جنرل(ر) پاشا صاحب سے گذارش۔۔۔ راجہ قاسم محمود

پاکستان میں کتاب دوستی کا رجحان باقی دنیا کے مقابلے میں خاصا کم ہے ،اور سوشل میڈیا کی آمد سے اس میں اور کمی آئی ہے ، باخبر صحافی حضرات کے مطابق پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی کتاب دوست صحافی کچھ زیادہ تعداد میں موجود نہیں ہیں۔اس کتاب دوستی کی کمی کی وجہ سے ہمارے ملک کی اہم شخصیات جو کہ کلیدی عہدوں پر کام کر چکی ہیں اور ان کے کاموں کی وجہ سے ملک منفی یا مثبت طور پر متاثر ہوا ہے ان میں بھی کتاب لکھنے کی روایت کچھ زیادہ نہیں پائی جاتی۔اس وجہ سے نقصان یہ ہوتا ہے کہ ہم ان کی طرف کا نقطہء نظر جاننے سے محروم رہتے ہیں اور پورا سچ کبھی سامنے نہیں آتا۔اور کئی اہم واقعات ان کی وفات کے ساتھ ان کی قبر میں دفن ہو جاتے ہیں،اور ہم مفروضوں یا پھر ایک طرف کے زوایے سے سارے معاملات کو دیکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور ان کے حصے کا سچ ایک قرض بن جاتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ویسے پاکستان کی کچھ سیاسی شخصیات جیسے کہ بھٹو صاحب،بے نظیر بھٹو،عمران خان،عابدہ حسین ،جاوید ہاشمی جیسے چند ناموں نے کتابیں لکھ کر اپنے حصے کا کچھ قرض ادا ضرور کیا ہے۔ ایسی ہی پاک فوج میں سے بھی کچھ جرنلز  نے اپنی یاداشتیں چھوڑیں ہیں۔مگر یہ تمام کام بہت تھوڑا ہے کئی اہم واقعات پر مکمل سچ ابھی تک سامنے نہیں آسکا۔
پاکستان کی حالیہ تاریخ کو مد نظر رکھا جائے اور کہا جائے کہ کس شخص پر کتاب لکھنا پاکستان کا قرض ہے تو وہ شخص جنرل (ر) احمد شجاع پاشا ہیں۔جنرل(ر) پاشا اب بھی کئی دفعہ خبروں کی زینت بنتے ہیں،اور ان کے کردار پر کئی سوالیہ نشان موجود ہیں جن کا جواب ان کی طرف سے دینے سے پاکستان کے ہر شہری کا بھلا ہے۔جنرل(ر) پاشا پر کچھ سوالات تو ایسا قرض ہیں جن پر ان کا تفصیلی جواب آنے سے ہی مکمل سچائی سامنے آسکتی ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کی کتاب ،جس میں دعویٰ کیا گیا کہ اس نے فیضان اور فہیم کو لاہور میں اپنی گولیوں کا نشانہ بنایا تھا وہ ڈاکو تھے جبکہ اس وقت کی میڈیا رپورٹس کے مطابق (جس کا ذکر بھی ریمنڈ ڈیوس کی کتاب میں موجود ہے) ہم نے کہا کہ وہ دونوں پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے لوگ تھے،آخر سچ کیا ہے ؟اور پھر ریمنڈ ڈیوس کو کیوں اور کن شرائط پر چھوڑا گیا؟؟
2 مئی 2011 کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو ان کے کمپاؤنڈ میں مارا گیا ،ابھی تک تو ہمارے ہاں سے یہ ہی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اسامہ کمپاؤنڈ میں تھا ہی نہیں اور یہ سب ڈرامہ تھا۔اس رات کیا ہوا تھا اور اسامہ بن لادن کی موجودگی کی اطلاع آئی ایس آئی کو تھی کہ نہیں،اور اگر تھی تو وہ کیا پالیسی تھی؟
2011 ہی میں پاکستان کی سیاست میں عمران خان کو اپنی سیاست کے 16 سال بعد پذیرائی ملنا شروع ہوئی اور 30 اکتوبر 2011 کو لاہور میں تحریک انصاف نے اپنا پہلا بڑا جلسہ کیا جس کے بعد عمران کی سیاست میں عروج آنا شروع ہوا،عمران کے مخالفین اس ترقی کو جنرل (ر)پاشا کے کھاتے میں ڈالتے ہیں،آخر جنرل(ر) پاشا نے اس سلسلے میں کوئی کردار ادا کیا،کیا انھوں نے عمران خان کی مدد کی؟
2014 کے دھرنے میں بھی جنرل(ر) پاشا پر الزام ہے کہ انھوں نے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام کے ساتھ مل کر نواز شریف کی حکومت کو ڈی ریل کرنے کی کوشش کی،اس میں کتنی سچائی ہے؟
ریمنڈ ڈیوس ہی کے ضمن میں بلیک واٹر کے کردار پر بھی بات کی جاتی ہے،کیا اس کا نیٹ ورک پاکستان میں موجود تھا کہ نہیں؟ اور اگر موجود تھا تو اجازت کس نے دی اور کیا یہ ان کے دور میں موجود رہا یا پھر ختم ہو گیا ؟
2011 ہی میں میمو گیٹ سکینڈل سامنے آیا جس کا میڈیا میں روزانہ کی بنیاد پر چرچا ہوتا تھا،اس کی حقیقت اور پھر منصور اعجاز اور حسین حقانی کا کردار کیا تھا،اور حقانی نے کہاں تک پاکستان کو نقصان پہنچایا،کیا اس وقت کے صدر اس میں ملوث تھے اور پھر یہ معاملہ بغیر کسی نتیجے کے ختم کیوں ہو گیا؟
یہ تمام اہم سوالات ہیں جن کا جنرل (ر)پاشا کی طرف سے جواب آنا ابھی تک باقی ہے،اگر جنرل صاحب ایک کتاب لکھ کر ان تمام باتوں پر اپنے حصے کا سچ لکھ دیں گے تو پاکستان کی تاریخ کے ایک حصے کا قرض چکا دیں گے،بلکہ اگر کتاب لکھنا ممکن نہیں تو کوئی معتبر صحافی ان سے ان تمام سوالات پر انٹر ویو کرکے ان کی رائے جان لے تو بھی ان تشنہ سوالوں کا جواب مل جائے گا،ویسے اگر جنرل صاحب کسی ہمایوں گوہر یا الطاف گوہر کی خدمت لے کر اپنے حصے کا سچ لکھوا لیں تو بھی احسان ہو گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply