اٹلی ہے دیکھنے کی چیز(آخری قسط16)۔۔سلمیٰ اعوان

 الوداع میلان۔ الوداع اٹلی

o جھیل کو مو ورینا کی سب سے خوبصورت اور بہترین جھیل ہے۔
o تتلی سی مُسکان میرے قیام کا خوبصورت سا تحفہ تھا۔
o مسز سمتھ میری شکر گزار اور میں اُن کی۔ جتنا کچھ ا سفار نے دیا اس سے زیادہ انہوں نے دیا۔
o عطاء کا لخت جگر یا سر پیرزادہ بزنس کلاس کے سڑے بُسے خراٹے مارتے لوگوں میں سوتا کسی خوبصورت شہزادے جیسا ہی نظر آیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تو اُس گھر کی اکلوتی منی سی بچی مسکان سب سے زیادہ پریشان تھی۔خاموشیوں میں ڈوبے رہنے والے گھر میں بہرحال تھوڑا بہت ہنگامہ تو میرے آنے سے پیدا ہوا تھا جس نے اس ننھّی سی جان کو مسرور کئے رکھا تھا۔
ٍ صبح میرے کہیں بھی نکلنے سے پہلے وہ کِسی تتلی کی طرح میرے اردگرد منڈلاتی پھرتی۔سوالوں کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلتا رہتا۔
”امّاں کہاں جارہی ہو؟امّاں جی کب آؤ گی؟اماں جی مجھے بھی ساتھ لے چلیں نا۔“
اماں جی اس کا منہ ماتھا چُومتی اور کہتی۔
”میری جان تو اپنے ماں باپ کی آنکھوں کا تارہ۔منتوں مرادوں کی پیداوار۔اماں تو بھٹکتی پھرتی ہے۔ تجھے ساتھ کیسے رولے گی۔“
اماں اب واپسی کی تیاریوں میں تھی اور بچی نہیں چاہتی تھی کہ میں جاؤں۔
”اماں مت جاؤ۔میں اُداس ہوجاؤں گی۔“
وہ میرے گلے میں اپنی ککڑی جیسی لوچ دار پتلی پتلی بانہیں ڈالتی۔
اس کی اِس والہانہ محبت پر میرا دل بھیگ سا جاتا۔جی چاہتا کاش وہ بڑی ہوتی۔ پنچھی اور پردیسی کب کِسی کے میت ہوتے ہیں جیسے مہاورے کے مفہوم سے آشنا ہوتی۔پھر شاید اس کا لہجہ اتنا رقیق اور گداز نہ ہوتا۔
پیسا سے آنے اور ایک دن آرام کے بعد اگلے دن پوری فیملی میرے ساتھ کومو جھیل کی سیر کے لئیے گئی تھی۔کہہ لیجئیے یہ ایک طرح مسکان کے لئیے میری ٹریٹ تھی۔اقبال کا ایک ملنے والا یوسف مالٹرسیوMoltrasioمیں عرصہ دراز سے یہاں کے ایک بڑے ہوٹل میں شیف کے طور پر کام کرتا تھا۔
ٹرین کا سفر بے حد خوشگوار اور مزے کا تھا۔تھا بھی مختصر۔جہاں اُترے وہ ورینا Varennaکی جھیل کومو تھی۔Bellagioدوسری اور پرانی تہذیب و ثقافت کی نمائندہ اور تیسری Menaggio۔چھوٹے موٹے بہتیرے سلسلے اور بھی اندر پھیلے ہوئے ہیں۔ورینا کی جھیل کومو Comoجھیلوں کے اِس شہر کا سب سے خوبصورت اور بہترین تحفہ ہے۔فطرت کے یہ شاہکار کوہ الپس سے جڑے ہوئے ہیں۔
سوئیزرلینڈ کی سرحدوں کے نوکیلے کٹاؤ اِن جھیلوں کے اندر تک گُھس آئے ہیں۔دست قدرت کی خصوصی عنایت و نوازش اور اطالویوں کے ہنر مند ماہرانہ ہاتھوں نے جھیل پر دونوں جانب پاسبانوں کی طرح کھڑے پہاڑوں کے دامنوں سے لے کر چوٹیوں تک وہ رنگ بکھیرے ہوئے تھے کہ بندہ تو سانس لینا بھول جاتا ہے۔
اب میری عمر فیری میں بیٹھ کر بہت دور جہاں نیلا آکاش سبزی مائل سیاہ پانیوں سے ملتا ہے جیسے منظر کو دیکھتے ہوئے یہ تو گنگنا سکتا تھا کہ ملتا ہے جہاں پانیوں سے گگن۔آؤ وہیں ہم جائیں۔ مگر اگلے مصرعے کے لئیے کِسے آواز دوں کہ لٹر لگنے والے نے تو کبھی پکار پر دھیان ہی نہیں دیا تھا۔لے دے کے اوپر والا ہی تھا اور اُسے لے کر وہاں جانے کی بھلا کیا ضرورت تھی؟وہ تو یہاں بھی میرے ساتھ تھا۔
دھوپ بہت چمکیلی تھی۔میں اندر سے باہر عرشے پر آگئی۔لمبے سے ایک بینچ پر جہاں پہلے ہی ایک گورا اور تین گوریاں براجمان تھیں بیٹھنا چاہا۔
جیسے دفعتاً کسی کو بھڑ کاٹ لے۔اچھے بھلے بیٹھے بیٹھائے کسی کو محسوس ہوکہ جیسے شلوار میں گُھسی کسی چیز نے ران پر زور دار چٹکی کاٹ لی ہو۔اور وہ اضطراری کیفیت میں اچھل کر اپنی جگہ سے کھڑا ہوجائے۔عین اسی سے ملتا جُلتا سین میرے سامنے آیا تھا۔
بھونچکی سی ہوکر میں نے اُس نخریلی گوری سے کہا۔
”کیا ہوا ہے تمہیں؟کیا میں اچھوت ہوں؟“
میرے لہجے میں گُھلے غُصے،تلخی اور شدت نے لوگوں کو فوراً متوجہ کیا تھا۔
مراکش کا ایک نوعمر جوڑا جو سیلفی سے تصویریں بنانے میں مصروف تھا بھی چونک پڑا۔لوگوں کا خاموش سا ردّعمل سامنے آیا۔کچھ تو سُن وٹے سے بنے بیٹھے رہے۔ تاثر کچھ ایسا تھا بھئی بھاڑ میں جاؤ تم اور چولہے میں جائے وہ۔ ہمیں کیا؟صرف ایک دو کی آنکھوں میں خفیف سی مذمت کی لہریں تھیں۔ہاں اُس مسلمان جوڑے نے کھل کر لعن طعن کی۔گو یہ عربی میں تھی۔تاہم لہجے کو اندر کے جذبات نے جو پیغام دیا تھا اس نے پوری طرح نمائندگی کردی تھی۔
اِس فضول سی تلخی کو بُھلا کر میں نے گردوپیش کو دیکھا۔بخدا اتنے خوبصورت منظر تھے کہ یادوں میں استنبول کے “شہزادوں کے جزیرے”بھاگتے دوڑتے آگئے۔اُن کی وضع قطع بھی ایسی ہی ہے۔
مالڑوسیہ آگیا تھا۔فیری جیٹی سے جالگی تھی۔میرا جی اترنے کی بجائے آگے جانا چاہتا تھا۔وہاں تک جہاں پانی سوئیزر لینڈ کی سرزمین میں داخل ہوتے ہیں۔مگر وائے مجبوری میزبان کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔اکیلی ہوتی تو شاید کچھ ماردھاڑ کرہی لیتی۔
کیا جگہ تھی؟خوبصورتیوں میں سرتاپا ڈوبی،طلائی کرنوں میں ہنستی مسکراتی، تاحد نظر چوٹیوں پر گھروں کی صورت نظارے بکھیرتی اور انگوروں کی بیلوں سے ڈھنپے قدیم اور جدید گھروں سے سجی۔
کتنا لمبا سانس بھرا تھا میں نے؟میری آنکھوں میں تحّیر اور مسرتوں کے کیسے کیسے رنگوں کا چھلکاؤ ہوا ہوگا؟یہ سب میں شیشہ دیکھے بغیر ہی جانتی تھی۔
میرے سامنے زینے تھے۔لمحہ بہ لمحہ بلندیاں چڑھتے ہوئے زیتون کے پیٹر تھے جو مجھے بتاتے تھے کہ اٹلی زیتون کے تیل کا گھر ہے۔سیب کے درختوں پر بس بلوغت کو پہنچنے والے سیبوں کی اپنی کہانیاں تھیں۔
بہرحال تنگ تنگ راستوں سے گزرنے میں مزہ آیا۔اونچے اونچے پوڈے بل کھاتے راستے۔ دو کمروں کا چھوٹا سا گھر۔اٹلی کے مالکوں کی مہربانیوں کی داستان تھی جو سنی۔ملازمتوں کے اصول و قواعدجانے،انہیں سراہا اور دعا بھی کی کہ میرے ملک میں بھی ایسا سب ہو۔
شہد جیسا تربوز کھایا۔سیب کھائے۔سیب ذائقہ والے نہ تھے۔ہاں پیزا لاجواب تھا۔ میزبان نے خود بنایاتھا۔موسم پہلے ابرآلود ہوا پھر بارش برسنے لگی۔اسی رم جھم میں ہم نے واپسی کی۔
اگلے دو دن میں نے سوئیزلینڈ جانے اور نہ جانے کے چکر میں گزارے۔ موسم گرما ہوگیا تھا۔ پیٹ اپ سیٹ تھا۔ ذہن میں تذبذب تھا۔ جی چاہتا تھا اُڑ کر سوئیزرلینڈ اور پیرس پہنچ جاؤں۔ جرمنی میں بھی جا اُتروں، مگر بدنی نقاہت اور اکیلے ہونے کا خوف پھڈا ڈال رہے تھے۔ کشمکش بہت زیادہ تھی۔ زِچ آکر میں نے معاملہ اللہ کے سپر کرتے ہوئے یاسر کے دوست راؤ خورشید کے ہاں گلیلیاتےGalliate-Fn جانے کا طے کر لیا کہ وہ گزشتہ کئی دنوں سے مجھے اپنے ہاں بلانے اور ارونا جھیل کی سیر کے لئے دعوت کی پیشکش کر رہا تھا۔
شام تو خوبصورت تھی دو گاڑیاں بدلنی تھیں۔ باڈی لینگوئج کے تماشوں نے ساری مشکلیں آسان کر دیں۔ گلیلیاتے آیا۔ اتری تو شکر اد ا کیا کہ پار جو شہر بسا ہوا تھا اس تک جانے کا راستہ پٹڑیوں پر بچھے چھوٹے سے چوبی راستے سے تھا۔ سیڑھیاں اترنے، لفٹوں میں گھسنے اور الجھنے الجھانے والا کوئی سین منتظر نہیں تھا۔ راؤ خوشنود سامنے کھڑا اپنی سلونی سی رنگت پر مدھم سی مسکراہٹ بکھیرے ہوئے تھا کہ مصائب کی تلخیوں نے چہرے پر سختی کی تحریر رقم کر رکھی ہے۔
چھوٹی سی گاڑی اور خوبصورت سا قدیمی قصبہ جس کی بل کھاتی چھوٹی چھوٹی گلیاں بڑی تاریخی سی تھیں۔ گھر بھی ایک خوبصورت گلیارے میں تھا۔ خوبصورت بیوی حمیرا نام والی سگھڑ اور سلیقہ مند۔ گھر ٹھنڈا آرام دہ۔ سیڑھیوں کا کوئی چکر نہیں تھا۔ کھانا پر لطف۔ مزہ آیا۔ دونوں کی شادی کو پانچ سال ہوئے تھے مگر بچہ نہیں تھا۔ شاید اسی لئے حمیرا کے چہرے پر خوشی اور مسرت کے وہ رنگ نہیں تھے جن کی موجودگی جوان چہروں پر ضروری ہوتی ہے۔
جھیل ارونا کی سیر نے بھی بڑا لطف دیا۔ یہاں ٹرین بھی جاتی ہے۔ ٹرین کا راستہ گھنے جنگلوں میں سے گزرتا ہے۔
”ہائے“ دل نے کہا تھا۔ کہیں جانتی یا کوئی بتا ہی دیتا تو اس سے سفر کرتی۔ کتنا مزہ آتا؟
راستے کے پہاڑوں کے مناظر دلفریب تھے۔ کتنے چھوٹے چھوٹے قصبات آئے اُن میں اولیگوoleggo نے بہت متاثر کیا۔ میں گاڑی رکوا کر نیچے اُتر آئی۔
مکئی کے پھیلے ہوئے کھیتوں پر سے آتی ہواؤں میں ایک میٹھی سی خوشبو کا رچاؤ بڑا لطیف سا احساس دے رہا تھا۔ چھلیاں پردوں میں لپٹی میرے دل میں ہلچل مچاتی تھیں۔ جی چاہتا تھا ابھی بھاگتی ہوئی جاؤں اور دو چار کی گچھیاں مروڑ کر لے آؤں۔ قصبے کا قبرستان بھی بڑا رومانوی سا تھا۔ پھولوں سے لدا پھندا۔ ہر یالیوں میں بسا ہوا۔ چرچ کی گھنٹیاں بج رہی تھیں۔ خوشنود سے پتہ چلا تھا کہ قصبے میں کوئی مر گیا ہے۔
راستے میں پاکستانیوں بارے باتیں ہوئیں۔ چھوٹی عمروں کے لڑکے جو دھکے کھاتے یہاں آپہنچتے ہیں۔ کیسے کیسے پاپڑ بیلتے ہیں۔ ہاں ایک بات کو سراہنا پڑے گا کہ اٹلی کی حکومت اور پولیس اِن معاملات میں بڑا ہمدردانہ رویہ رکھتی ہے۔ پاکستانیوں کے البتہ بڑے متضاد رویے سامنے آتے ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ اچھے کارکنوں کے طور پر اچھی شہرت کے حامل ہیں۔
یہ بھی مجھے خوشنود سے ہی پتہ چلا تھا کہ پاکستانی ویلفیئر سوسائٹی بہت سی جگہوں پر بڑا فعال کردار ادا کر رہی ہے۔ سوسائٹی کا ممبر بننے کے لئے 200یورو اگر فیملی ساتھ ہو تو 400 یورو۔ اگر سوسائٹی کے پاس پیسہ ہو تو پھر سالانہ فیس نہیں لی جاتی۔ آغاز میں قرض سسٹم بھی تھا مگر بعد میں اسے ترک کرنا پڑا کہ بعض پاکستانیوں کی گندی عادات کہ واپس نہیں کرنا۔ ہمارے لوگ سمجھتے نہیں کہ ناگہانی آفات کی صورت میں یہ تنظیم کتنا فعال کردار ادا کرتی تھی۔ کسی موت کی صورت میت کو پاکستان بھجوانے، متاثرہ خاندان کی مدد کرنا سوسائٹی اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے۔
جھیل بہت خوبصورت لمبی چوڑی تاحد نظر پھیلی ہوئی۔ انسانی ہاتھوں کی کاریگریوں نے منظروں میں وہ رنگ بھر دئیے تھے کہ دکھ کی لمبی لمبی لہریں اندر سے اٹھنے لگی تھیں۔ جھیلوں کی ہمارے ہاں کمی نہیں، مگر سنوارنے والے ہاتھوں کی بجائے بگاڑنے والے ہاتھ زیادہ ہیں۔ کیا کریں افسوس، دکھ اور تاسف ہی ہے نا ہمارے پاس۔
وہ دن ا ن کے ہاں گزار کر واپس آگئی۔ اب میری واپسی سر پر تھی۔
سچی بات ہے مسز سمتھ میری شکر گزار اور میں اُن کی۔ جتنا کچھ اسفار نے دیا اُس سے زیادہ مسزسمتھ نے جھولی میں ڈال دیا۔
چیزاتے کے پر سکون سے قصبے کو میں نے محبت بھری نظروں سے دیکھا تھا۔ کافی بار کے سامنے پڑی ایک کرسی پر بیٹھ کر میں نے درختوں اور سہ منزلہ گھروں پر سے تیر کر آتی خوشگوار تیز ہواؤں کو اپنے بد ن سے ملتے دیکھ کر تھوڑی سی افسردگی کا اظہار کیا۔
”یہاں تمہارے ساتھ شام کے اتنے رنگ میں نے دیکھے ہیں کہ ہمیشہ میرا دل یہاں کچھ وقت گزارنے کو ضرور چاہا۔ اے ہواؤ، اے نظارو میں تمہیں دوبارہ کبھی دیکھ پاؤں گی۔میرے اندر نے خود ہی نفی میں کہہ دیا تھا۔ کہاں؟“
ائیر پورٹ کی کیفیت پنجابی کے اُس شعر کی ہی عکاس تھی۔
نی گڈئیے تو آنی تے جانی ایں
کیئاں نو ملانی تے کیئاں نو ں وچھوڑنی آں
اقبال کو میں نے رخصت کرنا چاہا پر وہ مُصر تھا کہ نہیں آپ کو توسوار کر کے ہی جاؤں گا۔ بورڈنگ شروع ہونے والی تھی اور ہمارے ملک جیسی صورت ہر گز نہیں تھی۔ رخصت کرنے کے لئے آنے والے بھی وہیں مسافروں کے پاس ہی بیٹھے گپیں ہانک رہے تھے۔
دفعتاًایک لمبے تڑنگے مر د نے میرے پاس آکر کہا۔
”آپ اکیلی ہیں۔ تھوڑی سی مدد درکار ہے۔ میرا تھوڑا سا فالتو سامان اپنے ساتھ ایڈجسٹ کر لیں۔“
میں تو تیار ہوگئی۔ چھوٹا سا میرااٹیچی کیس۔ گنجائش ہی گنجائش۔
اقبال نے ایڑی نہ لگنے دی۔ آپ تو بندھ جائیں گی اس کے ساتھ۔ اس کے اتنے لمبے چوڑے پٹارے۔
”ارے بیبا جانے دو۔ کیا ہے؟ مفت کی نیکی ہی سہی۔ اپنے بیوی بچوں کے لئے پتہ نہیں کیا کیا لئے جا رہا ہے؟“
چلو جی کہنے سننے پر ساتھ نتھی کر لیا۔ میں بھی خوش کہ چلو لگے گا خود ہی لائن میں۔ مزے سے ٹانگ پر ٹانگ دھرے بیٹھی رنگ رنگیلی دنیا کے مزے لوٹتی تھی۔ تبھی پکار پڑی۔ پتہ چلا کہ کاؤنٹروں پر بیٹھی اٹلی کی موٹی تازی چاق وچوبند عورتیں پاکستانیوں کی سب چوتیوں چلاکیوں کو سمجھتی ہیں۔
”چلو ہٹاؤ ان سب پر کھنڈوں کو۔ سیدھے سیدھے سامنے آؤ۔ اپنے اپنے ٹکٹ اور پاسپورٹوں کے ساتھ۔
’ ’ہائے بے چارہ۔ بڑا ترس آیا۔ بھرا ہوا کُپاکہیں انڈیلنا چاہتا تھا۔جی تو چاہا کہوں۔
”ارے کہاں پھینکو گے۔ اس اقبال کو دے دو۔ وطنی ہے تمہارا۔“
میں نے چاہا بھی کہ اُسے یہی سب کہہ دوں جو میرے اندر سے ہونٹوں تک آیا تھا۔مگر اقبال نے کہا۔
”رہنے دیں اُسے بندوبست کرنا آتا ہے۔“
پاکستانی ایک دوسرے کی رگوں سے تو واقف تھے۔ وہ واقعی پل جھپکتے ہی جانے کہاں غائب ہوگیا؟
مزید کچھ چھوٹے بڑے مرحلوں کے بعد اقبال کو خدا حافظ کہتے زیر زمین دنیا میں داخل ہوگئی۔جہاز فرانس سے آرہا تھا۔سیٹ جو ملی وہ بوڑھے اور نوجوان بچے کے درمیان سینڈوچ جیسی صورت کی عکاس تھی۔شکر ہے چودہ پندرہ سالہ لڑکا کھڑکی کی سمت تھا۔اُدھیڑ عمر کا مرد تو بڑا سڑیل اور سنکی سا دکھتا تھا۔اپنے آپ میں ہی گم تھا۔چہرہ بھی تنا ہوا۔بچے نے مہربانی کی۔سیٹ کی ادلی بدّلی ہوئی۔ شیشے سے باہر جہاز کا دیوہیکل پر سارے میں پھیلا پڑا تھا۔
میرے ساتھ عجیب تماشا ہے۔جب بھی سفر کرتی ہوں۔پروں کے سائے ہی ہمسائیگی کا شرف عنایت کرتے ہیں۔منظر کھل کر سامنے آنے نہیں دیتے۔عجیب اتفاق ہے۔بہرحال قہر درویش برجان درویش والا معاملہ تھا۔
پندرہ سالہ طارق ایچی سن کا سنئیر کیمرج کا طالب علم تھا۔ایچی سن کے بگڑے اور بدتمیز بچوں کی اخلاقیات کا مجھے ذاتی تجربہ تھا۔اور یہ ہرگزہرگز خوشگوار نہ تھاکہ بڑے بیٹے کے دونوں بیٹے اِس کے جونئیر سکول میں کلاس پنجم اور دوم میں پڑھتے ہیں۔دس سالہ پوتے کے بارہ تیرہ دوست چائے پر آئے۔ ماں نے اٹھارہ بیس ہزار خرچ کر کے میز سجائی۔ لڑکوں نے تو بیٹھتے ہی طوفان اٹھا دیا۔
”نفرت ہے مجھے تو نوڈلز سے۔ کولا بھی کوئی پینے کا ڈرنک ہے۔ پینا کلاڈو نہیں بنایا۔ ہاں پیزا کیوں نہیں منگایا۔ مہنگا ہے اس لئے؟“
یہ دس گیارہ سال کے بچے تھے۔ فریحہ میری بہو دم بخو د کھڑی انہیں دیکھتی اور گھگھیاتے ہوئے کوئی نہ کوئی ڈش انہیں پیش کرتے ہوئے کہتی۔
”لیجئیے نا بیٹے یہ لیں۔ یہ سب ہوم میڈ ہیں۔“
وہ جب اٹھے۔ ڈائننگ روم میں کھانے کی میز جس منظر کو پیش کر رہی تھی وہ لمحہ فکریہ تھا۔ سب دوستوں کو رخصت کرنے کے بعد بیٹے نے ماں سے گلہ کیا کہ اس نے کنجوسی سے کام لیا۔ اس کے دوست خوش نہیں تھے۔ جلی بھنی فریحہ نے جوتا اُتارا اور ٹھکائی کرتے ہوئے چلاّ ئی۔
”الو کا پٹھا۔ میرے پندرہ ہزار خرچ ہوگئے اور اس کے دوستوں کو مزہ نہیں آیا۔ مرغی جان سے گئی اور کھانے والے کو سواد نہیں آیا۔ ہم حرام نہیں کماتے ہیں۔ جاؤ اپنے یاروں کو بتاؤ کہ میری ماں تو لنڈے سے ہمارے لئے کپڑے لاتی ہے۔“
اور میرے سامنے زار زار آنسو بہاتے ہوئے اُس نے کہا تھا۔
”آنٹی میں تو پریشان ہوں۔ مجھے انہیں اٹھا لینا چاہیے ایچی سن سے۔“
میں نے دلداری کی۔
”اپنا ماحول ٹھیک رکھو۔ دونوں بچے غیر معمولی ذہین ہیں۔ اسکول کی ادلی بدلی ممکن ہے۔ان کے لئیے ٹھیک نہ رہے۔“
میں جانتی تھی اس نے داخل کروانے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلے تھے۔ کہاں کہاں تیارکروایا اور خود کتنا کھپی تھی۔ داخلے کا لیٹر آنے تک امید وبیم کی جس کیفیت سے وہ گزری تھی۔میرے نزدیک وہ ہرگز صحت مند روےّے کی عکاس نہ تھی۔
”ارے چھوٹی موٹی کامیابیوں کے لئے کیا جلنا کڑھنا؟ بس خدا سے زندگی میں کامیاب ہونے کا کہو۔ سلامتی، تندرستی اور زندگی مانگو۔“
اب سمجھانا ہی مقصود تھا۔سو سمجھایا ضرور۔باقی آج کی اولاد اپنے فیصلوں میں خود کفیل ہے۔والدین کا تو دعا پر ہی زور تھا۔سو وہ مانگ لی کہ اللہ کرے میرے بچے کے بچے ایسے ہی تمیز دار اور مہذب ہوں۔جیسا یہ میرے ساتھ بیٹھا ہوا بچہ۔بیبا،مودب اور نرم گفتار سا ہے۔ سوئیزر لینڈ میں ہونے والی کسی بچوں کی کانفرنس میں شرکت سے فارغ ہوکر میلان کی سیر کے لئیے آگیا تھا۔
کھانے کا شور شرابا زیادہ تھا۔ ذائقے اور کوالٹی کا بس گزارہ ہی تھا۔ قہوہ چائے کے بعد بتیاں بجھ گئیں اور لوگ اُونگھنے لگے۔
سیٹیں تنگ تھیں۔ تکیے غائب تھے۔ گو میر ی نیند ہر گز ہرگز نخریلی زنانی جیسی نہیں۔ بس رات کا ہونا لازم ہے اور تکیے ہوں۔ یہاں رات تو تھی مگر تکیے نہ تھے۔ ایک آدھ بھی نہیں۔ ائیر ہوسٹس کو بلایا۔اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا۔
”بزنس کلاس کے مسافروں نے زیادہ مانگ لئے۔“
”یہاں اکانومی میں تو انسان نہیں جانور ہیں شاید۔“
میرا لہجہ گلے گلے تک طنزیہ تھا۔ چہرہ بھی ایسے ہی تاثرات کا عکاس ہوگا مگر بتیاں بجھی تھیں۔ لوگ سوتے تھے اور لڑکی کے پاس یقیناً ایسی باتوں کے لئے سوچ بچار کا وقت نہ ہوگا۔
کچھ دیر بعد سوچتے ہوئے اٹھی کہ دستِ خود دہان خود والد کام کروں۔ بیٹھے بیٹھائے تو کچھ ملنے سے رہا۔ شاید کسی سیٹ پر کوئی ایک آدھ پڑا مل جائے۔ بزنس کلاس کی بہت سی سیٹیں خالی تھیں۔ ہائے بڑی کھلی ڈلی آرام دہ ہیں۔ میں مڑی۔ درمیانی پیسجpassageمیں بیٹھی ایر ہوسٹس سے کہا۔
”میں یہاں نہ تھوڑی دیر کے لئے لیٹ جاؤں؟“
سوچا تھا۔ ذرا پاؤں رکھنے کی اجازت تو دے۔ وجود اندر کرنا میرا کام۔
وہ بھی بڑی گھاگ تھی۔ پل نہیں لگایاکہ چہرہ “پر نہیں ” بھی سجا لیا اور زبان سے بھی اقرار کیا کہ ایسا ممکن نہیں۔میری جواب طلبی ہوجائے گی۔ میں نے خود کو کوسا۔
”یہ تیری منگتوں جیسی عادت نہ گئی۔ضرورت کیا تھی بھلا؟“ ا ب پھر اندر داخل ہوئی کہ چلو کچھ تو ملے۔
کیسے موٹے تازے توندیں نکالے مردوں کے خراٹے گونجتے تھے۔ تین تین تکیئے قابو کئے بیٹھے تھے یوں کہ ایک بھی نکالتی تو جاگنے کا سوفی صد امکا ن تھا۔
چلتے چلتے میں یکدم ٹھٹک سی گئی۔ مجھے اپنی بصارت پر دھوکے کا سا گمان گزرا تھا۔
”ہیں۔“ میں نے خود سے کہا تھا۔ یہ کیا دیکھتی ہوں میں؟
ایک چاند چہرہ عین میری نظروں کے سامنے تھا۔ جوانی کی مدہوش نیند میں ڈوبا ہوا۔ کیسا خوبصورت اور دلچسپ حسن اتفاق تھا۔ ابھی ویٹی کن سٹی میں یاد کرتی رہی تھی۔
یہ یاسر پیرزادہ تھا۔ عطا کا لخت جگر۔
ساتھ والی سیٹ پر ساٹڈ کے بل نیم دراز کوئی خاتون تھی۔ چہرہ نہیں دکھتا تھا۔ اِس دلبر سے لڑکے کی سہیلی ہے،بیوی ہے۔ دیکھنا چاہتی تھی۔
نہیں سہیلی تو نہیں ہوگی۔ جو لڑکا کوٹھے پر چڑھ کر اپنی معصوم سی نایاب (بیٹی) کا ذکر کر دیتا ہے وہ تو گویا دوستی یاریوں کے سارے راستے ازخود ہی بلاک کر دیتا ہے۔ بیوی ہوگی بھئی اس کی۔ کیسی ہے؟
تجسّس ضرور انگلی دے رہا تھا کہ بڑھ کر آگے ہو۔ پنڈ کا اتا پتہ لگ ہی جائے گا مگر یہ خطرے والا کام تھا۔ آدھی سے زیادہ گزری رات کے اِس سمے جب ہر سو تنہائی اور خاموشی کا راج ہے ایسی کوئی کاوش ناپسندیدگی کے زمرے میں آسکتی ہے۔
تکیہ نہیں ملا۔ نامراد ہی واپس آنا پڑا تھا۔
مگر جب اپنے غریبڑے سے حصے میں آئی تو ایک خالی سیٹ پر تکیہ پڑادیکھا فوراً اٹھا کر بغل میں دبوچا اور پل بھر کے لئے اِس سوچ کو دماغ میں گھسنے نہیں دیا کہ یہ کسی کا بھی ہو سکتا ہے۔ کسی ایسے بند ے کا جو بیچارہ باتھ روم کے لئے گیا ہو۔ پاکستانی ہوں نا جو صر ف اپنا سوچتے ہیں اورا خلاقیات اور ایٹی کیٹس کو مونڈھے مارتے گزر جاتے ہیں۔
تکیے کا بھی بہانہ ہی ہوا۔ ذرا سکون نہ ملا۔ یونہی اس کی اٹھا پٹخکی میں لگی رہی۔ کہیں تھوڑی سے آنکھ نے جھپکی لی ہوگی۔ نیند کے کسی جھونکے نے تھکن زدہ آنکھوں کو ہلکی سے تھپکی دی ہوگی کہ جیسے کسی نے جنجھوڑسا دیا۔
شیشے سے باہر دیکھا۔ میرے سامنے صبح کاذب کا سا منظر تھا۔ افق اپنے لغوی معنوں میں یہاں فلک سے فلک تک کے پس آئینہ میں ایک بے حد دلکش منظر پیش کرتا تھا۔ کہیں گہرے بسنتی رنگ، کہیں سرسوں کے پھولوں جیسے اور کہیں اس سے بھی اوپر رنگوں کی ایک ایسی برسات دیکھنے میں آر ہی تھی کہ ساکت ہونے والی بات تھی۔ میرے سیٹ کے نیچے جہاز کا پر تھا۔ اس کے کناروں پر جیسے صبح کا نور پھیلنے لگا تھا۔ پھر کہیں دور جیسے ایک پھیلے ہوئے ٹیلے کے کنارے آگ کی سی روشنی سے جھلملانے لگے تھے۔ چند ساعتیں گزر گئیں اور پھر عین میرے سا منے روشنی کا کوندا سا لپکا۔ ایک چھنکاکے سے آگ کا گولہ نمودار ہوگیا۔ کیا منظر تھا۔ خدائی حُسن کے اِس اظہار پر میرا سارا وجود مجسم ہوگیاتھا۔
”پروردگار۔“ میرے لبوں نے بے اختیار کہا۔
آتشیں گولا دھیرے دھیرے اوٹ سے باہر آرہا تھا۔ سری لنکا میں سری پاڈا پر ایسے ہی لمحوں کے کھیل میں کائنات جیسے بقعہ نور بن گئی تھی۔ فطرت نے کسی دلرباعی سے اپنے ہونے کا اظہار کیا تھا۔
لاہور ائیر پورٹ دھواں دھار بارش کے نرغے میں تھا۔ جہاز چکر کاٹ رہا تھا۔
بہرحال بحفاظت لینڈنگ ہوگئی اور پائلٹ کے لئے پورے جہاز نے تالیاں بجائیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply