یہ غالباً 2004,5 کی بات ہوگی جب لاہور کی کمپنی جس میں ، میں کام کرتا تھا اسے ڈیرہ مراد جمالی بلوچستان کے قریب موجود اُچ پاور پلانٹ پر ایک بڑا شٹ ڈاؤن پراجیکٹ ملا۔ شٹ ڈاؤن پلانٹ کو مکمل طور پر بند کر کے اسکی سروس اینڈ مینٹیننس کو کہتے ہیں۔ ہم نے کوئی بیس پچیس لوگوں کو ہائر کیا اور شام کو جعفر ایکسپریس کے ذریعے اپنی بھاری بھرکم ٹول کٹس اور ذاتی سازوسامان کے ساتھ ڈیرہ مراد جمالی پہنچ گئے۔ یہ بلوچستان کا میرا پہلا دورہ تھا۔ یاد رہے کہ انسٹرومنٹ کیلیبریشن کے کام کی نوعیت سے میں اس کمپنی کی طرف سے چاروں صوبوں کی کئی صنعتوں کا دورہ کر چکا ہوں۔ اسکے بعد ایک سیمنٹ سے جڑا جمود تھا، حیات ٹھہر سی گئی۔
“اُچ پاور ” کی ایڈمنسٹریشن نے ہمیں لینے آنا تھا اور ناشتے کا انتظام کرنا تھا جو کہ کسی وجہ سے لیٹ ہو گئے اور ہمیں ریلوے اسٹیشن پر ہی ٹھہرنے کا کہا گیا۔ بھوک زوروں پر تھی۔ دس تو بج ہی چکے تھے سو ہم نے سوچا کہ ناشتے وغیرہ کے لیے کچھ وقتی انتظام کر لیتے ہیں۔ کوئی چائے شائے کے ساتھ کچھ دیکھتے ہیں۔ مجھ پر اور میرے ساتھ کمپنی کے ایک اور مستقل ملازم پر یہ انتظامی ذمہ داریاں عائد تھیں۔ میں نے سب سے کہا کہ آئیں کچھ وقتی ناشتہ کر لیتے ہیں جب تلک وہ لوگ نہیں آتے۔
مجھے یاد ہے جب ہم ڈیرہ مراد جمالی ریلوے اسٹیشن سے کسی ہوٹل کی تلاش میں نکلے تھے تو پاس ہی پھلوں کے کچھ کریٹس کا ایک ڈھیر تھا جن میں اخباروں کا بھی ایک انبار تھا جیسا کہ پھلوں کے کریٹس میں تہیں لگانے کے لیے ہوتا ہے۔ ان کریٹس سے کچھ بچے گلے سڑے پھل چن رہے تھے۔ پھٹے پرانے میلے کپڑے ، جھاڑ جھنکار سے بال ، مرجھائے ہوئے پھول ، پھل ڈھونڈ رہے تھے۔ اگلا منظر پڑھ کر آپکے اوسان ویسے ہی خطا ہونگے جیسے ہمارے تب اس کا حصہ بن کر ہوئے تھے۔
ہم انکے قریب سے گزرے تو نہ جانے یہ بلوچی زبان میں کیا کہتے کہتے پتھر اٹھا کر ہم پر برسانے لگے۔ کچھ ہم ان سے دور تھے کچھ بھوکے بازوؤں میں جان نہ تھی۔ ہم وہاں سے بھاگے اور آگے ایک کچے پکے سے ہوٹل میں جا کر پناہ لی۔ دکانداروں نے انہیں وہاں سے بھگایا تو ہماری جان میں جان آئی۔مگر یہ سوال ذہنوں میں کانٹا بن کر چبھ گیا کہ ان بچوں نے بھلا ایسا کیوں کیا ؟
چائے وغیرہ پی کر ہم واپس اسٹیشن پر ہوٹل والے کے بھیجے ہوئے دو لڑکوں کی حفاظت میں آئے اور کچھ دیر بعد گاڑیاں آ گئیں اور ہم اُچ پاور پلانٹ کی طرف سیکیورٹی گاڑیوں کے ایک قافلے کی صورت روانہ ہو گئے۔ راستہ ویران اور بے آب و گیاہ تھا دور دور تلک چٹیل سے پہاڑی سلسلے اور کچھ ریتلے ٹیلے دکھائی دیتے تھے۔ انسانی زندگی سے جڑے جدید تو کیا قدیم تہزیبی آثار بھی مفقود تھے۔ زندگی میں پہلی بار بلوچستان آ کر پتا چلا کہ محرومی ہوتی کیا ہے۔
کوئی ڈیڑھ مہینہ ہم نے وہاں گزارا ہو گا۔ اس دورانیے میں پلانٹ سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات تھے۔ ایک دن وہاں ایک سپیشل ڈنر تھا جس میں گورے آئے ہوئے تھے۔ اس رات کے انتظامات کی کہانی بھی ایک الگ داستان ہے۔ کیا طرح طرح کے کھانے ، مشروبات و دیگر لوازمات تھے۔ اس بچاردیواری کے باہر بھوک پیاس اور احتیاج تھی۔
کچھ عمر کی کتاب کے صفحے پلٹے اور زمانے کا نصاب پڑھنے لکھنے کے لائق ہوا تو پتا چلا محرومی کا گھن اثبات کے وجود کو کھا جاتا ہے۔ ایک گھر میں بھی دو بھائیوں کے درمیان اگر حقوق و فرائض کا عدم توازن قائم ہو جائے تو محروم ذہنوں میں پلنے والی منفیت کی دیمک ایک ماں باپ اور آنگن کی اشتراکیت کو نگلنے لگتی ہے۔ ساتھ اوپر سے قائم بھی دکھائی دے تو اندر سے کھوکھلا ہوتا ہے۔
یہی حال ارضِ پاکستان کا بھی ہے۔ ان بلوچی بھوکے بچوں کے ننھے ذہنوں میں رنگ برنگے مغربی طرز کے ملبوسات میں موجود ہم متمول دکھتے لوگ شاید اس استبداد کا استعارہ تھے جسے انکے ننھے ذہنوں قبول نہ کیا۔ اسے کسی تربیت سے جوڑنے سے پہلے یہ یاد رکھیے گا کہ بعینہ یہ واقعہ ہمیں لوگوں کے ساتھ کوئی تین دہائیوں قبل کھیوڑہ میں بھی پیش آیا تھا جب ہم اپنے کزنز کے ساتھ پہلی بار نمک کی کان دیکھنے گئے تھے۔
بلوچستان کی محرومیاں پاکستان کی ہم عمر ہیں۔ انکا آغاز قائد اعظم کے بلوچی عمائدین سے کیے گئے معاہدے پر عدم عملدرآمد سے شروع ہو کر آج تلک جاری ہے۔ ان محرومیوں کی آڑ میں کسی گروہ کی مسلح مہم جوئی کو پر امن حقوق کی تحریکوں سے الگ کرکے انکے ازالے کی ہمہ جہت پالیسی کا آغاز ہی مسئلے کا واحد حل ہے۔ اگر پُرامن بلوچوں کو انکے حقوق دیے جائیں گے تو وہ اپنے درمیان موجود مسلح گروہوں کی خود حوصلہ شکنی کریں گے۔ یہی ریاست کی سب سے بڑی طاقت ہو گی اگر مسئلہ حل کرنا ہے۔ بصورتِ دیگر انسانی تاریخ کا سبق یہی ہے کہ
پر امن جدوجہد کرنے والوں کی حوصلہ شکنی انکی بے بسی اور ان پر جبر درحقیقت مسلح گروہوں کی طاقت بن جاتی ہے۔
محرومیوں کے ازالے کی ہمہ جہت پالیسی سیاسی عمل ، معاشی و سماجی حقوق ، لا پتہ افراد کے معاملے کے حل ، پر امن تحریکوں کا احترام و قومی دھارے میں شمولیت پر مبنی نکات کی صورت میں مزاکرات پر مبنی ہونی چاہیے۔ سیاستدانوں ، صحافیوں اور سول سوسائیٹی کے دیگر موثر افراد پر مبنی ایک بااختیار کمیٹی کی تشکیل کے ذریعے اس مسئلے کے دیرپا حل کی طرف بڑھنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ مسلح کاروائیاں کسی صورت بھی گوارہ نہیں کی جا سکتیں انہیں پوری قوت سے کچلنا چاہیے لیکن ان مسلح کاروائیوں کی آڑ میں حقوق کا مطالبہ کرتی پر امن تحریکوں کی عدم شنوائی بھی اتنی ہی خطرناک ہو گی۔ وگرنہ یہ سوال اپنی جگہ قائم رہے گا کہ اگر بلوچستان کا مسئلہ ایک ایس ایچ او کی مار ہے تو ایک ڈکٹیٹر کے مکے دکھانے کے آغاز سے آج بیس برس بعد تلک مسئلہ کم ہونے کی بجائے بڑھتا کیوں جا رہا ہے ؟ کیا وزیرِ داخلہ صاحب کے ایک ایس ایچ او کی استعداد ایک ایٹمی قوت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی فوج سے زیادہ ہے؟؟؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں