معاویہ نے اسے لکھا: خدا کی قسم! اگر تو باز نہ آیا اور اے لعین ! تو اپنے ملک کو واپس نہ گیا تو میں اور میرا عم زاد آپس میں مصالحت کر لیں گے اور ہم تجھے تیرے ملک سے نکال دیں گے اور زمین کو باوجود فراخی کے تجھ پر تنگ کر دیں گے۔ اس موقع پر شاہ روم خوف زدہ ہو کر واپس چلا گیا اور مصالحت کا طلب گار ہو کر پیغام بھیجا۔ (تاریخ ابن کثیر۔ اردو ترجمہ۔ حصہ ہشتم، ص 454)

تاہم رومی وقائع نگار (Theophanes ) نے یہ واقعہ کچھ یوں بیان کیا ۔659ء میں حضرت معاویہ نے قیصر روم کے ساتھ معاہدہ کیا تھا کہ مسلمان ایک ہزار طلائی سکے، ایک غلام اور ایک گھوڑا روزانہ کے حساب سے رومیوں کو خراج ادا کریں گے۔ (یہاں nomismata کا لفظ استعمال ہوا ہے، ابن خلدون نے اسے دینار کہا ہے) اپنی وفات سے ایک سال قبل بھی امیر معاویہ نے رومیوں کو سالانہ دو لاکھ سولہ ہزار طلائی سکے، پچاس گھوڑے اور پچاس غلام ادا کرنے کی شرائط پر صلح کامعاہدہ کیا تھا۔ خالد یحییٰ بلینکن شپ نے اپنی کتاب (The End of the Jihad State ) میں ان معاہدات کا ذکر کرتے ہوئے دو مسلمان مورخین الیعقوبی اور ابن خیاط کی کتابوں کا بھی حوالہ دیا ہے۔

غور کیا جائے تو ان مسلمان مورخین اور رومی وقائع نگار کا بیان زیادہ قرین قیاس دکھائی دیتا ہے کہ فریقین کے مابین کوئی صلح کا معاہدہ ہوا تھا۔ ظاہر سی بات ہے کوئی بھی زیرک اور فہیم کمانڈر دو محاذوں پر بیک وقت لڑنا پسند نہیں کرے گا۔ ایک محاذ کو سرد رکھنا اور اپنے عقب کی حفاظت کرنا اس کی مجبوری ہے۔

اس کے بعد جب عبدالملک خلیفہ بنا تو اس وقت حجاز پر حضرت عبداللہ بن زبیر کا قبضہ تھا، عراق میں مختار ثقفی نے شورش برپا کی ہوئی تھی ۔ مشرقی محاذ پر جنگ کرنے کے لیے اس نے مصلحت جانی کہ مغربی محاذ پر موجود دشمن سے صلح کر لی جائے۔ رومی وقائع نگار کے مطابق، چنانچہ اس نے 685 ءمیں قیصر روم سے انھی شرائط پر معاہدہ صلح کیا تھا جن پر حضرت معاویہ نے پہلا معاہدہ کیا تھا۔ لیکن خراج کی مقدار اتنی زیادہ تھی کہ اس کے لیے ادا کرنا ممکن نہ تھا۔اس لیے اگلے ہی برس اس معاہدے کی تجدید کی گئی اور ایک غلام اور ایک گھوڑا روزانہ دینے کی شرط ہٹا دی گئی۔اس کے باوجود اتنی بڑی رقم ادا کرنا ممکن نہ تھا، لہٰذا تین برس بعد رومی پھر فوجیں لے کر آ گئے تو اس وقت ہونے والے معاہدے میں خراج کی رقم گھٹا کر ہفتہ وار ایک ہزار طلائی سکے کر دی گئی۔ اس معاہدے کا ذکر ابن خلدون ان الفاظ میں کرتا ہے، “عہد عبد الملک میں جس وقت آپس کی نااتفاقی حد سے متجاوز ہو گئی تھی، رومیوں نے موقع پا کر مسلمانان شام پر لشکر کشی کر دی تھی۔ عبد الملک نے والی قسطنطنیہ سے دب کر اس شرط پر مصالحت کر لی تھی کہ ہر جمعہ کو ایک ہزار دینار ادا کرے گا۔ یہ واقعہ 70ہجری کا ہے۔” ابن خلدون نے جس برس کا ذکر کیا ہے اس وقت ابھی مذکورہ بالا خانہ جنگی جاری تھی۔

اگر ہم ابن کثیر اور ابن خلدون کی تواریخ کا تقابلی مطالعہ کریں تو عجیب و غریب صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ابن کثیر نے تاریخ لکھتے وقت، بالخصوص صدر اول کی تاریخ میں، روایات پر انحصار کیا ہے۔ ہر واقعے اور ہر سانحے کے لیے پہلے سے ایک پیش گوئی موجود ہے۔اس نے حضرت علی کا یہ قول ابوداود کے حوالے سے نقل کیا ہے: زمین پر جو کچھ ہوتا ہے پہلے آسمان پر اس کا فیصلہ ہو چکا ہوتا ہے۔ ان روایات سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ صحابہ کرام کے مابین جو جنگ و جدل ہوا وہ مشیت کا فیصلہ تھا، اس کی کسی پر ذمے داری عائد نہیں کی جا سکتی۔ اس کے برعکس ابن خلدون واقعات کو بڑی حد تک معروضی اور غیر جذباتی انداز میں بیان کرتا ہے۔ وہ شاذ ہی کسی روایت کا سہارا لیتا ہے۔ بالعموم انھی واقعات کو بیان کرتا ہے جو قرین قیاس ہوتے ہیں۔ البتہ بنی امیہ کی طرف اس کی جانب داری بہت واضح ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ ہمارے مورخین نے واقعات کو ریکارڈ ضرور کیا ہے لیکن ان کے تحلیل و تجزیے کی زحمت کم ہی اٹھائی ہے۔ یہ وہ کام ہے جس کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہمارا تاریخی فہم درست بنیادوں پر استوار ہو سکے اور ہم واقعات کا درست تناظر میں جائزہ لے سکیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply