میں اس سرد شام اپنے پسندیدہ ریستوران میں اپنے واحد دوست کے ساتھ بیٹھی تھی اور ہمارے سامنے رکھی سیاہ کافی اپنی ساری حرارت کھو چکی تھی۔۔ہم ہمیشہ کی طرح ریستوران کے باغیچے میں مروا کے پیڑ تلے اپنی مخصوص میز پر بیٹھے تھے ،اپنی مخصوص نشستوں پر۔۔اور اس سارے منظر نامے میں اگر ہماری دوستی کے اتنے برسوں میں کوئی تبدیلی آئی تھی تو وہ اس شام ہمارے بیچ ٹھہری وہ بھید بھری چپ تھی جس کی تہہ میں ان کہے المیے ماتم کناں تھے۔۔مگر نہیں!!! آج صرف وہ بھید بھری چپ ہی نہیں تھی ۔۔کچھ اور بھی تھا ۔۔کچھ بد ترین۔ جو مجھے فی الوقت سمجھ نہیں آ رہا تھا۔وہ سر جھکائے اپنے انگوٹھے کے ناخن سے میز پوش پر نادیدہ لکیریں کھینچ رہا تھا اور وہ خراشیں مجھے اپنے دل پر لہو اگلتی لکیروں کی مانند محسوس ہوتی تھیں ۔میری بے چین فطرت مجھے اکسا رہی تھی کہ میں اپنے واحد دوست پر پڑی خاموشی کی یہ چادر ایک جھٹکے سے کھینچ کر پرے پھینک دوں اور اس کے شانوں کو جھنجھوڑ کر،چلا کر کہوں” کیا اسی لیئے تم نے مجھے اس سرد شام میں سفید رقعے کے ہمراہ جامنی پھول بھیجے تھے کہ تم یوں ابد کے بھید کھوجنے لگو اور میں ٹھنڈی ہوتی کافی کی مردہ خوشبو کے ساتھ اکیلی کڑھتی رہوں”؟؟؟ مگر وہ اس وقت اتنا معصوم اور ہراساں لگ رہا تھا کہ میں نے اس کو اس سٹوپا سے باہر لانے کا ارادہ ترک کر دیا۔۔۔اور اب جب تک وہ اس کیفیت سے نکل کر سگریٹ نہیں سلگا لیتا، میں آپ کو ہمارے ماضی میں لیئے چلتی ہوں۔۔۔۔
وہ میرا واحد دوست تھا ۔یوں سمجھ لیجئیے کہ پوری کائنات میں مجھے صرف وہی میسر تھا۔۔مجھے یہ یاد نہیں کہ ہم پہلی بار کہاں اور کب ملے تھے ۔۔مگر یہ ضرور یاد ہے کہ تب بھی وہ پہلی بار نہیں تھا۔۔خیر۔! اس کی اور میری دوستی کی بنیادیں بہت انوکھی زمین پر رکھی تھیں ۔ اور بس ہم دوست تھے۔ہم میں بہت زیادہ رابطہ کبھی نہ رہا مگر ربط۔۔۔ہاں ربط کائنات کے وجود میں آنے کی پہلی گھڑی سے قائم تھا۔
ہم میں جو قدریں مشترک تھیں ان میں سے ایک ان لکھی کہانیاں تھیں ۔۔کہانیاں جو ہم میں سانس لیتی تھیں اور کہانیاں جو کبھی لکھی نہیں گئیں ۔۔ہم گھنٹوں کہانیوں پہ بحث کرتے۔۔کرداروں کو تخلیق کرتے ان کے ساتھ ہنستے روتے اور پھر ریستوران کے دروازے سے نکلتے ہوئے انہیں کافی کی خالی پیالیوں میں اوندھے منہ دھکیل کر پیچھے مڑ کر نہ دیکھتے۔۔کیسے کیسے لازوال کردار اس کافی کی میز پر تخلیق و فنا کے مراحل سے گزرے جس پہ ہم اس وقت موجود تھے۔
ذرا ٹھہریے!! میں اپنے دوست کو اک نظر دیکھ لوں۔۔ نہیں!!! وہ ابھی اپنے یوٹوپیا سے باہر نہیں آیا۔۔۔ہاں تو میں یہ کہہ رہی تھی کہ میرا واحد دوست بہت پراسرار سی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ کسی اور ہی زمانے میں جیتا تھا۔۔لاسلکی رابطوں کے اس دور میں بھی وہ کاغذپہ لکھے حروف، کو معتبر جانتا تھا۔اور جب بھی ہم نے ملاقات کرنی ہوتی وہ مجھے ایک سفید رقعہ جس کے ہمراہ جامنی پھولوں کی چند ڈنڈیاں ہوتی تھیں، کوریر سروس کے نمائندے کے ذریعے بھجواا دیتا اور پہلی بار ایسا رقعہ وصول، ہونے پر میں بہت ہنسی تھی۔۔”آج کے، دور میں ایسے لوازمات!! خوب ہے بھئی” لیکن اب تو مجھے یاد بھی نہیں کہ میری الماری کی نچلی دراز میں کتنے رقعے اور کتنی سوکھی ڈنڈیاں ہیں ۔۔
میرا دوست کچھ کچھ واپس آنے لگا، ہے لہٰذا میں ذرا، اختصار سے، کام لیتے ہوئے بات، آگے بڑھاتی ہوں
وہ ایک اچھا دوست ہونے کے ساتھ ساتھ ایک فطرت شناس آوارہ گرد بھی تھا۔۔معمول کی زندگی جیتے جیتے وہ جب اکتا جاتا تو پیراشوٹ کا بنا ایک تھیلا اٹھاتا، اپنے بوٹ جھاڑتا اور ان دیکھی دنیاوں کی تلاش میں نکل پڑتا۔ ۔اور، ان دنوں میں، ہاں صرف انہی دنوں میں وہ اس قدر خود غرض، کٹیلا، اور تلخ ہو جاتا تھا جیسے غاروں کے دور کا چونکیل انسان۔۔بھڑکتا، ہوا۔۔نتھنے پھلا پھلا کر ہوا کا مزاج سونگھتا ہوا۔۔وہ ایسا کیوں ہو جاتا تھا مجھے اس کی وجہ کبھی سمجھ نہ آ سکی۔
وہ جب سیاحت سے لوٹتا تو بے حد شانت، خوش مزاج اور پرسکون ہوتا ۔وہ چونکیل کڑواہٹ اس کے وجود سے سگریٹ کے گل کی طرح جھڑ چکی ہوتی۔۔میں بھی اسے وہ تلخ دن کبھی یاد نہ دلاتی اور کافی کی اس میز پہ وہ مجھے اپنے حیرت کدوں کی سیر کو لے جاتا۔ اس کے سیاہ چرمی تھیلے میں ہمیشہ میرے لئے تحفے ہوتے تھے ۔ وہ ایک پتھر نکال کر اسے میز پہ رکھ دیتا اور بچوں کی سی مسرت لیے مجھے بتانے لگتا” جانتی ہو۔۔؟؟؟یہ مجھے کہاں سے ملا؟؟ ” میں نفی میں سر ہلاتی تو وہ اپنے ذہین آنکھوں سے مزین چہرے کو ہاتھوں کے پیالوں میں سجا لیتا اور پرجوش ہوکر لہجے کو ذرا پراسرار بنا کر کہتا ” یہ ایک گلیشیائی ندی کی دھارا میں کائناتی راز کی طرح چمک رہا تھا۔اور میں نے بدن کاٹتے یخ پانی میں اتر کر اسے اٹھا لیا” کچھ توقف کے بعد وہ اپنے الفاظ میں “تمہارے لیئے” کا اضافہ کرتا اور کائناتی راز میری آنکھوں میں چمکنے لگتا ۔۔
وہ چرمی تھیلے سے تحفے نکال نکال کر میرے سامنے رکھتا جاتا ۔مختلف پیڑوں کے پتے، ٹہنیاں، پتھر، انوکھی وضع کے پھول، کئی طرح کے چھوٹے بڑے رنگین پر، تتلیوں کے جھڑ چکے پنکھ ۔۔۔اور ایک بار تو اس نے حد ہی کر دی. وہ دیوسائی سے میرے لئے سانپ کی کینچلی کا، ایک ٹکڑا لایا تھا اور وہ اس قدر حسین تھا گویا دیوسائی کے سبھی پھول اس کی سرخ اور نیلی کھال میں جنم لیتے ہوں۔۔۔اور سب سے بڑھ کر، تو وہ ننھی بوتلیں تھیں۔۔۔وہ جن جھیلوں آبشاروں اور دریاوں سے ملنے جاتا تو ان کا ایک حصہ ایک نازک کانچ کی بوتل میں بھر کر میرے لئے لے آتا۔ رتی، کرومبر، سرال اور نجانے کتنی ہی جھیلیں اور آبشاریں ان ننھی بوتلوں میں مقید میرے کمرے میں آرام کرتی تھیں ۔ ۔۔وہ اپنے سفر میں سے میرا حصہ میرے آگے دھر دیتا اور ہم کافی کی پیالیوں کے ساتھ محو گفتگو، ہو جاتے۔۔۔وہ مجھے اپنی ان دیکھی دنیاوں کی سیر پہ لے جاتا۔ان جھیلوں کی داستان سناتا جہاں دھند جنم لیتی ہے۔۔کبھی ان ازلی برفوں کے بسیروں کا رخ کیا جاتا جہاں گرنے والی بارش تیسرے سر میں بجتی ہے اور گہری ہوتی شام میں کبھی وہ کائل اور پڑتل کی بھید بھری مہک کے راز کھولنے لگتا ،جن کے پتوں میں سے جب زمستانی ہوا گزرا کرتی ہے تو وہ منی پوری گت سناتے ہیں ۔۔
وہ بولتا جاتا اور میں ان دنیاوں میں اس کے ہمراہ پھرا کرتی۔۔
پھر کہانیوں پہ بحث ہوتی ۔۔کرداروں کی تخلیق ان کا کرب مجسم کیا جاتا۔۔ان کی خوشی میں مزید سیاہ، کافی منگوائی جاتی۔۔اور باتیں۔۔۔باتیں۔۔۔۔جو اسکی غیر موجودگی میں میری زبان کے ذائقے کو کھارا کرتی رہتی تھیں ۔۔
لیجئے!! میرا، دوست اب اپنی کیفیت سے باہر آ چکا ہے اور میری بے چین فطرت آپ سے وداع لیتی ہے۔۔۔
اس نے اپنے سگریٹ کیس سے اپنا پسندیدہ سگریٹ نکالا، اسے چند لمحے انگلیوں میں گھمانے کے بعد ہونٹوں میں دبا کر اس نے لائٹر کو رگڑا تو ننھا سا شعلہ فورا سگریٹ کے کورے وجود کو سلگا گیا۔۔۔اس نے ایک چھوٹا سا کش لیا اور سرد شام میں بینسن اینڈ ہیجیز لائٹ کی کڑوی مہک پھیلنے لگی۔۔وہ اپنی پسندیدہ نیلی جیکٹ پہنے ہوئے تھا مگر کچھ کچھ بے آرام لگ رہا تھا۔میرا ضبط اپنی آخری سرحدوں کے قریب پہنچ چکا تھا اور اس شام میں برہا راگ کو جھیلتی میں اتنا گھبرا گئی تھی کہ قریب تھا کہ میں اس جھنجوڑ کر یہ کہنے پر مجبور ہو جاتی کہ وہ آخر، اس بات کو اپنے لبوں کی دہلیز پہ کیوں یوں روک کر بیٹھا ہے کہ اس کے رخسار بھنچے ہوئے ہیں ۔۔جو کہنے آیاہے، کہہ کیوں نہیں دیتا؟؟؟ میں نے کڑھ کر سوچا اور تبھی اس نے ہاتھوں کی انگلیوں کی قینچی سی بنائی اور آج کی ملاقات کا پہلا جملہ اس کے ہونٹوں سے، ادا، ہوا “
میں نے، اپنی کرسی کے برابر میں رکھی بیساکھی اٹھائی اور ریستوران کے خارجی راستے کی طرف چل دی۔۔وہ میرے لیے آسکر وایلڈ کا ابابیل تھا جو میری اندھی آنکھوں کے لیے کہانیوں کی روشنی لاتا تھا۔ ۔۔اور اب وہ جانے کو تھا تو مجھے اس کا سفر آسان کرنا چاہئے تھا۔۔میں ایک ایک قدم چلتی اس سے دور ہوتی گئی۔۔۔مجھے ابھی گھر جا کر ان سفید رقعوں کو بھی گننا تھا اور آخری رقعے پر گنتی بھول کر پھر سے گننا تھا۔۔
دروازے کے قریب پہنچ کر میں نے آخری بار مڑ کر دیکھا تو میز پہ اس ٹھنڈی ہوتی کافی کی پیالی کے ساتھ جہاں ہم اپنے کردار تخلیق کرتے تھے۔۔میری لاش پڑی تھی۔۔میں نے اس منظرکو بہت سکون سے دیکھا اور باہر کو چل پڑی۔۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں