ترقی پسندشاعر رضا شاہ کی نئی پنجابی کتاب – ٹھل/محمود اصغر چوہدری

مورخہ 19مئی کو میلان میں اٹلی کے ترقی پسند اور مزاحمتی شاعر رضا شاہ کی تیسری کتاب” ٹھل” کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی ۔ میرا یہ اعزاز کو رضاشاہ صاحب نے مجھے بطور مہمان اعزاز اس میں شرکت کی دعوت دی ۔پاکستان قونصلیٹ میلان سے ڈپٹی قونصل احمدولید اور عصمت اللہ جونیجو نے شرکت کی ۔ یورپ کے معروف شاعر احمد نصیر ملک کی زیر صدارت اور سید تنویر حسین شاہ کی زیر سرپرستی ہونے والے اس تقریب رونمائی میں اٹلی کے معروف شعرا ئے کرام محمد شریف چیمہ ، چودھری انوار الحق، فیصل بٹ ، جیم فے غوری، احمد ممتاز، پروفیسر جسپال سنگھ اور چودھری شاہد نذیر کے علاوہ سیاسی و ادبی ذوق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔

شاعری کی تعریف میں اہل علم یہ کہتے ہیں کہ موزوں الفاظ میں حقائق کی مصوری شاعری کہلاتی ہے ۔ لیکن حقائق کی مصوری الفاظ میں کیسے کی جاتی ہے اگر آپ کو یہ جاننا ہے تو پھر آپ کو اٹلی کے انقلابی شاعر رضا شاہ کو پڑھنا پڑے گا ۔ رضا شاہ اپنے شاعری میں الفاظ سے مصوری نہیں کرتے بلکہ وہ ہاتھوں میں تخیل کا ڈیجیٹل کیمرہ پکڑتے ہیں ان میں جذبات اور احساسات کے بیٹری سیل ڈالتے ہیں اور یادوں کا فلش آن کر کے مناظر کی تصویر کشی کرتے ہیں ۔ان کی شاعری کوئی ابیسٹرکٹ آرٹ کی طرح کی نہیں ہے کہ آپ کو اس کو سمجھنے کے لئے اس فن کا ماہر ہونا پڑے گا ۔ کہ آڑھی ترچھی لکیروں میں چھپے پیغام کو سمجھیں ۔ بلکہ ان کے کلام کی خوبصورتی اورلفظوں کی سادگی تصویر کشی نہیں کرتی بلکہ قاری کے ذہن کے پردہ سکرین پر کسی فلم کے فلیش بیک کا سا منظر پیدا کر دیتی ہے۔

رضاشاہ پنجابی زبان میں شاعری کرتے ہیں ۔تو اس لحاظ سے یہ جملہ سچا ثابت ہوتا ہے کہ اندھوں کے دیس میں آئینے بیچنا ۔ بدقسمتی سے پنجابی زبان کے ساتھ اس سے بڑا مذاق اور کیا ہو سکتا ہے کہ ہم پاکستانی پنجابیوں کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ پنجابی بولنے والا پڑھا لکھا نہیں ہوتا۔ کسی بھی زبان کے ساتھ اس سے بڑا اور ظلم کیا ہوگا کہ اس کو رابطہ کا ذریعہ سمجھنے کی بجائے علمیت ماپنے کا پیمانہ سمجھ لیا جائے ۔ تین دہائیاں یورپ میں قیام کے دوران میں نے بڑے بڑے احمق اطالوی اور جاہل انگریز بھی دیکھے ہیں ۔ لیکن چونکہ وہ ترقی یافتہ ممالک کی زبانیں بولتے ہیں تو کیا انہیں اہل علم سمجھ لیا جائے ؟ دراصل پنجابی کو برباد کرنے میں صاحبان اقتدار سے لیکر صاحبان اختیار تک سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے اور سب سے بڑا ہاتھ پنجابی والدین کے ہے جو اپنے بچوں کو مہمانوں کے سامنے اردو یا انگریزی بولنے کا کہتے ہیں تو بچے کے ذہن میں یہ بٹھا دیتے ہیں کہ تمیز کا تعلق کسی دوسری زبان سے ہے ۔ پنجابی زبان کے ساتھ ہونے والی اس زیادتی کا نوحہ رضا شاہ نے اپنی کتاب ٹھل میں نی پنجابئیے کے عنوان سے نظم میں اس طرح کیا ہے

دل کردا اے پھوہڑی پا لاں ۔۔۔۔ تیرے میں مرثیے لکھاں

گنج شکر دے روضے بہہ کے ۔۔ ۔۔۔۔۔اپنے میں تستیے لکھاں

رضا شاہ کی شاعری میں ثقافت کی جھلک بھی ہے اور جذبات کا عکس بھی ، رشتوں کی محبت کا جام بھی ہے اور نظام سے بغاوت کا پیغام بھی ہے ۔ محبت جیسے جذبات کے اظہار میں لفظوں کی بولڈ نیس بھی ہے اور ٹیبو سمجھنے جانے والے موضوعات سے چھیڑ چھاڑ بھی نظر آتی ہے ۔ ہمارے ماضی کے پنجاب کے وہ مناظر جو ذہن کے نہاں خانو ں میں پڑے پڑے بھی گرد آلود ہو چکے ہیں ۔ اوردیہاتی پنجاب کی جس اصل خوبصورتی کو جدیدیت کی دوڑ نے گم کر دیا ہے رضا شاہ اپنے لفظوں کی ٹاکی لیکر پہنچ جاتے ہیں اورقاری کے ذہن کو ایسا صاف کرتے ہیں کہ فلیش بیک کی صرف تصویریں ہی نہیں جاگ جاتی بلکہ یہ مناظر فورڈی کی صورت میں چل پڑتے ہیں یعنی آپ “کھو” کنویں کے پانی کی پھوار سے لیکرکمہارکی گیلی مٹی کی سوندھی خوشبوتک ، اورسویرے کی “تریل” یعنی شبنم سے لیکر گرمی میں موھڑکا یعنی پسینہ محسوس کرنے تک اور لسی ،رو جیسے مشروب سے لیکر ” انب” آم ، بیر ، دوھانے تربوز اور بھنے ہوئے دانوں کا ذائقہ یاد کراتے ہیں ۔

ثقافت کی بات کریں تو ان کی نظم “اودن بچپن دے ” والی نظم کا ایک ایک جملہ آپ کو اصل پنجاب سے ملاقات کرائے گا ۔گولی پلے ، شاہ شٹاپو ، کوڈی ، جھوٹے لینے ، جیسے کھیل سے لیکر ، چوری ملائی کھانے اور گنے چوپنےتک تو کہیں ماہیے ، ٹپے سے لیکر چمٹا گڈوا کی آواز سنائی دے گی تو کہیں درختوں سے پرندوں کے انڈے چوری کرنے سے لیکر گوانڈیوں کے ککڑ چوری کر کے کھانے تک کے منظر یاد آئیں گے ۔ سپاں آلے مداری سے لیکر مصلی کے ڈھول جولائے کی کھیس اور پٹھے وڈھنے سے لیکر مال پھرانے تک جیسا ایک ایک شعر ایسا سماں باندھتا ہے کہ میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی فلم ڈائریکٹرپنجاب کی ثقافت پر کوئی دستاویزی فلم بنانا چاہے تو اسے بہت سی لائبریریاں چھاننے کی ضرورت نہیں بس رضا شاہ کی یہ ایک کتاب پڑھ لے وہی کافی ہے۔ فرماتے ہیں

کئی وار ملائی کھادی سی کھریاں دے اندر وڑوڑ کے ۔۔۔ کئی وار عیاشی کیتی سی لوکاں دے ککڑپھڑ پھڑ کے

رضا شاہ کی کتاب میں صرف پنجاب کی ثقافت ہی نہیں جھلکتی بلکہ پنجاب کے لوگوں کی والہانہ محبت او ر جذباتیت جگہ جگہ بکھری نظر آتی ہے ۔آپ ان کی نظمیں ۔۔ تیر ی جد کال نہیں آوندی سے لیکر تیری جد کال آجاندی پڑھ لیں ۔ یا پھر ان کی لکھی ہوئی لوری پڑھ لیں یا پھر وچھوڑا پڑھ لیں یا پھر مرے گھر بہاراں آئیاں نیں ۔ پرت آؤ اجے وی یاد اے مینوں اور سپانسر پڑھ لیں تو آپ کو موضو ع کی حدت اور جذبات کی شدت واضح ہوجائے گی لکھتے ہیں

تیری جد کال نہیں آوندی ۔ میں ساری رات نہیں سوندا ۔۔ دکھا دی تپ گئی رتے ۔۔ میں ساری رات بلنا واں

تری جد کال آوندی اے ۔۔ تے انج محسوس ہوندا اے ۔۔۔جویں بلیاں دوپہراں وچ کوئی ٹھنڈ یار مل گئی اے

پنجابی زبان کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ جذبات کے اظہار کے لئے لفظو ں کے آبشار چھیڑ دیتی ہے ۔ اس بات کو جاننا ہے تو رضا شاہ کی نظم ماں دے وین یعنی ایک ماں کے بین پڑھیں اور اندازہ کریں کہ پنجابی زبان میں کیسے کیسےجملے ، کیسی کیسی تشبیہات ، اور کیسے کیسے استعارے استعمال کرکے کیسا بہترین ادب تخلیق کیا جا سکتا ہے ۔ نظم ماں کے بین میں اٹلی آنے والی کشتی میں ڈوب کر مرجانے والے ایک پردیسی کے موت پر اس کی ماں کا ماتم ایسے بیان کرتے ہیں

اجے میں شگن تکنے سن

اجے ڈھولک تے بہنا سی

اجے ڈولی لیانی سی

اجے مہندی سجانی سی

اجے افشی نوں نہ دسیائے

بڑے سفنے او تکدی سی

بڑے اس خاب ویکھے سن

اجنٹا کجھ نئیوں چھڈیا ۔۔۔ میرے وسدے گھرانے دا

میرا پاکستان کے لکھاریوں سے ایک ہی گلہ رہتا ہے کہ کسی ادیب کسی لکھاری ، کسی شاعر نے ہم پردیسیوں کے درد کو اپنا موضوع نہیں بنایا ۔ لیکن وہ کیا کریں انہوں نے اس دکھ کو سمجھا ہی نہیں تو کیسے لکھیں گے ۔ بقول پروین شاکر موت کا ذائقہ لکھنے کے لئے ۔۔۔ چند لمحوں کو ذرا مر دیکھوں لیکن رضا شاہ کی کتاب ٹھل میں آپ کو سمندر پار مقیم پاکستانیوں کا درد جا بجا بکھرا نظر آئے گا ان کی نظمیں سپانسر ، وچھوڑا ، پرت آؤ ، ماں دے وین ۔ پرھیا دا فیصلہ ،سنہیا قیدی پنچھی دا ۔ اشک بار آنکھوں سے پڑھنے والی نظمیں ہیں

کدوں سپانسر ٹورو دے ۔ ۔۔کس دن من بلاؤ دے ۔۔۔ کدوں فلائی کرنا اے ۔۔۔۔ کاغذ کدوں گھلاؤ گے ۔۔

رضا شاہ کی کتاب ٹھل میں صرف محبت ، ثقافت اور جذبات کی ترجمانی نہیں ہے بلکہ اس میں نظاموں سے بغاوت نظر آتی ہے ۔ ملک کا درد نظر آتا ۔ کہیں سرمایہ داروں کی جانب سے مزدوں کے استحصال پرلکھتے ہیں تو کہیں اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے فراعین کے خلاف اعلان جنگ کرتے نظر آتے ہیں ۔ ان کی نظمیں مارشل لا، پرائی اگ ، ات سرمایہ داری ، مان ،۔ قصائیاں دی دنیا۔ ایہہ مزدور ۔ اڑئیے کجھ سیانپ کر ۔ بانجھ دھرتی ۔ جس دیس ۔ جیسی نظمیں ذہن کے در کھولتے ہیں اور میسر و موجود سے بہلنے کی بجائے اپنی آواز بلند کرنے کا درس دیتی ہیں

عطا الحق قاسمی نے ان کی مزاحمتی شاعری پر انہیں اٹلی کا حبیب جالب کا خطاب دیا تھا ۔لیکن ان کی حالیہ کتاب ٹھل پڑھ کر میں یہ کہوں گا کہ وہ سعادت حسن منٹو کے رستے پر چل نکلے ہیں ۔ جس میں ان موضوعات کو بے باک ہو کر چھیڑا گیا ہے جن پر کبھی عام شاعر کی نظر نہیں پڑتی ۔ وہ تیسری جنس کے انسانوں کے بارے اپنی نظم چپ (ٹرانس جینڈر ) میں لکھتے ہیں

تیرے بارے رب وی چپ اے ۔۔

مذہباں دے ہرکارے چپ نے ۔۔ دھرماں الے دوارے چپ نیں

تیرے مرن تے ماں نہیں پٹدی ۔۔ نہ کوئی ماسی روندی دسدی

نہ کوئی تیری پھوڑی پاندا ۔۔ نہ کوئی تیرا سوگ مناندا

گوتم بھگت کبیر وی چپ اے ۔۔ یا رھویں والا پیر وی چپ اے

وارث شاہ دی ہیر وی چپ اے

نہ تن کسے غزالی پچھا ۔۔ نہ تن کسے جلالی پچھیا

کسے وہ رانجھن پیار نہیں کیتے ۔۔۔۔ کسے وی تیرے زخم نہیں سیتے

Advertisements
julia rana solicitors

جس موضو ع پر بات کرنے یا جن کے دکھ سمجھنے یا جن کے حقوق کی بات کرنے یا جن کا احساس کرنے کے بارے سارے چپ ہیں معاشرے کے اس محروم ، مجبور اور بے زبان طبقے پر بات کرنے والے رضا شاہ کو میری طرف سے لال سلام!

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply