کمفرٹ زون۔۔احمد نصیر

عمر بن ہشام، محمد ﷺ کا سب سے بڑا مخالف۔۔ جسے جہالت کا باوا آدم کہا گیا۔ اسے ابو جہل کا لقب محض اس لئے دیا گیا کہ اس نے دینِ حق کی مخالفت کی ورنہ وہ اپنے دور کا کامیاب ترین انسان تھا۔ اس کے اندر اعلیٰ  انسانی صفات موجود تھیں۔ جن کی وجہ سے رسول اللہﷺ  نے اس کے اسلام میں آنے کی دعا فرمائی تھی۔ لیکن محض ایک چیز جو ابو جہل کے اندر تھی جس کی وجہ سے اللہ پاک نے دوسرے عمر، عمر بن خطاب کو چنا۔ وہ تھی کمفرٹ زون میں رہنے اور نئی چیز کو قبول نہ کرنے کی انسانی فطرت۔ اس نے صدیوں سے چلتے آئے باپ دادا کے دین کو چھوڑ کر اپنے ہاتھوں میں پیدا ہوئے آدمی کے راستے پر چلنے میں خطرہ محسوس کیا۔

کائنات میں دو ہی ہستیاں ہیں جو کچھ تخلیق کر سکتی ہیں۔ ایک خدا جس نے یہ وسیع و عریض کائنات بنائی۔ دوسرا انسان جس کی تخلیقی صلاحیت کے جلوے ہم سیارہ زمین پر دیکھتے ہیں۔ لیکن ہم انسانوں کے ساتھ ایک المیہ ہے کہ ہم میں سے بہت ہی کم تعداد اپنی صلاحیتوں کو استعمال کر پاتی ہے۔ باقی سب بس پیدا ہوتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے جب دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ اس موقع پر ہمارے پاس ایک زبردست قسم کا بہانہ ہے قسمت کا کہ قدرت نے ہماری قسمت میں یہی لکھا تھا۔ خیر اگر بات کی جائے بہانوں کی تو قسمت کے علاوہ بھی درجنوں بہانے مل جائیں گے جو ہماری نالائقی کو بخوبی سپورٹ کریں گے۔ لیکن ہم سائنٹفک وجہ دیکھتے ہیں کہ سارے انسان انسانیت کی اعلیٰ ترین معراج پر کیوں پرفارم نہیں کر پاتے؟ کیا وجہ ہے کہ بہت ہی کم لوگ غیر معمولی صلاحیتوں کا اظہار کر پاتے ہیں؟ سائیکالوجی میں اس کو کمفرٹ زون کہا جاتا ہے۔ دھیان رہے یہ کمفرٹ زون منفی چیز ہر گز نہیں۔ ہاں اس صورت میں منفی ہے کہ ہم اس کو مینج نہ کر پائیں۔ اور ساری زندگی ایک دائرے کے اندر گزار کر دنیا سے گزر جائیں۔

ہمارا دماغ جو کہ پورے جسم کے وزن کا 2 فیصد ہے لیکن یہ پورے جسم کی 20 فیصد سے زیادہ توانائی استعمال کرتا ہے۔ ہمارے زہن کی انٹیلیجنس اس بجلی کا خرچہ کم سے کم کرنے کے لئے ڈیزائنڈ ہے۔ جہاں توانائی زیادہ لگ رہی ہو تو دماغ کا لمبک سسٹم سٹریس کیمیکل تخلیق کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہمیں وہاں سے پلٹنا پڑ جاتا ہے۔ جب ہم ڈرائیونگ سیکھ رہے ہوتے ہیں تو اس وقت ہماری توانائی بہت زیادہ استعمال ہو رہی ہوتی ہے۔ ہم سارے ایکشنز شعوری توجہ سے کر رہے ہوتے ہیں۔ اس وقت ہم ڈرائیونگ کے سارے ایکشنز بڑی مشکل سے کرتے ہیں اور بار بار چھوڑ دینے کو دل کرتا ہے۔ کیونکہ اس پر اضافی بجلی خرچ ہو رہی ہوتی ہے۔ اگر ہم چھوڑتے نہیں اور سٹریس کے باوجود پریکٹس جاری رکھتے ہیں تو اس بار بار پریکٹس سے دماغ کے اندر نیورونز بار بار فائر ہوتے ہیں۔ ایک وقت آتا ہے جب ڈرائیونگ کے لئے ایک نیورل سرکٹ مکمل ہو جاتا ہے۔ اور ہمارا جسم شعوری توجہ کے بغیر خود ہی فیصلے کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ جس کا مطلب ہوتا ہے کہ ہم اب ڈرائیونگ سیکھ چکے ہیں۔ اب ہماری ڈرائیونگ اس نیورل نیٹ ورک یا آٹومیٹک نظام کے سپرد ہو گئی۔ یہ بھی اسی وجہ سے ہوا کہ توجہ اور بجلی یہاں سے بچا کر باقی اہم جگہوں پر استعمال کی جا سکے۔ جو کچھ زہن کے لئے نیا ہو اس پر بجلی زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ اور بجلی بچانے کا یہی نظام اپنے لئے کچھ حدود کا تعین کر کے کمفرٹ زون تخلیق کرتا ہے۔

دوسری وجہ ہمارے جسم کا سروائیول میکنزم ہے۔ ہمارا ذہن ہمیں ہر اس چیز سے دور رکھتا ہے جو ہمارے لئے ذرہ بھر بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہو۔ یہ ہمیں انجان (unknown) سے دور رکھتا ہے۔ کیونکہ انجان پتہ نہیں کیسا ہو؟ خطرناک بھی ہو سکتا ہے، ہمیں مشکل میں بھی ڈال سکتا ہے۔ یہی کمفرٹ زون میں رہنے کی عادت ہمیں قدرت کے قوانین کو سمجھنے کی طرف نہیں جانے دیتی۔ اور ہم معاشرے میں چلتے آئے قوانین پر ہی زندگی گزار دیتے ہیں۔ ہمارے والدین کا مذہب ہمارا مذہب ہوتا ہے۔ فرقے، سیاسی وابستگیاں، عداوتیں، عقائد، نظریات جو ہمارے قریب ترین لوگوں کے ہیں وہی ہمارے ہیں۔ چاہے وہ غلط، آؤٹ ڈیٹڈ اور نقصان دہ ہی کیوں نہ ہوں۔

ہم اپنی آسانی کی خاطر لاشعوری طور پر اپنے گرد ایک حفاظتی غلاف بنا لیتے ہیں۔ کچھ حدیں مقرر کر لیتے ہیں۔ پھر زندگی بھر ہم ان حدود سے باہر نہیں نکلتے۔ یہ ہوتی ہے ہماری پرسنل دنیا یا کمفرٹ زون جو قدرتی طور پر ہم اپنی آسانی کے لئے بناتے ہیں۔ یہ ان واقعات اور حالات سے بنتی ہے جو ہماری پیدائش کے بعد ہمارے ساتھ پیش آتے ہیں یا سامنے سے گزرتے ہیں۔ یہ سب ہمارے تحت الشعور میں اپنی پوری شکل میں، اپنے پورے اثر کے ساتھ محفوظ ہوتے ہیں۔ اور نئے واقعات اور حالات ان کو  اپ ڈیٹ کرتے جاتے ہیں۔ ہمیں شعوری طور پر ادراک نہیں ہوتا لیکن یہی ہمارے دماغ کی مخصوص تربیت یا کنڈیشننگ کرتے ہیں۔ جو ہماری پوری زندگی کو کنٹرول کرتی ہے۔

ہمارے سامنے ہر وقت بے شمار چیزیں ہوتی ہیں۔ لاکھوں بِٹس ڈیٹا ایک سیکنڈ میں شعور کے پاس آتا ہے لیکن شعور 60 بِٹس فی سیکنڈ سے زیادہ معلومات پروسس نہیں کر پاتا۔ اس لئے ہم بس وہی دیکھتے ہیں۔ جو انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہوتا ہے اسے ہمارا دماغ رجسٹر نہیں کرتا۔ چنانچہ ہمارا تحت الشعور جس کے اندر ہماری اصل شخصیت بیٹھی ہوتی ہے اس تک وہی کچھ پہنچ پاتا ہے جو اس کے اپنے متعلق ہوتا ہے۔ یوں ایک مختصر سی قلعہ بند دنیا تخلیق پاتی ہے جس کی قید میں ہم زندگی بھر رہتے ہیں۔

ہمارا شعور ہمارا ڈرائیور ہے۔ لیکن ہم اپنی تربیت خود نہیں کرتے، اپنی زندگی کو اپنے شعور سے ڈیزائن نہیں کرتے۔ چنانچہ ایک آٹومیٹک نظام ہماری زندگی کو ڈرائیو کرتا ہے۔ اسی وجہ سے امیر، امیر ہوتا جاتا ہے اور غریب، غریب۔ یعنی ہم وہی بنیں گے جو ہمارا ماحول ہمیں بنائے گا۔ جبکہ ہمیں وہ بننا چاہیے جو ہم خود اپنے آپ کو بنائیں۔ ہم بااختیار مخلوق ہیں، ہم انسان ہیں۔ کائنات کی واحد مخلوق جو آزاد اختیار (free will) رکھتی ہے۔ ہم کامیاب ہیں یا ناکام اگر اس کا ذمہ دار ماحول ہو تو پھر ہمیں بااختیار اور باشعور مخلوق ہونے کے دعوے سے دستبردار ہو جانا چاہیے۔ سزا جزا، جنت دوزخ سب بے معنی۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہماری دنیا میں کامیاب اور غیر معمولی انسانوں کا تناسب بہت ہی کم ہے۔ لمبی چوڑی ریسرچ کو چھوڑیں عام سی نظر سے بھی دیکھا جائے تو یہی نظر آئے گا کہ 99.99 پرسنٹ لوگ انتہائی معمولی زندگی جی کر اگلے جہان رخصت ہو جاتے ہیں۔ جبکہ قدرت تمام انسانوں کو صلاحیتیں اور مواقع یکساں دیتی ہے۔ جو لوگ غیر معمولی زندگی جیتے ہیں انہوں نے یہی کیا کہ اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکلے، اپنے اختیار کو محسوس کیا اور اپنے شعور کو زیادہ سے زیادہ استعمال کیا۔ دنیا کے بڑے بڑے سائنسدانوں، سیاست دانوں، جنگجوؤں، دانشوروں، بزنس مین، کھلاڑیوں اور زندگی کے باقی شعبوں کے غیر معمولی لوگوں کی زندگیاں ہمارے سامنے ہیں۔ اگر وہ اپنے کمفرٹ زون سے باہر نہ نکلتے تو آج ان کا نام کون جانتا۔ اگر زندگی کے تمام شعبوں میں کامیاب لوگوں کا ایک گراف بنایا جائے تو جو جتنا اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکلا اسے اتنے ہی اوپر جگہ ملے گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply