ہالووین اور توہم پرستی۔۔۔ حمیرا گل

کون کہتا ہے کہ مغرب میں توہم پرستی نہیں؟ مغریی ریاست امریکہ میں ہر سال 31 اکتوبر کی شام ایک تہوار “ہالووین” کے نام سے منایا جاتا ہے۔ صدیوں سے رائج اس روایت کی جڑیں یورپ سے جڑی ہیں۔ ہالووین، برطانیہ اور یورپ کے قدیم تہوار، سامھین سے شروع ہوا۔ اس قدیم مذہب “سیلٹ” کے پیروکاروں کا ماننا تھا کہ، ہماری دنیا اور بد روحوں کی دنیا کے درمیان ایک پردہ (آڑ) حائل ہے، جو کہ موسمِ گرما کے اختتام پر بہت باریک ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے بری ارواح دنیا میں آکر انسانوں کو تنگ کرتی ہیں۔
مانا جاتا ہے کہ یہ تہوار سامھین تقریباً پانچ ہزار سال پرانا ہے اور ڈھائی ہزار سال پہلے سے آئرلینڈ میں پہلے سیلٹس پہنچنے سے پہلے سے منایا جاتا تھا۔ سامھین آسان تعریف میں مرداروں اور بد روحوں کا تہوار ہے،جو کہ موسم گرما کے اختتام اور سال کی سردی کے آغاز کا جشن ہے۔ جہاں ایک موسم ختم تو دوسرا شروع ہوتا ہے اور دونوں موسم ملتے ہیں۔ جہاں وقت کی مقدار (دن) گھٹنے لگتا ہے اور رات طویل ہوتی ہے۔ وہیں سیلٹ مذہب کے مطابق زندوں اور مردوں کی مابین کھنچی سطح کو مضبوط کرنا ہوتا ہے۔ یہ دراصل مخفی اور بظاہر کے ملاپ کا وقت ہے۔ اور اس وقت لوگ ان بری روحوں سے بچنے کے لیے عام حالات سے ہٹ کر لباس کا اہتمام کرتے تھے تاکہ اگر کوئی بری روح ان تک پہنچ جائے تو ان کو پہچان نہ سکے۔
انیسویں صدی کے پہلے نصف حصے میں ہالووین کے اعتقادات اور رواج، ابتدائی آئرش تارکین وطن کے ساتھ شمالی امریکہ میں لائے گئے۔ آج کے دور میں امریکہ میں منائی جانے والی یہ روایت بہت تو نہیں بدلی لیکن ہاں اس میں کچھ جدت ضرور آگئی ہے۔ عام لباس کی جگہ اب لوگ بھوتوں، چڑیلوں، جانوروں اور کارٹونوں کا لباس پہن کر بھیس بدلتے ہیں۔ اور جو باقاعدہ لباس نہیں بدلتے تو وہ چہرے پہ فیس پینٹنگ کے ذریعے مختلف نقوش بنا کر اپنا روپ بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے گھروں کو بھوتوں، چڑیلوں، اور مکڑی کے جالوں سے سجاتے ہیں۔ کدو کو تراش کر اس میں لالٹینیں جلا کر گھر کے بیرونی حصہ کو سجایا جاتا ہے۔ بچوں کو (ٹریک اور ٹریٹ) پہ لے کے جایا جاتا ہے۔ جس میں بچوں کو ایک بیگ سمیت محلے میں گھر گھر لے جا کر اس بیگ کو مختلف ٹافیوں اور چاکلیٹوں سے بھروایا جاتا ہے۔ اور خاص کر اس رات جادوگر بلیوں کو کاٹ کران کے خون کےذریعے جادو کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

امریکہ میں رہنے والے بہت سارے مسلمان بھی تاریخ جانے بغیر اس تہوار کو مناتے ہیں۔ خاص کر اگر بڑے خود نہ بھی کچھ بن رہے ہوں تو بچوں کو مختلف لباس پہنا کر اور ٹریک اور ٹریٹ والے حصہ میں شامل کرا دیا جاتا ہے۔ تاہم پچھلے دو، تین سالوں میں اس تہوار پر کئی منفی واقعات رونما ہوئے جس سے لوگ ہراساں ہوئے۔ کچھ لوگوں نے مختلف ماسک پہن کر لوگوں کو چھپ کر ڈرایا تو کچھ نے قتل کرنے کی کوشش کی۔ کہیں کسی نے کسی کو اغواء کرنا چاہا تو کہیں کسی نے کسی کا ریپ۔ غرض، اب ہر سال پولیس یہ اعلان کرتی ہے کہ لوگ اپنے طور پر مکمل احتیاط کریں اور خاص کر بچوں کو اغواء ہونے کے ڈر سے بالکل اکیلا باہر نہ بھیجا جائے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ہاں اکثر لوگ انتہائی محدود نگاہ رکھتے ہیں۔ فقط اپنے ہی ملک کی خامیاں دیکھتے ہیں۔ امریکہ کی خامی کی اگر بات کی جائے تو ہماری اکثریت عوام کو فقط مغرب کی بے لباسی ہی دکھائی دیتی ہے۔حالانکہ، امریکہ میں کم لباسی کے علاوہ بھی بہت سی خرابیاں ہیں۔ جہاں تک میں نے ہالووین کے تہوار کو دیکھا اور سمجھا ہے اس کے لیے یہی کہوں گی کہ، اگر ہم سے زیادہ نہیں تو کچھ کم توہم پرست قوم نہیں یہ۔

Facebook Comments

حمیرا گل
طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply