• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عرب مشاہیر “ابو العلا احمد بن عبد اللہ المعری”۔۔۔منصور ندیم

عرب مشاہیر “ابو العلا احمد بن عبد اللہ المعری”۔۔۔منصور ندیم

ابو العلا المعری (973-1057 سنہء عیسوی)، جن کا پورا نام “ابو العلا احمد بن عبد اللہ المعری” تھا، المعری انہوں نے معرفت اور شاعری کے حوالے سے شہرت پائی ، المعری شام کے جنوبی شہر حلب میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے عرب میں شاعری میں اور صوفیاء کی حیثیت سے شہرت حاصل کی. چار برس کی عمر میں ہی ایک بیماری کی وجہ سے نابینا ہو گئے . جب سفر کے قابل ہوئے تو انہوں نے اس وقت کے علمی مرکز Anitoch ، شام کے دیگر شہروں میں حصول علم کے لئے لا تعداد سفر کئے اور وہاں موجود اہل علم سے نسخہ دل و علم کی سیرابی کی۔ بغداد میں 18 مہینے مختلف اہل علم کی معیت میں گزارے، (بغداد جو اس وقت اہل علم اور شاعری کا مرکز تھا)، پھر اپنے آبائی شہر واپس آ گئے. وہاں آکر انہوں نے اپنی شاعری کا پہلا بڑا مجموعہ ” لوزومیات” کے نام سے مرتب کیا، جو اس وقت تک کی عام اور روایتی شاعری سے اور خیالات سے بالکل الگ نظریات سے تعلق رکھتا ہے۔اس شعری مجموعے نے المعری کی شہرت کو چار چاندلگا دیے اور اس مجموعے کی وجہ سے اہل علم ان کی طرف متوجہ ہوئےاور ان کی شاعری اور ان کے فلسفے پر تعلیمات کا سلسلہ شروع ہوا۔ لوزومیات انسان اور معاشرے پر افکار انسانی کا ایک گہرا مشاہدہ ہے۔

المعری کا کہنا تھا کہ ” میرے شدت پسند افکار مجھے لوگوں کی نظر میں گمراہ ثابت کرتے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ مجھے سمجھنے میں غلط ہیں. اگرچہ میں نے اپنی خواہشات کو سمجھا لیکن میں نے خواہشات کے حصول کی اندھی پیروی نہیں کی، میں نے دنیا کی تمام لذتوں کو چھوڑ دیا کیونکہ میں نے ان خواہشات کی پیروی کو ہی متروک کیا اور نفس مجھ سے نکل گیا.”المعری اپنے افکار کی مزید وضاحت میں کہتا ہے کہ ” میرے علم انسانی نے مجھ پر یہ آشکار کردیا ہے کہ دنیا کی تمام لذتیں اور آرائشیں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں، ہر تخلیق اور لذت کو فنا حاصل ہے۔”

لوزومیت کے بنیادی افکار اس وقت کے زمانہ عصر میں ایک تعصب کی حیثیت رکھتے تھے جس میں جذبات اور دلچسپی تو تھی ، لیکن وہ عقیدہ ایمان کے بہت سے اظہاریہ سے میل نہیں کھاتے تھے، ان افکار کی بنیاد پر المعری کو بھی اس وقت کے مذہبی رجعت پسندوں کی طرف سے کافی الزام کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے جواب میں المعری نے کہا کہ” میں نے اپنی شاعری کو افسانہ کے ذریعہ تسلیم نہیں کیا ہے یا اپنے اشعار کو ، محبوب کی تعریف، پیار کے بتوں، جنگ کے مناظر، شراب پارٹیوں کی وضاحت اور پسند پر نہیں رکھا، بلکہ میرا مقصد سچ بات کرنا ہے.اور اب تک کی موجودہ شاعری کا صحیح مقصد سچائی نہیں ہے، بلکہ تخیلاتی اور خوش نمائی ہے اور یقینا ًحقیقی سچ سے دور ہے، اور اپنے پیغام میں موجود شاعری اپنے اختتام میں ایک تخیلاتی اختتام پر ختم ہوتی ہے اور جو حقیقت میں افکار کی تکمیل کو خراب کرتی ہے. لہٰذا وہ اپنی شاعری کے ذریعے اپنےافکار کو ایک حقیقی سچائی سے دکھانا چاہتا ہے. ” المعری اپنے پڑھنے والوں کو معاشرے کے سدھار کے لئے حقیقت ، سچائی اور اخلاقیات پر مبنی شاعری دینا چاہتا تھا ۔

المعری کی شاعری اس وقت کے تمام مذاہب اور افکار و نظریات کی مروجہ شاعری کو شکست دیتی نظر آتی تھی، اور اس درجہ روشن خیال شاعری اس وقت کے مغربی معاشروں میں بھی نظر نہیں آتی تھی. وہ مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے مذاہب کی طرف سے مساوات پر معاشرے کی تشکیل کا قائل تھا۔ المعری کا کہنا تھا افراد کا عقیدہ ہر مذہب کے ماننے والوں کی جائے پیدائش کی بنیاد پر ہے وہ جس عقیدے پر پیدا ہوتا ہے وہ اس کو قبول کرلیتا ہے۔ مثلا اگر کوئی فرد مسیحیوں میں پیدا ہوا وہ مسیحی مذہب کا پیروکار اور اگر یہود کے درمیان پیدا ہوا تو وہ یہودی بن جائے گا۔ المعری  ایک عقل پرست (Rational Approch ) کا حامل تھا جو روایت یا وحی کے علم پر ہی انحصار نہیں کرتا تھا، المعری اپنے عہد کے مذاہب کو ایک ادارے کے طور پر دیکھتا تھا جو اس کے بانیوں اور کاہنوں کے لئے اقتدار اور آمدنی کا ذریعہ بنائے گئے تھے، جنہوں نے الہیات اور قربانی سے منسوب من گھڑت قصے کہانیوں کے ساتھ دنیا کا تصور زندگی اور موت کا تصور دیا ہوا تھا. عمودیہ اور جینوں کی طرح، المعری زندگی کی حرمت پر یقین رکھتا تھا، اسکا ماننا تھا کہ کسی بھی زندہ مخلوق کو اپنی ضرورت اور لذت کے لئے نقصان نہیں پہنچانا چاہئے . انہی افکار کی بنیاد پر وہ ایک Vegetarian بن گیا. اور اس نے شادی تک نہیں کی۔

المعری نے اس عہد میں بہت واشگاف اور بہادری سے اپنے افکار کا اظہار کیا اور اپنی شاعری کے ذریعے معاشرے کے ہر “انسانی تناظر پر متقابل روایات کے باوجود، نا انصافی، منافقت اور انتہا پسندی کے خوفناک تصورات پر بات کی.”

Advertisements
julia rana solicitors

المعری کے فلسفے کو اہل مغرب میں بھی کافی سراہا گیا ہے۔ اور اس کی تمام کتابوں کے ترجمے انگریزی میں دستیاب ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply