• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مغرب میں توہین کے واقعات کیسے روکیں؟ (3،آخری قسط)۔۔ڈاکٹر محمد شہباز منج

مغرب میں توہین کے واقعات کیسے روکیں؟ (3،آخری قسط)۔۔ڈاکٹر محمد شہباز منج

اب رہی یہ بات کہ مغرب کو یہ کیسے سمجھایا جا ئے ،تو جناب اس پر عرض ہے کہ اس ضمن میں ایک جانب تو کام (اگرچہ پرندے کے منہ میں پانی کے قطرے جیسا ہی ہے )ہم تحقیق کرنے والوں اور لکھنے لکھانے والوں کا ہے، لیکن واضح رہے کہ ہمارا بنیادی کام اپنی حکومت اور ارباب ِ اختیار کو علمی رہنمائی فراہم کرنا ہی ہے ، اگر وہ پسند فرمائیں تو ہم اس معاملے میں ان کی ہرممکن مدد کریں گے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے مغرب میں مستشرقین یا دیگر سکالرز اپنی حکومتوں کو مسلمانوں اور عالم اسلام سے ڈیل کرنے کے معاملے میں رہنمائی دیتے رہے ہیں اور آج بھی دے رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ فیصلے تو حکومتوں نے ہی کرنے ہوتے ہیں۔ اور دوسری جانب (جو اصل فیصلہ کن کام ہو سکتا ہے یہ ہے کہ ہماری حکومتوں کو ) اس کے لیے یو این او اوریورپین ہیومن رائٹس کمیٹیوں اور کمیشنز کو اپروچ کرنا پڑے گا۔ ایک طویل اعصابی اور قانونی جنگ لڑنا پڑے گی، جس کے لیے تمام مسلمان ملکوں کو اجتماعی کوششیں کرنا ہوں گی۔

رہا اس میں پاکستان کے کردار کا مسئلہ تو جناب اپنی سطح پر پاکستان بھی پرندے کے منہ میں پانی کے قطرے کی طرح کا کردار ہی ادا کر سکنے کی پوزیش میں ہے ۔کیا پاکستان کو جلا کر فرانس کو قائل کرنے کے تمنائی بتا سکتے ہیں کہ کتنے مسلمان ملکوں نے فرانس کے سفیروں کو واپس بھیجا؟ ستاون اسلامی ممالک میں سے شاید ایک نے واپس بھیجا اور ایک سے وہ ناراض ہو کر خود چلے گئے۔چلیں واپس نہیں بھیجا تو کتنوں نے فرانس کے سفیروں کو بلا کر احتجاج ہی ریکارڈ کروایا ہے؟ تو جناب عالی اس کے لیے مسلمان ملکوں اور او آئی سی وغیرہ کے فورمز کو متحرک کرنا ہوگا۔ یہ باتیں ہم مغرب کو اپنا گھر جلا کر نہیں سمجھا سکتے، آپ آدھے پاکستانیوں کے جلتے گھروں اور تڑپتی لاشوں سے گزر کر اسلام آباد کو مجبور بھی کر لیں کہ وہ فرانس کے سفیر کو واپس بھیج دے تو بھی مغرب ہماری بات نہیں مانے گا۔ حتی کہ آپ مغرب میں توہین کے مرتکب افراد کو چن چن کر قتل کرنا شروع کر دیں، تب بھی یہ توہین بند نہیں ہوگی، بلکہ ردعمل میں اور بڑھے گی۔(یہاں ٹھہر کر اس آیت پر غور کیجیے جس میں اللہ کو گالی پڑنے کے اندیشے سے دوسروں کے معبودانِ باطل کو گالی دینے سے روکا گیا ہے، اور اس حدیث کو بھی ذہن میں رکھیے جس میں آپﷺ نے فرمایا تھا کہ جب تم دوسرے کے والدین کو گالی دو اور وہ جواب میں تمھارے والدین کو گالی دے، تو گویا تم نے خود اپنے والدین کو گالی دی۔ یوں اگر ہم نے مسئلہ خراب کیا اور ردعمل میں انھوں نے اور توہین کی تو کیا ہم خود اس کے ذمے دار نہیں ہوں گے؟)

جن کا خیال ہے کہ آپ جو حل تجویز کر رہے ہیں وہ تو بڑا دھیما اور لمبا پراسس ہوگا؛ اس پر برس ہا برس اور دہائیاں بھی لگ سکتی ہیں۔ تو جناب یہ بات ذہن میں رکھیے کہ شارٹ کٹ ہمیشہ تباہی لاتا ہے۔ مغرب کو اپنی موجودہ تہذیبی اقدار (جن میں بہت سی اقدار ہم مسلمانوں کے نزدیک ناقابلِ قبول ہیں) تک پہنچتے ہوئے صدیاں لگی ہیں ؛ ان کی نسلیں ان کے حصول کی خاطر موت کے گھاٹ اتری ہیں، وہ ان کے بارے میں اتنے ہی حساس ہیں، جتنے ہم حضورﷺ کی ناموس کے بارے میں ہیں۔ وہاں پر تشدد کاروائیوں یا ردعمل کی نفسیات کے ذریعے کوئی مسئلہ حل کروانے کی کوشش کا مطلب، جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ،اس کے سوا کچھ نہیں کہ آپ مسئلہ حل کروانے کی بجائے الٹا خراب کروا بیٹھیں۔سومغرب میں توہین کےمسئلے کو جڑ سے پکڑکر حل کرنے کے لیے کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ اس کی دو ہی صورتیں ہیں: ایک یہ کہ آپ سیاسی ، معاشی اور عسکری لحاظ سے اس پوزیشن میں ہوں کہ مغرب کو ڈکٹیٹ کر سکیں کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے آپ اس پر عمل کریں اور دوسرے یہ کہ اس کی تہذیبی اقدار کے اندر پر امن احتجاج اور قانونی جنگ لڑ کر اس کو قائل کریں۔اور یہ دونوں لمبے پراسیس ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر آپ ان دونوں صورتوں کے علاوہ سینہ تان کر کھڑے ہونا چاہتے اور بندوق کے زور پر اپنا موقف منوانا چاہتے ہیں ، تو یہ آپ کے نزدیک شارٹ کٹ ہو سکتا ہے ، ہمارے نزدیک یہ پہلی دونوں صورتوں سے بھی طویل پراسیس ہو گا۔ اس صورت میں آپ کو صدیوں مغرب سے جنگ لڑنی پڑ سکتی ہے۔اگرآپ اس پوزیشن میں ہیں اور قرآن کے بیان کے مطابق ان سے لڑنے کی طاقت جمع کر لی ہے تو بسم اللہ کریں ، ورنہ آپ کے پاس پہلے دونوں آپشنز ہی ہیں اور ان میں بھی سرِ دست آپ کے پاس صرف پر امن قانونی جدو جہد کا آپشن ہی سب سے بہتر اور حکمت و فراست کا تقاضا ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شہباز منج
استاذ (شعبۂ علومِ اسلامیہ) یونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا، پاکستان۔ دل چسپی کے موضوعات: اسلام ، استشراق، ادبیات ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور اس سے متعلق مسائل،سماجی حرکیات اور ان کا اسلامی تناظر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply