• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • تفسیر ابنِ کثیر۔علامہ عماد الدین ابن ِ کثیرؒ۔پارہ “الم”سورہ فاتحہ

تفسیر ابنِ کثیر۔علامہ عماد الدین ابن ِ کثیرؒ۔پارہ “الم”سورہ فاتحہ

الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
ترجمہ:
ساتوں قاری الحمد کو دال پر پیش سے پڑھتے ہیں اور الحمد للہ کو مبتدا خبر مانتے ہیں۔
سفیان بن عینیہ اور روبہ بن عجاج کا قول ہے کہ دال پر زبر کے ساتھ ہے اور فعل یہاں مقدر ہے۔ ابن ابی عبلہ الحمد کی دال کو اور اللہ کے پہلے لام دونوں کو پیش کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اس لام کو پہلے کے تابع کرتے ہیں اگرچہ اس کی شہادت عربی زبان میں ملتی ہے مگر اس کی شہادت زبان عرب سے ملتی ہے شاذ ہے۔ حسن اور زید بن علی ان دونوں حرفوں کو زیر سے پڑھتے ہیں اور لام کے تابع دال کو کرتے ہیں۔

ابن جریر فرماتے ہیں ” الحمد للہ کے معنی یہ ہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ کا شکر ہے اس کے سوا کوئی اس کے لائق نہیں، خواہ وہ مخلوق میں سے کوئی بھی ہو اس وجہ سے کہ تمام نعمتیں جنہیں ہم گن بھی نہیں سکتے، اس مالک کے سوا اور کوئی ان کی تعداد کو نہیں جانتا اسی کی طرف سے ہیں۔ اسی نے اپنی اطاعت کرنے کے تمام اسباب ہمیں عطا فرمائے۔ اسی نے اپنے فرائض پورے کرنے کے لئے تمام جسمانی نعمتیں ہمیں بخشیں۔ پھر بیشمار دنیاوی نعمتیں اور زندگی کی تمام ضروریات ہمارے کسی حق بغیر ہمیں بن مانگے بخشیں۔ اس کی لازوال نعمتیں، اس کے تیار کردہ پاکیزہ مقام جنت کو ہم کس طرح حاصل کرسکتے ہیں ؟ یہ بھی اس نے ہمیں سکھا دیا پس ہم تو کہتے ہیں کہ اول آخر اسی مالک کی پاک ذات ہر طرح کی تعریف اور حمد و شکر کے لائق  ہے۔

الحمد للہ یہ ثنا کا کلمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ثنا و خود آپ کی ہے اور اسی ضمن میں یہ فرما دیا ہے کہ تم کہو الحمد للہ۔ ” بعض نے کہا کہ الحمد للہ کہنا اللہ تعالیٰ کے پاکیزہ ناموں اور اس کی بلند وبالا صفتوں سے اس کی ثنا کرنا ہے۔ اور الشکر للہ کہنا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے احسان کا شکریہ ادا کرنا ہے۔ لیکن یہ قول ٹھیک نہیں۔ اس لئے کہ عربی زبان کو جاننے والے علماء کا اتفاق ہے۔ کہ شکر کی جگہ حمد کا لفظ اور حمد کی جگہ شکر کا لفظ بولتے ہیں۔ جعفر صادق، ابن عطا صوفی بھی فرماتے ہیں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ہر شکر کرنے والے کا کلمہ الحمد للہ ہے۔

قرطبی نے ابن جریر کے قول کو معتبر کرنے کے لئے یہ دلیل بھی بیان کی ہے کہ اگر کوئی الحمد للہ شکراً  کہے تو جائز ہے۔ دراصل علامہ ابن جریر کے اس دعویٰ میں اختلاف ہے، پچھلے علماء میں مشہور ہے کہ حمد کہتے ہیں زبانی تعریف بیان کرنے کو خواہ جس کی حمد کی جاتی ہو اس کی لازم صفتوں پر ہو یا متعدی صفتوں پر اور شکر صرف متعدی صفتوں پر ہوتا ہے اور وہ دل زبان اور جملہ ارکان سے ہوتا ہے۔ عرب شاعروں کے اشعار بھی اس پر دلیل ہیں، ہاں اس میں اختلاف ہے کہ حمد کا لفظ عام ہے یا شکر کا اور صحیح بات یہ ہے کہ اس میں عموم اس حیثیت سے خصوص ہے کہ حمد کا لفظ جس پر واقع ہو وہ عام طور پر شکر کے معنوں میں آتا ہے۔ اس لئے کہ وہ لازم اور متعدی دونوں اوصاف پر آتا ہے شہ سواری اور کرم دونوں پر حمد تہ کہہ سکتے ہیں لیکن اس حیثیت سے وہ صرف زبان سے ادا ہوسکتا ہے یہ لفظ خاص اور شکر کا لفظ عام ہے کیونکہ وہ قول، فعل اور نیت تینوں پر بولا جاتا ہے اور صرف متعدی صفتوں پر بولے جانے کے اعتبار سے شکر کا لفظ خاص ہے۔ شہ سواری کے حصول پر شکرتہ نہیں کہہ سکتے البتہ شکرتہ علی کرمہ واحسانہ الی کہہ سکتے ہیں۔

یہ تھا خلاصہ متاخرین کے قول کا ماحصل واللہ اعلم۔ ابو نصر اسماعیل بن حماد جوہری کہتے ہیں ” حمد ” مقابل ہے ” ذم ” کے۔ لہذا یوں کہتے ہیں کہ حمدت الرجل احمدہ حمداو و محمدۃ فھو حمید و محمود تحمید میں حمد سے زیادہ مبالغہ ہے۔ حمد شکر سے عام ہے۔ کسی محسن کی دی ہوئی نعمتوں پر اس کی ثنا کرنے کو شکر کہتے ہیں۔ عربی زبان میں شکرتہ اور شکرت لہ دونوں طرح کہتے ہیں لیکن لام کے ساتھ کہنا زیادہ فصیح ہے۔ مدح کا لفظ حمد سے بھی زیادہ عام ہے اس لئے کہ زندہ مردہ بلکہ جمادات پر بھی مدح کا لفظ بول سکتے ہیں۔ کھانے اور مکان کی اور ایسی اور چیزوں کی بھی مدح کی جاتی ہے احسان سے پہلے، احسان کے بعد، لازم صفتوں پر، متعدی صفتوں پر بھی اس کا اطلاق ہوسکتا ہے تو اس کا عام ہونا ثابت ہوا واللہ اعلم۔

حمد کی تفسیر اقوال سلف سے 

حضرت عمر نے ایک مرتبہ فرمایا کہ سبحان اللہ اور لا الہ الا اللہ اور بعض روایتوں میں ہے کہ اللہ اکبر کو تو ہم جانتے ہیں لیکن یہ الحمد للہ کا کیا مطلب ؟ حضرت علی نے جواب دیا کہ اس کلمہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے پسند فرما لیا ہے اور بعض روایتوں میں ہے کہ اس کا کہنا اللہ کو بھلا لگتا ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں یہ کلمہ شکر ہے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میرا شکر کیا۔ اس کلمہ میں شکر کے علاوہ اس کی نعمتوں، ہدایتوں اور احسان وغیرہ کا اقرار بھی ہے۔ کعب احبار کا قول ہے کہ یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کی ثنا ہے۔ ضحاک کہتے ہیں یہ اللہ کی چادر ہے۔ ایک حدیث میں بھی ایسا ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جب تم الحمد للہ رب العالمین کہہ لو گے تو تم اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرلو گے اب اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے گا ۔

اسود بن سریع ایک مرتبہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ میں نے ذات باری تعالیٰ کی حمد میں چند اشعار کہے ہیں اگر اجازت ہو تو سناؤں فرمایا اللہ تعالیٰ کو اپنی حمد بہت پسند ہے۔ (مسند احمد و نسائی) ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ افضل ذکر لا الہ الا اللہ ہے اور افضل دعا الحمد للہ ہے۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن غریب کہتے ہیں۔ ابن ماجہ کی ایک حدیث ہے کہ جس بندے کو اللہ تعالیٰ نے کوئی نعمت دی اور وہ اس پر الحمد للہ کہے تو دی ہوئی نعمت لے لی ہوئی سے افضل ہوگی۔ فرماتے ہیں اگر میری امت میں سے کسی کو اللہ تعالیٰ تمام دنیا دے دے اور وہ الحمد للہ کہے تو یہ کلمہ ساری دنیا سے افضل ہوگا۔

قرطبی فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ساری دنیا   اتنی بڑی نعمت نہیں جتنی الحمد للہ کہنے کی توفیق دینا ہے اس لئے کہ دنیا تو فانی ہے اور اس کلمہ کا ثواب باقی ہی باقی ہے۔ جیسے کہ قرآن پاک میں ہے المال والبنون الخ یعنی مال اور اولاد دنیا کی زینت ہے اور نیک اعمال ہمیشہ باقی رہنے والے، ثواب والے اور نیک امید والے ہیں۔ ابن ماجہ میں ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک شخص نے ایک مرتبہ کہا یا رب لک الحمد کما ینبغی لجلال وجھک و عظیم سلطانک تو فرشتے گھبرا گئے کہ ہم اس کا کتنا اجر لکھیں۔ آخر اللہ تعالیٰ سے انہوں نے عرض کی کہ تیرے ایک بندے نے ایک ایسا کلمہ کہا ہے کہ ہم نہیں جانتے اسے کس طرح لکھیں،

پروردگار نے باوجود جاننے کے ان سے پوچھا کہ اس نے کیا کہا ہے ؟ انہوں نے بیان کیا کہ اس نے یہ کلمہ کہا ہے، فرمایا تم یونہی اسے لکھ لو میں آپ اسے اپنی ملاقات کے وقت اس کا اجر دے دوں گا۔ قرطبی ایک جماعت علماء سے نقل کرتے ہیں کہ لا الہ الا اللہ سے بھی الحمد للہ رب العالمین افضل ہے کیونکہ اس میں توحید اور حمد دونوں ہیں۔ اور علماء کا خیال ہے کہ لا الہ الا اللہ افضل ہے اس لئے کہ ایمان و کفر میں یہی فرق کرتا ہے، اس کے کہلوانے کے لئے کفار سے لڑائیاں کی جاتی ہیں۔ جیسے کہ صحیح بخاری مسلم حدیث میں ہے ایک اور مرفوع حدیث میں ہے کہ جو کچھ میں نے اور مجھ سے پہلے کے تمام انبیاء کرام نے کہا ہے ان میں سب سے افضل لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ہے۔

حضرت جابر کی ایک مرفوع حدیث پہلے گزر چکی ہے کہ افضل ذکر لا الہ الہ اللہ ہے اور افضل دعا الحمد للہ ہے۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے، الحمد میں الف لام استغراق کا ہے یعنی حمد کی تمام تر قسمیں سب کی سب صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ثابت ہیں۔ جیسے کہ حدیث میں ہے کہ باری تعالیٰ تیرے ہی لئے تمام تعریفیں ہیں اور تمام ملک ہے۔ تیرے ہی ہاتھ تمام بھلائیاں ہیں اور تمام کام تیری ہی طرف لوٹتے ہیں۔ رب کہتے ہیں مالک اور متصرف کو لغت میں اس کا اطلاق سردار اور اصلاح کے لئے تبدیلیاں کرنے والے پر بھی ہوتا ہے اور ان سب معانی کے اعتبار سے ذات باری تعالیٰ کے لئے یہ خوب جچتا ہے۔ رب کا لفظ بھی سوائے اللہ تعالیٰ کے دوسرے پر نہیں کہا جاسکتا ہاں اضافت کے ساتھ ہو تو اور بات ہے جیسے رب الدار یعنی گھر والا وغیرہ۔ بعض کا تو قول ہے کہ اسم اعظم یہی ہے۔
عالمین سے مراد

عالمین جمع ہے عالم کی اللہ تعالیٰ کے سوا تمام مخلوق کو عالم کہتے ہیں۔ لفظ عالم بھی جمع ہے اور اس کا واحد لفظ ہے ہی نہیں۔ آسمان کی مخلوق خشکی اور تری کی مخلوقات کو بھی عوالم یعنی کئی عالم کہتے ہیں۔ اسی طرح ایک ایک زمانے، ایک ایک وقت کو بھی عالم کہا جاتا ہے۔ ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس سے مراد کل مخلوق ہے خواہ آسمانوں کی ہو یا زمینوں کی یا ان کے درمیان کی، خواہ ہمیں اس کا علم ہو یا نہ ہو۔ علی ہذا القیاس۔ اس سے جنات اور انسان بھی مراد لئے گئے ہیں۔ سعید بن جیر مجاہد اور ابن جریح سے بھی یہ مروی ہے۔

حضرت علی سے بھی غیر معتبر سند سے یہی منقول ہے اس قول کی دلیل قرآن کی آیت لیکون للعالمین نذیرا بھی جاتی ہے یعنی تاکہ وہ عالمین یعنی جن اور انس کے لئے ڈرانے والا ہوجائے۔ فرا اور ابو عبید کا قول ہے کہ سمجھدار کو عالم کہا جاتا ہے۔ لہذا انسان، جنات، فرشتے، شیاطین کو عالم کہا جائے گا۔ جانوروں کو نہیں کہا جائے گا۔ زید بن اسلم، ابو محیص فرماتے ہیں کہ ہر روح والی چیز کو عالم کہا جاتا ہے۔ قتادہ کہتے ہیں۔ ہر قسم کو ایک عالم کہتے ہیں ابن مروان بن حکم عرف جعد جن کا لقب حمار تھا جو بنوامیہ میں سے اپنے زمانے کے خلیفہ تھے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سترہ ہزار عالم پیدا کئے ہیں۔ آسمانوں والے ایک عالم، زمینوں والے سب ایک عالم اور باقی کو اللہ ہی جانتا ہے مخلوق کو ان کا علم نہیں۔

ابوالعالیہ فرماتے ہیں انسان کل ایک عالم ہیں، سارے جنات کا ایک عالم ہے اور ان کے سوا اٹھارہ ہزار یا چودہ ہزار عالم اور ہیں۔ فرشتے زمین پر ہیں اور زمین کے چار کونے ہیں، ہر کونے میں ساڑھے تین ہزار عالم ہیں۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ یہ قول بالکل غریب ہے اور ایسی باتیں جب تک کسی صحیح دلیل سے ثابت نہ ہوں ماننے کے قابل نہیں ہوتیں۔ جمیری کہتے ہیں ایک ہزار امتیں ہیں، چھ سو تری میں اور چار سو خشکی میں۔

سعید بن مسیب سے یہ بھی مروی ہے۔ ایک ضعیف روایت میں ہے کہ حضرت عمر فاروق کی خلافت کے زمانے میں ایک سال ٹڈیاں نہ نظر آئیں بلکہ تلاش کرنے کے باوجود پتہ نہ چلا۔ آپ غمگین ہوگئے یمن، شام اور عراق کی طرف سوار دوڑائے کہ کہیں بھی ٹڈیاں نظر آتی ہیں یا نہیں تو یمن والے سوار تھوڑی سی ٹڈیاں لے کر آئے اور امیر المومنین کے سامنے پیش کیں آپ نے انہیں دیکھ کر تکبیر کہی اور فرمایا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے، آپ فرماتے تھے اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار امتیں پیدا کی ہیں جن میں سے چھ سو تری میں ہیں اور چار سو خشکی میں ان میں سے سب سے پہلے جو امت ہلاک ہوگی وہ ٹڈیاں ہوں گی بس ان کی ہلاکت کے بعد پے درپے اور سب امتیں ہلاک ہوجائیں گی جس طرح کہ تسبیح کا دھاگا ٹوٹ جائے اور ایک کے بعد ایک سب موتی جھڑ جاتے ہیں۔

اس حدیث کے راوی محمد بن عیسیٰ ہلالی ضعیف ہیں۔ سعید بن میب (رح) سے بھی یہ قول مروی ہے۔ وہب بن منبہ فرماتے ہیں اٹھارہ ہزار عالم ہیں، دنیا کی ساری کی ساری مخلوق ان میں سے ایک عالم ہے۔ حضرت ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں چالیس ہزار عالم ہیں ساری دنیا ان میں سے ایک عالم ہے۔ زجاج کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے دنیا آخرت میں جو کچھ پیدا کیا ہے وہ سب عالم ہے۔ قرطبی کہتے ہیں کہ یہ قول صحیح ہے اس لئے کہ یہ تمام عالمین پر مشتمل لفظ ہے۔ جیسے فرعون کے اس سوال کے جواب میں رب العالمین کون ہے ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تھا کہ آسمانوں زمینوں اور دونوں کے درمیان جو کچھ ہے ان سب کا رب۔ عالم کا لفظ علامت سے مشتق ہے اس لئے کہ عالم یعنی مخلوق اپنے پیدا کرنے والے اور بنانے والے پر نشان اور اس کی وحدانیت پر علامت ہے جیسے کہ ابن معتز شاعر کا قول ہے۔
فیا عجبا کیف یعصی الا لہ
ام کیف یجحدہ الجاحد
وفی کل شی لہ ایتہ
تدل علی انہ واحد
یعنی تعجب ہے کس طرح اللہ کی نافرمانی کی جاتی ہے اور کس طرح اس سے انکار کیا جاتا ہے حالانکہ ہر چیز میں نشانی ہے جو اس کی وحدانیت پر دلالت کرتی ہے الحمد کے بعد اب الرحمن الرحیم کی تفسیر سنئے۔

الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
ترجمہ:
بہت بخشش کرنے والا بڑا مہربان
اس کی تفسیر پہلے پوری گزر چکی ہے اب اعادہ کی ضرورت نہیں۔ قرطبی فرماتے ہیں آیت (رب العلمین کے وصف کے بعد آیت (الرحمن الرحیم کا وصف ترہیب یعنی ڈراوے کے بعد ترغیب یعنی امید ہے۔ جیسے فرمایا آیت (نبی عبادی الخ یعنی میرے بندوں کو خبر دو کہ میں ہی بخشنے والا مہربان ہوں اور میرے عذاب بھی دردناک عذاب ہیں۔ اور فرمایا تیرا رب جلد سزا کرنے والا اور مہربان اور بخشش بھی کرنے والا ہے۔ رب کے لفظ میں ڈراوا ہے اور رحمن اور رحیم کے لفظ میں امید ہے۔ صحیح مسلم شریف میں بروایت حضرت ابوہریرہ مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر ایماندار اللہ کے غضب و غصہ سے اور اس کے سخت عذاب سے پورا وقف ہوتا تو اس کے دل سے جنت کی طمع ہٹ جاتی اور اگر کافر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی رحمتوں کو پوری طرح جان لیتا تو کبھی ناامید نہ ہوتا۔

مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ
ترجمہ:
حقیقی وارث مالک کون ہے ؟
بعض قاریوں نے ملک پڑھا ہے اور باقی سب نے مالک اور دونوں قرأتیں صحیح اور متواتر ہیں اور سات قرأتوں میں سے ہیں اور مالک نے لام کے زیر اور اس کے سکون کے ساتھ۔ اور ملیک اور ملکی بھی پڑھا گیا ہے پہلے کی دونوں قرأتیں معانی کی رو ترجیح ہیں اور دونوں صحیح ہیں اور اچھی بھی۔ زمخشری نے ملک کو ترجیح دی ہے اس لئے کہ حرمین والوں کی یہ قرأت ہے۔ اور قرآن میں بھی آیت (لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ) 40 ۔ غافر :16) اور (قَوْلُهُ الْحَقُّ ۭوَلَهُ الْمُلْكُ ) 6 ۔ الانعام :73) ہے۔ امام ابوحنیفہ سے بھی حکایت بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے ملک پڑھا اس بنا پر کہ فعل اور فاعل اور مفعول آتا ہے لیکن یہ شاذ اور بیحد غریب ہے۔

ابوبکر بن داؤد نے اس بارے میں ایک غریب روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے تینوں خلفاء اور حضرت معاویہ اور ان کے لڑکے مالک پڑھتے تھے۔ ابن شہاب کہتے ہیں کہ سب سے پہلے مروان نے ملک پڑھا۔ میں کہتا ہوں مروان کو اپنی اس قرأت کی صحت کا علم تھا۔ راوی حدیث ابن شہاب کو علم نہ تھا واللہ اعلم۔ ابن مردویہ نے کئی سندوں سے بیان کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مالک پڑھتے تھے۔ مالک کا لفظ ملک سے ماخوذ ہے جیسے کہ قرآن میں ہے آیت (اِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْاَرْضَ وَمَنْ عَلَيْهَا وَاِلَيْنَا يُرْجَعُوْنَ ) 19 ۔ مریم :40) یعنی زمین اور اس کے اوپر کی تمام مخلوق کے مالک ہم ہی ہیں اور ہماری ہی طرف سب لوٹا کر لائے جائیں گے۔

اور فرمایا آیت (قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ۝ ۙ مَلِكِ النَّاسِ ۝ ۙ ) 114 ۔ الناس :2-1) یعنی کہہ کہ میں پناہ پکڑتا ہوں لوگوں کے رب اور لوگوں کے مالک کی۔ اور ملک کا لفظ ملک سے ماخوذ ہے جیسے فرمایا آیت (لمن الملک الیوم) الخ یعنی آج ملک کس کا ہے صرف اللہ واحد غلبہ والے کا۔ اور فرمایا آیت (قَوْلُهُ الْحَقُّ ۭوَلَهُ الْمُلْكُ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ ۭ عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۭوَهُوَ الْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ ) 6 ۔ الانعام :73) اسی کا فرمان ہے اور اسی کا سب ملک ہے۔ اور فرمایا آج ملک رحمن ہی کا ہے اور آج کا دن کافروں پر بہت سخت ہے۔ اس فرمان میں قیامت کے دن ساتھ ملکیت کی تخصیص کرنے سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے، اس لئے کہ پہلے اپنا وصف رب العالمین ہونا بیان کرچکا ہے دنیا اور آخرت دونوں شامل ہیں۔

قیامت کے دن کے ساتھ اس کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ اس دن تو کوئی ملکیت کا دعویدار بھی نہ ہوگا۔ بلکہ بغیر اس حقیقی مالک کی اجازت کے زبان تک نہ ہلا سکے گا۔ جیسے فرمایا جس دن روح القدس اور فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے اور کوئی کلام نہ کرسکے گا۔ یہاں تک کہ رحمن اسے اجازت دے اور وہ ٹھیک بات کہے گا۔ دوسری جگہ ارشاد ہے سب آوازیں رحمن کے سامنے پست ہوں گی اور گنگناہٹ کے سوا کچھ نہ سنائی دے گا اور فرمایا جب قیامت آئے گی اس دن بغیر اللہ تبارک و تعالیٰ کی اجازت کے کوئی شخص نہ بول سکے گا۔ بعض ان میں سے بدبخت ہوں گے اور بعض سعادت مند۔

ابن عباس فرماتے ہیں اس دن اس کی بادشاہت میں اس کے سوا کوئی بادشاہ نہ ہوگا جیسے کہ دنیا میں مجازاً تھے۔ آیت (یوم الدین سے مراد مخلوق کے حساب کا یعنی قیامت کا دن ہے جس دن تمام بھلے برے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا ہاں اگر رب کسی برائی سے درگزر کرلے یہ اس کا اختیاری امر ہے۔ صحابہ تابعین اور سلف صالحین سے بھی یہی مروی ہے۔ بعض سعادت مند۔ ابن عباس فرماتے ہیں اس دن اس کی بادشاہت میں اس کے سوا کوئی بادشاہ نہ ہوگا جیسے کہ دنیا میں مجازاً تھے۔ آیت (یوم الدین) سے مراد مخلوق کے حساب کا یعنی قیامت کا ہے جس دن تمام بھلے برے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا ہاں اگر رب کسی برائی سے درگزر کرلے یہ اس کا اختیاری امر ہے۔ صحابہ، تابعین اور سلف صالحین سے بھی یہی مروی ہے۔

بعض سے یہ بھی منقول ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت قائم کرنے پر قادر ہے۔ ابن جریر نے اس قول کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن بظاہر ان دونوں اقوال میں کوئی تضاد نہیں، ہر ایک قول کا قائل دوسرے کے قول کی تصدیق کرتا ہے ہاں پہلا قول مطلب پر زیادہ دلالت کرتا ہے۔ جیسے کہ فرمان ہے آیت (الملک یومئذ الخ اور دوسرا قول اس آیت کے مشابہ ہے جیسا کہ فرمایا آیت (ویوم یقول کن فیکون) یعنی جس دن کہے گا ” ہوجا ” بس اسی وقت ” ہوجائے گا ” واللہ اعلم۔ حقیقی بادشاہ اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ جیسے فرمایا آیت (ھواللہ الذی لا الہ الا ھو الملک الخ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بدترین نام اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس شخص کا ہے جو شہنشاہ کہلائے حقیقی بادشاہ اللہ کے سوا کوئی نہیں۔ “

ایک اور حدیث میں ہے کہ ” اللہ تعالیٰ زمین کو قبضہ میں لے لے گا اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے پھر فرمائے گا میں بادشاہ ہوں کہاں گئے زمین کے بادشاہ کہاں ہیں تکبر والے۔ ” قرآن عظیم میں ہے کس کی ہے آج بادشاہی ؟ فقط اللہ اکیلے غلبہ والے کی اور کسی کو ملک کہہ دینا یہ صرف مجازاً ہے جیسے کہ قرآن میں طالتون کو ملک کہا گیا اور آیت (وکان ورائھم ملک) کا لفظ آیا۔ اور بخاری مسلم میں ملوک کا لفظ آیا ہے اور قرآن کی آیت میں آیت (اذ جعل فیکم انبیاء وجعلکم ملوکا) یعنی تم میں انبیاء کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا، آیا ہے۔ دین کے معنی بدلے جزا اور حساب کے ہیں۔ جیسے قرآن پاک میں ہے اس دن اللہ تعالیٰ انہیں پورا پورا بدلہ دے گا اور وہ جان لیں گے اور جگہ ہے آیت (ائنا لمدینون) کیا ہم کو بدلہ دیا جائے گا ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

حدیث میں ہے ” دانا وہ ہے جو اپنے نفس سے خود حساب لے اور موت کے بعد کام آنے والے اعمال کرے۔ ” جیسے کہ حضرت عمر فاروق اعظم کا قول ہے کہ تم خود اپنی جانوں سے حساب لو اس سے پہلے کہ تمہارا حساب لیا جائے اور اپنے اعمال کو خود وزن کرلو اس سے پہلے کہ وہ ترازو میں رکھے جائیں اور اس بڑی پیشی کے لئے تیار ہوجاؤ جب تم اس اللہ کے سامنے پیش کئے جاؤ گے جس سے تمہارا کوئی عمل پوشیدہ نہیں جیسے خود رب عالم نے فرما دیا جس دن تم پیش کئے جاؤ گے کوئی چھپی ڈھکی بات چھپے گی نہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply