• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اپنے ہاتھوں اپنا مستقبل تباہ کرنیوالا ملک۔۔اسد مفتی

اپنے ہاتھوں اپنا مستقبل تباہ کرنیوالا ملک۔۔اسد مفتی

یہ بات جاننے کے لیے کسی ڈگری کی ضرورت نہیں کہ ہم اس وقت تک ترقی یافتہ ممالک کی گرد کو بھی نہیں پاسکتے جب تک کہ ہم عصری علوم سے آشنا نہیں ہوتے۔اور ہمارے اندر کوئی نظریاتی انقلاب نہیں آتا۔ہمارے روبہ زوال ہونے کی وجہ جدید نظام کی فکر کا فقدان اور غیر ترقی یافتہ سوچ کا حامل ہونا ہے،
مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اگر ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان حالات میں ہم بیدار ہوجائیں گے،عصری علوم حاصل کرلیں گے،سائنس میں نام پیدا کریں گے،تو ایسا نہیں ہے،ہم تو طاقت”ہر قیمت پر ضرور حاصل کرو”اور جس وقت جس نعرے میں فائدہ ہو،اس کے ہمنوا بن جاؤ،اور حقیقتاً جو لوگ نیکی،سچائی،حسن کے قائل ہوں،اُن کا منہ کالا کرتے چلے جاؤ،اور یہ کہتے ہوئے آگے بڑھتے جاؤ کہ کوئی جنوں کوئی سودا نہ سر میں رکھا جائے۔۔
اقبال نے ٹھیک ہی تو کہا تھا،کہ”کرگس کا جہاں اور ہے،شاہیں کا جہاں اور”۔۔
اب اس کا کیا کِیا جائے کہ ہر کرگس اپنے آپ کو شاہین ثابت کرنے میں مصروف ہے۔اسی لیے تو کہتے ہیں کہ جذبے کا مظاہرہ اور شوق کا ثبوت سب سے مشکل کام ہے۔
یہ جو اہلِ عقل و نظر فرماتے ہیں،کہ تعلیم کا بنیادی مقصد ہوتا معاشرے کے مسائل کا حل تلاش کرنا،اور یہ کام خصوصیت سے سماجی علوم کے ذریعے ہوپاتا ہے کہ جو سیاسی سماجی اور ثقافتی مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں،اور پھر ذہنی طور پر معاشرے کو باشعور بناتے ہیں،تاکہ ان مسائل کو سمجھا جاسکے،اور ان پر قابو پایا جاسکے۔پاکستان میں اس وقت ” علوم”انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ہیں،یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ جن سماجی مسائل سے دوچار ہے،ان کی نشاندہی تک نہیں ہوپارہی اور کسی مسئلے کا حل اسی وقت ممکن ہے کہ جب اس کو پوری طرح سے سمجھا جائے،
تو آئیے،بڑے لوگوں کی بڑی بڑی باتوں سے ہم ان مسائل کی نشاندہی کی کوشش کریں،اور اپنے ہم وطنوں کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر نگاہ ڈالیں۔
کسی نے پوچھا”بارش کا فائدہ کیا ہے؟”۔۔جواب دیا،میرا کھیت سیراب ہوتا ہے۔اس نے پھر پوچھا،”بارش کا کیا نقصان ہے”؟۔۔جواب دیا،میرے بھائی کا کھیت سیراب ہوتا ہے۔
جوتے پٹخنے والی دو کمپنیوں نے اپنے اپنے سیلز مین ایک گاؤں میں بھیجے کہ بھئی دیکھ کر آؤ کہ وہاں جوتے بیچنے کے کیا مواقع ہیں۔کتنی کھپت ہے؟۔جب دونوں سیلز مین وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ گاؤں والے جوتے استعمال ہی نہیں کرتے،سب ننگے پیر ہی رہتے ہیں۔
ایک سیلز مین نے اپنی کمپنی کو تار دیا کہ یہاں تو جوتے پہننے کا رواج ہی نہیں ہے۔لہذا جوتے بیچنے کے مواقع نہیں ہیں۔
دوسرے سیلز مین نے ایکسپریس تار بھیجا۔۔جوتے بیچنے کے زبردست مواقع ہیں،کیونکہ یہاں کسی کے پاس جوتے نہیں ہیں۔
جرمن سائنس دان البرٹ آئن سٹائن لکھتا ہے،یہ بات کسی معجزے سے کم نہیں،کہ جدید نظام تعلیم نے ابھی تک جوان ذہنوں کے مقدس تجسس اور تحقیق کے جذبے کا پوری طرح گلا نہیں گھونٹا۔
یہ سوچنا بہت ہی غضب ناک ہے کہ نظارے کے لطف اور تلاش کے شوق کو سخت قوانین اور بھدی جرمانوں اور سزاؤں کے ذریعے ترقی دی جاسکتی ہے۔
تعلیم تو حیرت اور تجسس کے خلا میں ایک مسلسل اور پُر لطف شوقیہ پرواز کا نام ہے۔
مشکل یہ ہے کہ سیانے کافی سیانے نہیں اور احمق کافی احمق نہیں،ورنہ علم کے پھیلنے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی۔
علم حاصل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اپنی جہالت کو قابو میں رکھو۔۔
مصلحت علم کی سب سے بڑی دشمن ہے،اکثرعلم کی راہ میں آن کھڑی ہوتی ہے۔
اس سے زیادہ احمق کون ہوگا،جو اپنے علم کو اپنی ضرورت کے لیے کافی سمجھتا ہے۔
ہر کسی کو علم کی راہ پر چلنے دو،صرف یہ خیال رکھو کہ وہ آگے بڑھ رہا ہے،اوپر جارہا ہے،پیچھے یا نیچے کی طرف نہیں آرہا۔۔
جن لوگوں کے پاس ایمان کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے،ان کے ایمان کو چھیڑنا بہت خطرنا ک ہوتا ہے۔
المیہ لاعلمی نہیں،لاعلمی سے سمجھوتہ ہے۔۔
علم کی منڈیریں جہالت کی چار دیواری سے بہر حال بلند ہیں۔
مذہبی رواداری کی تعلیم کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص جس دروازے سے بھی جنت میں جانا چاہے،اُسے جانے دیں۔
جو شخص جاہل ہے،اور وہ سمجھتا ہے کہ وہ عالم ہے،اُس کا سیاسی مستقبل بہت درخشاں ہے۔
ہر انسان ایک کتاب ہے،بشرط یہ کہ آپ کو اس کی زبان آتی ہو۔
علم حاصل کرنا ہے تو نظریات کی بجائے واقعات کا جائزہ لیں۔
انسان واحد جانور ہے جو روتا اور ہنستا ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتا ہے کہ کیا ہورہا ہے،اور کیا ہونا چاہیے۔
اب آخر پہ ایک احمقانہ سوال کا عارفانہ جواب سنیے
ایک احمق نے ایک عارف سے پوچھا
اگر تم جنگل میں جارہے ہو،اور تمہارے پاس کوئی اسلحہ وغیرہ بھی نہ ہو۔۔او ر اچانک سامنے سے شیر آجائے،تو تم کیا کرو گے؟
عارف نے جواب دیا
میں نے کیا کرنا ہے۔۔جو کرنا ہے،شیر نے کرنا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سو دوستو!ملک عزیز کے تعلیمی،ثقافتی،ادبی،سیاسی اور سماجی حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں،کہ اب جو کچھ کرنا ہے،وہ شیر نے کرنا ہے
جو ہم ادھرر سے گزرتے ہیں،کون دیکھتا ہے
جو ہم ادھر سے نہ گزریں گے،کون دیکھے گا؟

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply