• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ہزار بار بشوئم دہن ز مشک و گلاب۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

ہزار بار بشوئم دہن ز مشک و گلاب۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

ناموسِ رسالتؐ اور ختم ِ نبوتؐ ایسے اہم اور حساس موضوعات ‘ معاملاتِ ایمان میں سے ہیں۔ اِن پر کوئی کلمہ گو سمجھوتہ کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ہمارے ایمان کی عمارت ہی رسولِ کریمﷺ سے غیر مشروط وابستگی اور محبت پر قائم ہے۔ آقائے دوجہاںؐ‘ باعث ِ کون و مکاں کا فرمانِ عالیشاں ہے‘ تم میں سے کسی شخص کا ایمان اُس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا‘ جب تک میں اُس کے نزدیک اُس کی جان ، مال اور اولاد‘ حتیٰ کہ ہر چیزسے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ اَز رُوئے قرآن‘ سورۂ آلِ عمران‘ اللہ رب العالمین نے اپنی محبت ‘اپنے محبوبؐ کی اطاعت سے مشروط کردی ہے— قل ان کنتم تحبون اللہ ۔ چنانچہ یہ بات طے ہے کہ ایک مسلمان کے ایمان کی بنیاد حُب ِ رسولؐ او ر اطاعتِ رسولؐ پر قائم ہے۔ایمانٗ معرفت ِ خداوندی کی ایک نوری کرن ہے‘ جودِل سے کلمہ پڑھنے والے کے قلب میں نافذ کر دی جاتی ہے، اور یہ عطائے خداوندی ہے۔

دِل کے حال دِل میں رہنے والا بہتر جانتا ہے۔ مومن کا دل عرش اللہ ہے۔علیم بالذاتِ الصدور بس وہی ایک ذات ہے‘ جو وحدہٗ لاشریک ہے۔ کسی مومن کے لیے رَوا نہیں کہ وہ دوسرے کے دِل کی ٹوہ لے ، اُس کی نیت پر شک کرے ، اور اپنے شک پر یقین کرتے ہوئے اُس کے بارے میں منافق ، مشرک ، کافر یا پھر گستاخ ہونے کا فتویٰ صادر کرے۔ سیرت ِ طیبہ میں ایک واقعہ ملتا ہے ‘ ایک جنگ میں حضرت خالد بن ولیدؓ اپنے مقابل کی طرف بڑھے تووہ تلوار پھینک کر ایک درخت کی آڑ لے کرکھڑا ہو گیا اور کلمہ پڑھنے لگا۔ اُسے قتل کر دیا گیا۔ اِس واقعے کی خبر بارگاہِ رسالت مآب ؐ میں پہنچی، آپؐ نے پرسش کی تو سپہ سالار نے جواب دیا کہ وہ کافر دراصل اپنی جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھ رہا تھا۔ اِس پر رسولِ رحمتؐ نے جلال کے عالَم میں فرمایا‘کیا تُو نے اُس کا دِل چیر کر دیکھ لیا تھا؟کیا تُو نے اُس کا دِل چیر کر دیکھ لیا تھا؟کیا تُو نے اُس کا دِل چیر کر دیکھ لیا تھا؟ عربی میں تین بار ایک ہی بات دہرانے کامطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ بات بے حد شدت اور انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اَزاں بعد‘ آپؐ نے آسمان کی طرف چہرۂ مبارک کرتے ہوئے فرمایا ‘ یارب! گواہ رہنا‘ خالدؓ نے جو کیا ‘میں اِس سے بری الذمہ ہوں۔ سیرت کے ہرواقعے سے فکر و عمل کی راہیں متعین ہوتی ہے۔ اِس سے سبق یہ ملتا ہے کہ مقابل میں آنے والا کافر بھی اگر کلمہ پڑھ لے تو ہمیں اُس کے ایمان پر شک کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ آج حال یہ ہے کہ مسلمان‘ مسلمان ہی کے کلمے پر شک کر رہا ہے اور اُسے مزید’ مسلمان‘ بنانے کے لیے‘ یعنی اپنے جیسا بنانے کے لیے گروہ دَر گروہ تقسیم ہو چکا ہے۔

دین ِ اسلام اَزخود ایک جماعت ہے، یہ جمعیت المسلمین ہے، اِس جماعت میں شامل سب لوگ خدائے وحدہ‘ لاشریک پر ایمان لاتے ہیں،خدا کے فرستادہ انبیا و رُسل پر ایمان لاتے ہیں ، رحمت ِ عالم محمدعربی ﷺ کو خاتم النّبیین تسلیم کرتے ہیں، آپؐ ہی کی تعلیمات کو اپنے لیے راہِ نجات مانتے ہیں اور آپﷺ کی حرمت و ناموس پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے حاصل ِ ایمان تصور کرتے ہیں۔ دین ِ اسلام‘ دین ِ فطرت ہے، فطرت میں اختلاف عین فطری عمل ہے۔ ایک ہی مقصد کے حصول کے لیے دو مسلمان بھائیوں کی رائے ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتی ہے۔ اگر نیتوں میں اِخلاص ہو، اگر ذاتی مفاد اور مزاج راہ میں حائل نہ ہوتو یہ اختلاف باعث ِ رحمت ہو سکتا ہے۔ اختلاف ِ رائے سے ایک سے زیادہ اِمکانات سامنے آتے ہیں ، کام کرنے کے لیے ایک سے زیادہ آپشن مل جاتے ہیں ۔ جب ہم دوسروں کی رائے کا احترام کھو دیتے ہیں تو یہی اختلافِ رائے رحمت کی بجائے زحمت بن جاتا ہے۔اختلاف برائے اتفاق ہونا چاہیے۔ اختلاف اُس وقت افتراق اور پھر اختراق میں بدل جاتا ہے‘ جب ایک فرد یا گروہ اپنی رائے دوسروں پر مسلط کردے، خود کو ہر حال میں حق پر فائق و فائز اور دوسرے کا باطل تصور کرے— خود کو اللہ ،رسولﷺاور اُمت کے درمیان خود کو حائل کر دے ، جو اُس کی رائے سے اختلاف کرے‘ اُسے بزورِ طاقت گھائل کردے۔ دوسروں کو زخمی کرنے کی طاقت ‘صرف تیر و تفنگ میں نہیں ہوتی بلکہ یہ الفاظ اور لب و لہجے کی کاٹ میں بھی ہو سکتی ہے۔ مجھے یہ مان لینا چاہیے کہ جس طرح میں اپنے نبی ؐ کا ایک اُمتی ہو ں، مجھے اپنےنبیؐ سے محبت ہے ‘ مجھ سے اختلاف ِ رائے رکھنے والا بھی ویسا ہی اُمتی ہے—عین ممکن ہے‘ وہ مجھ سے زیادہ مقبول ِ بارگاہ ہو!! اُس بارگاہِ حسنِ دو عالمؐ میں اگر محبت کے دعوے کی دلیل حسن ِ عمل کی صورت میں طلب کر لی گئی‘ تو میرے دعوے او رنعرے میرے ہی خلاف گواہ بن کر کھڑے ہوجائیں گے!

آمدم برسرِ مطلب ! اِس فقیر کا عاجزانہ سوال ہے‘اربابِ حل و عقد اور صاحبانِ علم و فضل کی خدمت میں۔ کیا دین میں دینی جماعتوں کی گنجائش موجود ہے؟ کیا ایک فردِ واحد یا کسی ایک جماعت کوپوری اُمت کے لیے حجت قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیا کسی فرد یا مکتب ِ فکرسے اِختلاف کو دین سے انحراف تصور کیا جا سکتا ہے؟ کیا دینی جماعتیں سیاسی جماعتوں کا کردار کر سکتی ہیں؟ کیا کوئی سیاسی جماعت اپنے جھنڈے پر کلمہ لکھ سکتی ہے؟اِسلام زندہ باد کا نعرہ درج کر سکتی ہے؟ اِسلام ، کلمہ ، رب اور رسولﷺ سب کا سانجھا ہے، کوئی ایک جماعت اِسے اپنے نام سے کیسے پیٹنٹ کروا سکتی ہے؟ سیاست کے جواب میں سیاست اور کھیل کے جواب میں کھیل ہونا چاہیے۔ اگر دو ٹیمیں بیڈ منٹن کھیل رہی ہوں اور ایک ٹیم اپنے کلب کا نام’ اِسلامی بیڈمنٹن‘ رکھ لے، اب مقابل ٹیم اپنے مقابل کے’’ اسلامی شٹل کاک‘‘ کو آخر کس طرح شاٹ لگائے؟ اس کے ہاتھ لرز نہیں جائیں گے مبادا اُس پر توہین ِ اسلام کا مقدمہ درج ہو جائے۔ مرشدی واصف علی واصفؒ نے ایک واقعہ سنایا، واقعہ یوں ہے کہ درویشوں کی ایک محفل میں دولوگ کسی علمی معاملے پر بحث کر رہے تھے، ایک کے پاس دلائل ختم ہو گئے،وہ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا ‘ دیکھو! اَب میں اِسے کیسے خاموش کرواتا ہوں۔یہ کہہ کر اُس نے کان پر دونوں ہاتھ رکھے اور قرآن کی تلاوت شروع کر دی۔ ظاہر ہے‘ قرآن کی تلاوت کے سامنے سب کو خاموش ہونا پڑا۔ یہ فاؤل پلے ہے۔

ایک شخص اسٹیڈیم میں قرآن لے جاتا ہے اور میچ کے دوران میں باآوازِ بلند تلاوت کرنے لگتا۔ یہ قرآن کی خدمت نہیں ‘ بلکہ قرآن کی توہین ہے۔ ایک شخص اسے تلاوت سے منع کرتا ہے تو وہ اُسے ناموسِ قرآن کا مخالف کہتا ہے۔ عین ممکن ہےٗ منع کرنے والے کےنزدیک منع کرنے کا عمل ہی عین ناموسِ قرآن کی حفاظت ہو۔ عین ممکن ہے ٗ یہ سمجھتا ہے کہ اِس طرح قرآن کی تلاوت کے آداب کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا جا سکتا۔ آخر اِس نے تلاوت کے لیے ایسی جگہ کیوں منتخب کی ٗجہاں ہنگامہ ہے ، شور و غوغا ہے۔ تلاوتِ قرآن کا مقصد شعور بیدار کرنا ہے۔ اور شعور‘ شور ختم ہونے کے بعد بیدار ہوتا ہے۔ اپنے اندر کا شور! ہمارے اندر کا شور ہی باہر شورش پیدا کرتا ہے۔ یہ طے ہے کہ متقی ہوئے بغیر قرآن سے بھی ہدایت نہیں ملتی۔ تزکیہ نفس کے مراحل سے نہیں گزرے تو ہم کہیں بھی عدل نہیں کرسکتے۔ عین ممکن ہے ٗ ہم انصاف کے نام پر ظلم کریں اور ناموس کے نام توہین کے مرتکب ہو جائیں۔ دین ِ صداقت صادق صفت لوگوں کو فایدہ دیتا ہے۔

جذبات کے گھوڑے پر سوار ہونے والے شہسوار نہیں کہلاتے۔ دینی حقائق بیش قیمت جوہر کی طرح ہیں۔ یہ تحمل مزاجی سے سمجھے جاتے ہیں اور حکمت سے بیان کیے جاتے ہیں۔جواہرات سیاست کی مچھلی منڈی میں نہیں بیچے جاتے ۔ ریاست کو اسلام کے مقابلے میں کھڑا کرنے والے ٗریاست کے دوست نہیں ، اور اسلام کو مسلمانوں کی ریاست کے مقابلے میں کھڑا کرنے والےاسلام کے دوست نہیں ۔ اسلام کو غیر مسلموں سے زیادہ شاید مسلمانوں سے خطرہ ہے۔ دین ِ فطرت کو غیر فطری سوچ رکھننے والوں سے زبردست خطرہ ہے۔ حضرت واصف علی واصفؒ کہا کرتے ٗ یااللہ ! اسلام کو مسلمانوں سے بچا۔ اِس دَورِ پُرفتن میں آپؒ کا ایک قول یاد آرہا ہے’’ مسلمان‘ مسلمان کے خلاف جہاد نہیں‘ فساد کرتا ہے‘‘

رسولِ کریم ﷺ کی واضح حدیث ہے کہ میری اُمت کی اکثریت کبھی گمراہی پر متفق نہیں ہو گی۔ جمہور علماء اور جمہوری رائے عامہ کا احترام لازم ہے۔ ایک مسلمان ریاست میں پارلیمنٹ ( مجلسِ شوریٰ ) جمہور کی نمائند گی کرتی ہے۔ پارلیمنٹ میں جانے والوں کا تزکیہ کر دیںٗ یہی پارلیمنٹ اسلامی مجلسِ شوریٰ بن جائے گی، اور علامہ اقبالؒ کی تمنا کے عین مطابق اجماع کے فرائض انجام دینے لگے گی۔

کہتے ہیں ‘ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے، بچے کتنے ہی شریر ہوجائیں ‘ماں اپنے بچوں پر گولی نہیں چلاتی۔ حکومتیں طاقت سے نہیں ٗ دانش مندی سے چلتی ہیں۔ دانشمند ی کاتقاضا ہے کہ شرارت اور بغاوت میں فرق کیا جائے۔ شورش بپا ہونے والی وجوہات کا سراغ لگایا جائے اور اِن وجوہات کو دُور کیا جائے، اِفہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیا جائے۔تشدد کے جواب میں تشدد کا طریقہ درست نہیں۔ کسی کا غلط کام ہمارے غلط اقدام کی توجیہہ نہیں بن سکتا۔ مرشدی حضرت واصف علی واصف کا قول ہے’’طاقت کا استعمال خوف پیدا کرتا ہے ، خوف نفرت پیدا کرتا ہے ، نفرت بغاوت پیدا کرتی ہے اور بغاوت طاقت کو کچل دیتی ہے‘‘

Advertisements
julia rana solicitors london

1980ء کی دہائی میں شائع ہونے والی کتاب ’’دل دریا سمندر‘‘ کا انتساب آپؒ نے بڑے منفرد انداز میں یوں لکھا تھا، اور اس میں اہلِ بصیرت کے لیے ایک سبق پوشیدہ تھا، انتسابی جملہ یوں تھا۔’’ مقدس ایام کو متنازعہ بنانے والوں کے نام، بڑے افسوس کے ساتھ!‘‘ دَورِ حاضر میں لوگ مقدس اَیام کے ساتھ ساتھ مقدس نام اور کام بھی متنازعہ بنا رہے ہیں۔ ایک یہی تو نام رہ گیا تھا، افسوس !صدافسوس !! لوگ اپنی سیاسی اور مسلکی وابستگیوں میں اُلجھ کراِس مقدس نام کو متنازعہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ مجھے ڈر ہے‘ ہم سے یہ مقدس نام کہیں چھین نہ لیا جائے! کہیں ایسا نہ ہو کہ ملائیت و ملوکیت سے نجات کا راستہ بے دین سیکولر معاشرے میں ڈھونڈ لیا جائے۔ یااللہ! ہمیں معاف کر دے ! تجھے رمضان کے اِن مقدس ایام ہی کا واسطہ !ہماری توبہ قبول کر لے ، ہم تیرے مجرم ہیں ، ہم تیرے محبوبؐ کے نام سے وفا نہیں کر سکے۔ کیا حزب اقتدار اور کیا حزب ِ اختلاف ، کیا دینی اور کیا سیاسی جماعتیں ‘ اِس مقدمے میں سب برابر کے مجرم ہیں، اور مہر بلب مصلحت کوش دانشور سب سے بڑے مجرم ! اس وقت مصلحت اندیشی جرم ہو گا میرے مرشد کہتے ہیں۔ ’’درویش مصلحت اندیش نہیں ہوتا!‘‘

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply