فلسفی – ایک سیدھی جلیبی

کہتے ہیں کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ اس بات کی دلیل ہوتا ہے کہ خدا ابھی تک بندوں سے مایوس نہیں ہوا۔ اس پر معصوم صاحب کہتے ہیں کہ ایسا صرف تب سمجھا جائے اگر بچہ بڑا ہو کر فلسفی نہ بنے۔

فلاسفہ انسانوں کی اس قدیم نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو ایک فٹ کے طول کو پہلے بارہ انچ اور پھر ہر انچ کو آٹھ سوت میں تقسیم کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے کم کو زیادہ کر دکھایا۔

بچپن میں ہمیں لگتا تھا کہ فلسفی جب گہری سوچ میں چلا جاتا ہے تو نئے خیال سامنے آتے ہیں۔ ایک دن ہمارے پروفیسر دوست جو کہ پارٹ ٹائم فلسفی بھی ہیں، پنسل منہ میں رکھے گہری سوچ میں غرق تھے۔ ہم نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ کراچی سے راولپنڈی جاتے ہوئے ڈیڑھ گھنٹہ لگتا ہے تو پھر واپسی میں نوے منٹ کیوں لگتے ہیں؟

معصوم صاحب آدھے فلسفی آدھے پروفیسر ہیں، یعنی سمجھدار بالکل بھی نہیں ہیں۔ آسان چیزوں کو خود ہی مشکل کرتے ہیں اور ان مشکل چیزوں کو مشکل تر طریقوں سے حل کرکے خود ہی خوش ہوتے رہتے ہیں۔ لوگوں کو پریشان کرنے کے لیے پیراڈوکس بناتے ہیں، اور جب یہی پیراڈوکس خود حل نہیں کرپاتے تو پریشان ہوتے رہتے ہیں۔ یوسفی صاحب نے ایسے ہی فلاسفہ کے بارے میں فرمایا ہے کہ فلسفی سے کسی سوال کا جواب پالینے کے بعد بندہ یہی سوچتا ہے کہ اس جواب سے تو سوال ہی بہتر تھا۔ میرے جو دوست فلسفی ہیں ان کے بارے میں یہ سوچ کر خاموش ہوجاتا ہوں کہ بر سر فرزند آدم ہر چہ آید بگزرد۔

عقل مند اساتذہ جاہلانہ سوالات کا جواب عمومًا خاموشی سے دیتے ہیں بشرطیکہ فلاسفر نہ ہوں۔ جتنی محبت دیوداس کو پاروتی سے تھی اتنی ہی فلسفی کو مباحثے سے ہوتی ہے۔ آج تک یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اولاً مباحثے نے فلاسفہ کو جنم دیا یا فلسفی سے مباحث سرزد ہوئے۔ فلسفیوں کی کئی اقسام ہوتی ہیں: تصویری فلسفی، تحریری فلسفی، تخیلاتی فلسفی، اور بلاوجہ فلسفی۔ یہ تمام فلسفی ایک دوسرے سے زیادہ فلسفی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اصل پریشانی تب ہوتی ہے جب کوئی اس کے ساتھ ہی عقلمند ہونے کا بھی دعویٰ کر دیتا ہے۔

تصویری فلسفی کاغذ پر گھنٹہ بھر آڑے ترچھے نقوش بناتا ہے اور پھر دو دن یہ سوچتا رہتا ہے کہ یہ میں نے کیا بنایا! جب بہت سوچ بچار کے بعد یہ سمجھ آنے لگتا ہے کہ گلدان بنا ہے، تو آس پاس کے لوگوں سے تصدیق کروائی جاتی ہے۔ لوگ جواباً کہتے ہیں بہت خوبصورت تتلی بنائی ہے۔

تحریری فلسفی فلاسفہ کی خطرناک ترین قسم ہے۔ یہ اپنے قلم سے دنیا کو آگ لگانے کا ملکہ رکھتے ہیں لیکن چونکہ قلم سے فائر بریگیڈ نہیں بنا سکتے اس لئے اس خیال کو ہمیشہ کل پر موقوف رکھتے ہیں۔ اس قبیل کے فلاسفہ عوام الناس کو یقین دلاتے ہیں کہ فلسفہ ہر چیز کی روح تک پہنچنے کے راستے سجھاتا ہے لیکن اس صدی کے عوام الناس اتنے بھی عوام نہیں کہ بیوقوف بن جائیں۔ سقراط جی کے دور میں بہت سادگی تھی۔ لوگ یکے بعد یگرے فلسفی بن رہے تھے، آج کل لوگ سمجھدار ہوگئے ہیں۔

فلاسفہ کی ایک قابل ذکر قسم تخیلاتی فلسفی بھی ہوتی ہے۔ یہ بنیادی طور پر شریف انسان ہوتے ہیں۔ کسی کو ذہنی اذیت نہیں دیتے۔ پھر بھی اپنے آپ کو فلسفی ہی سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انھیں فلسفی سمجھا، پڑھا اور پکارا جائے۔ معصوم صاحب اسی قبیل کے فلسفی ہیں۔ گرمیوں کی ایک مشکل رات میں جو کسی طور نہیں کٹ رہی تھی، اور چھت کا پنکھا بھی عین موقع پر دھوکہ دے گیا تھا، تو معصوم صاحب گرمی سے پریشان تھے۔ اچانک اٹھ بیٹھے۔ کچھ منتر پڑھ کر دائیں بائیں دیکھا کیے اور سکون سے سوگئے۔ صبح ماجرا پوچھا تو کہنے لگے میں نے فلسفیانہ طور پر فرض کیا کہ پنکھا موجود ہے، چل رہا ہے اور گرمی بالکل نہیں ہے، بہت اچھی نیند آ رہی ہے۔ اس واقعے کے بعد سے معصوم صاحب کو دو بار سائکاٹرسٹ کا مشورہ دے چکا ہوں۔

بلاوجہ فلسفی وہ ہوتے ہیں جو بال کی کھال اتارنے میں کمال مہارت رکھتے ہیں اور غلط موقع پر فلسفہ سنانے لگتے ہیں۔ سرمایہ دار کو دیکھ کر روسو کا اور مزدور دیکھتے ہی کارل مارکس کا فلسفہ سنانا ان کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔ روشن خیالوں کے سامنے غزالی اور بنیاد پرستوں کو ابنِ رشد کا فلسفہ سمجھاتے ہیں۔ کیمسٹری کی کلاس میں نظریہ چار عناصر پیش کرتے ہیں۔ بے موت مارے جانے والے بیشتر فلسفیوں کا تعلق اسی گروپ سے ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

فلسفی اس لیے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں کہ وہ خود کچھ نہیں کرتے اوروں سے کرواتے ہیں۔ جیسے لوہا لوہے کو اور ہیرا ہیرے کو کاٹتا ہے ویسے ہی فلسفی ہی فلسفی کو کاٹتا ہے بلکہ کاٹنے کو دوڑتا ہے۔ بہت سارے فلسفی، فلسفے سے پھر بھی توبہ نہیں کریں گے اگر انھیں یہ بات بتا دی جائے کہ مہ رخوں کے سپنوں میں آنے والا ایک بھی راج کمار فلسفی نہ تھا۔

Facebook Comments

ثاقب الرحمٰن
چند شکستہ حروف ، چند بکھرے خیالات ۔۔ یقین سے تہی دست ، گمانوں کے لشکر کا قیدی ۔۔ ۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply