وہ مری گئے ہی کیوں تھے ؟۔۔محمود اصغر چودھری

وہ مری گئے ہی کیوں تھے ؟۔۔محمود اصغر چودھری/سال 2009ءمیں اٹلی میں ایک زلزلہ آیا۔ جس کے بعد ایک اطالوی جج جس کانام مارکو بلی تھی اس نے ایک انوکھا فیصلہ سناکر دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا۔ مارکو بلی نے چھ سرکاری ماہرین پرقتل عام کی فرد جرم عائد کرتے ہوئے انہیں چھ چھ سال قید کی سزا سنائی ۔ان کی سرکاری نوکری ختم کرنے اور مقدمے کے سارے اخراجات بطور جرمانہ ادا کرنے کا آرڈر سنایا۔اس فیصلے میں صرف ان سائنسدانوں کو ہی نہیں بلکہ اس سرکاری ادارے کے سربراہ کو بھی سزا سنا گئی جس کی ذمہ داری تھی کہ وہ شہریوں کوکسی بھی قسم کی آنے والی قدرتی آفات کی پیش گوئی کرتے تھے۔محکمے کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے پچیس مارچ 2009ءکو ایک بیان دیا تھا کہ کوئی بڑا زلزلہ متوقع نہیں لیکن 6اپریل کو ایک بڑے سکیل کا زلزلہ آیا اور309لوگ موت کی وادی میں چلے گئے ۔مرنے والوں کے رشتہ داروں نے حکومت پر کیس کر دیا کہ ان کی غیر ذمہ دار پیش گوئی کی وجہ سے ان کے عزیز اپنی جان سے گئے عدالت نے نہ صرف یہ کیس سنا بلکہ اس پر اتنا زبردست فیصلہ سنا کر فیصلوں کی دنیا میں تاریخ بد ل دی۔اور ہر اس جاہل کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ رسید کر دیا جوہر قدرتی آفت کے بعد سانحے کو تقدیر کا لکھا کہہ کر حکومتی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہوجاتا ہے ۔

ہیلتھ اینڈ سیفٹی کا یہ گولڈن اصول اب دنیا میں ایک حقیقت کی طرح تسلیم کر لیا گیا ہے کہ دنیا میں ہونے والا ہر حادثہ ایک قتل ہوتا ہے اور اس قتل کا کوئی نہ کوئی ذمہ دار ضرور ہوتا ہے ۔ لیکن یہ اصول ان ممالک میں ہوتے ہیں جوقانون کی بالادستی اور گورننس پر یقین رکھتے ہیں لیکن جن ممالک میں ریاستی عہدیدار بھی ہر وقت مائیک پکڑ کر مذہب پر لیکچر جھاڑ رہے ہوں وہاں زلزلہ سیلاب طوفا ن کوایکٹ آف گاڈ قرار دیکر گلوخلاصی کی جاتی ہے ۔اور کوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہوتا ۔ تقدیر کا لکھا اور آسمانی آفت جیسے موضوعات کاہلوں اور سست الوجود لوگوں اور عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھنے والے حکمرانوں کے لئے بہت سود مند ثابت ہوتے ہیں وہ اپنے عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ تمہاری غربت ،جہالت، بیماری یا موت دراصل تمہارے گناہوں کی وجہ سے ہے۔

تاریخ سے ذرا سی بھی واقفیت رکھنے والا طالبعلم جانتا ہے کہ وقت کے ساتھ انسان نے علم او رگورننس میں ترقی کی ہے ۔ بیماریوں کو شکست دی ہے اور قدرتی آفت کی درست پیش گوئی کر کے انسانی جان و مال کے نقصانات کو کم کرنے  کی کوشش کی ہے ،انسانی اوسط عمرمیں اضافہ کیا ہے ۔ زچگی کے دوران مر جانے والی عورتوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوگئی ہے ۔بیکڑیااور وائرس کو شکست دی ہے چیچک ، ہیضہ ، تپ دق ، پولیو ، ہسٹریا اور دیگر تمام بیماریاں جن کے بارے انسان یہ خیال کر لیتا تھا یہ خدا کا عذاب ہیں انہیں دیس نکالا دے دیا ہے۔

انسان نے زندگی کے ہر شعبے میں ہیلتھ اینڈ سیفٹی کے اصول متعارف کرائے ہیں۔ ٹریفک قوانین بنائے ہیں ۔ وہ جان گیا ہے کہ اگر سڑک حادثوں میں مرنے والے لوگ اس وجہ سے مرتے ہیں کہ خدا نے ان کی عمر ہی اتنی لکھی تھی تو پھریہ تعداد ان ممالک کے برابر زیادہ کیوں ہے جہاں ٹریفک کئی گنا زیادہ ہے ۔ اگر برفانی طوفان میں پھنس کر لوگ مر جاتے ہیں تو کینیڈا ،ناروے ، سویڈن اور یورپ میں تو ہر سال سانحے ہونے چاہئیں ۔

مری حادثے کے بعد حکمرانوں ، ان کے پالتو جغادریوں اور دانشوروں کے تبصرے تجزئیے مرنے والوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے برابر ہیں ۔ یہ وکٹم بلیمنگ کا وہی اصول ہے جو حاکم وقت نے بہت پہلے ہی طے کر دیا تھا کہ ریپ ہونے والی خاتون خود ذمہ دار ہے کہ اس نے کپڑے اتنے چھوٹے کیوں پہنے تھے ۔ موٹر وے پر رات کو گاڑی لیکر نکلنے والی خاتون خود ذمہ دار ہے کہ اس نے پٹرول اور گھڑی پر وقت کیوں نہیں دیکھا ۔ ٹرین حادثے کا شکار ہونے والے مسافر خود ذمہ دار ہیں کہ انہو ں نے ٹرین میں چائے کیوں بنائی ۔ اس پر بھی وہی حکمران جو کچھ دن پہلے مری جانے والی گاڑیوں کو عوام کی خوشحالی سے تعبیر کررہے تھے اسی عوام کو کوس رہے ہیں کہ و ہ مری گئے ہی کیوں تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

عوام کو تفریح کے موقع فراہم کرنا اور اس کےلئے سہولیات مہیا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے اور اس سے نبرد آزما ہونا ہی گورننس ہے اگر ایک میوزک کنسرٹ ہال یا لوگوں کا اکٹھ ہونے والا وہ کمرہ پاس نہیں ہوتا جس میں اندر سے ہاتھ کی ہلکی سے ضرب سے کھلنے والا گیٹ نہ ہو ، اگر ایک پل پر ایک مخصوص تعداد سے زیادہ گاڑیاں نہیں چڑھائی جا سکتیں اگر کورونا کے دنوں میں ہر دوکان والا ایک مخصوص نمبرسے زیادہ لوگ اندر نہیں جانے دے سکتا تو لاکھوں کی تعداد میں مری جانے والوں کو کسی نے کیوں نہیں روکا اور اگر روکنے کے باوجود وہ عوا م نہیں رک پائے تو گورننس کرنے والے کو اپنا عہدہ چھوڑ دینا چاہئے ۔ اے کاش پاکستان کو بھی مارکو بلی جیسا کوئی جج میسر آجائے جو مری میں مرنے والے افراد کے قتل کا مقدمہ حکمرانوں پر چلا کر انہیں سزا سنا دے ۔ مگرکیا کریں جو جج سانحہ پشاور کے بچوں کے والدین کو انصاف نہیں دلا سکے وہ مری والے واقعہ پر کون سا تیر مار لیں گے۔

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply