مولانا کیسے مانیں گے؟۔۔محمد اشفاق

استعفے نہ کسی نے دینا تھے اور نہ ہی استعفے دینا بنتے ہیں۔ خود کو دھوکہ مت دیں۔ خصوصاً استعفے دے کر لانگ مارچ میں جانا تو ایسا ہی تھا جیسے تلواریں توڑ کر میدان ِ جنگ میں جا نکلنا۔

کل صبح تک میرا خیال یہ تھا کہ مولانا کو تازہ گولی چوسنے کیلئے یہ دی جائے گی کہ لانگ مارچ کرتے ہیں، اسلام آباد پہنچ کر استعفوں کا فیصلہ یا اعلان کر دیں گے۔ مگر بیک وقت لانگ مارچ اور استعفوں دونوں سے جان چھڑا لی گئی، یہ سرپرائز ہے۔

بیس سال میں پہلی بار مولانا کا سسٹم میں سٹیک نہیں ہے۔ یہی مولانا کبھی قاضی حسین  احمد مرحوم کو سمجھاتے تھے کہ سسٹم کے اندر رہ کر ہی ہماری بارگیننگ پاور برقرار رہے گی۔ استعفے دینا بیوقوفی ہے۔ اب یہی بات زرداری نے انہیں سمجھا دی تو جناب پریس کانفرنس ادھوری چھوڑ کر نکل لئے۔ وہ اس وقت جلے پاؤں کی بلی بنے ہوئے ہیں۔ لیلی’ ء اقتدار اور ان میں اتنی دوریاں کبھی نہیں رہیں۔ ان کی بے تابیاں سمجھ میں آتی ہیں۔

پی ایم ایل این کے حامی استعفیٰ دینے کا اتنا شوق کیوں رکھتے ہیں، یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔ مطلب نون لیگ استعفے کیوں دے بھلا؟

صرف چند دن پہلے فیصلہ ہوا کہ پنجاب میں عثمان بزدار کے خلاف پی ایم ایل این کسی گیم کا حصہ نہیں بنے گی۔ اور یہ شاندار فیصلہ ہے۔ عثمان بزدار کا کسی کو نقصان ہے تو وہ پی ٹی آئی ہے۔ نون لیگ کو تو ان کی حکمرانی کے فائدے ہی فائدے ہیں۔

ڈسکہ کے ری الیکشن کا انتظار ہو رہا ہے۔ کراچی میں مفتاح صاحب کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ دونوں سیٹیں امید ہے نون لیگ نکال لے گی۔ اسمبلی میں خان صاحب کی پوزیشن کچھ اور کمزور ہو جائے گی۔

بلدیاتی الیکشن بھی اس سال ہونا ہیں۔ نون لیگ کے پاس 80 فیصد سے زائد مقامی حکومتیں تھیں۔ اسی مشینری کے سہارے پنجاب میں 2018 کے انتخابات میں اپنی پوزیشن مضبوط رکھی جا سکی۔ لوکل پالیٹکس کے ڈائنامکس کچھ اور ہیں۔ اس بار پی ٹی آئی کو حکومت کا ایڈوانٹیج ہوگا۔ لیکن پھر بھی نون لیگ پچاس سے ساٹھ فیصد رزلٹ کی توقع رکھتی ہے۔
اسی سال آزاد کشمیر میں بھی الیکشن ہیں۔ موسٹ لائکلی ان کا نتیجہ بھی گلگت بلتستان والا ہی نکلے گا۔ لیکن کشمیر میں اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے خلاف جو جذبات پیدا ہوئے ہیں، ان کو ایکسپلائٹ کر کے کچھ نہ کچھ سیٹیں وہاں بھی اپنے ہاتھ میں رکھنے کی توقع ہے، خصوصاً اگر پی پی اور نون لیگ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لیں تو۔

پی ٹی آئی کی اگلے الیکشن تک کی حکمت عملی کی کچھ سُن گُن ملی ہے۔ وہ علیحدہ موضوع ہے۔ لیکن اس کے پاس سخت فیصلے کرنے کا یہ آخری سال ہے۔ تو اس سال کا بجٹ اور منی بجٹس سب عوام کیلئے بم ثابت ہوں گے۔ عوام میں حکومت کے خلاف جو جذبات بھڑکیں گے، انہیں کیش نون لیگ نے کرنا ہے۔

پنجاب میں اس وقت کئی اضلاع یا کم از کم کئی حلقوں میں عملاً نون لیگ کا راج ہے۔ مطلب ایم این اے بھی اور ایم پی ایز بھی نون لیگی۔ بزدار صاحب طبعاً شریف اور وضعدار انسان ہیں۔ مسلم لیگیوں کی مقامی تھانہ کچہری کی سیاست میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ پروٹوکول، مزے سب مل رہے نون لیگی الیکٹیبلز کو۔
تو مطلب تکلیف کیا ہے کہ استعفے دیے جائیں؟

اسٹیبلشمنٹ، پی ٹی آئی، پی ڈی ایم، سب کو پتہ ہے کہ نون لیگ گورنمنٹ ان ویٹنگ ہے۔ گورنمنٹ ان ویٹنگ صرف الیکشن اور ووٹ کو عزت دو نہیں دیکھتی، اسے اس سے آگے تک بہت کچھ دیکھنا پڑتا ہے۔

جب تک افغانستان کا اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھتا۔ اسٹیبلشمنٹ سٹیٹس کو ہر حال میں برقرار رکھے گی۔ یہ خوش فہمی دل سے نکال دیں کہ پی ڈی ایم استعفے دے دے تو ری الیکشن ہو جائیں گے۔

سپیکر کئی ماہ تک استعفے منظور کئے بغیر اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ حکومت جس الیکشن کمیشن سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر چکی، وہ اسی کے زیر اہتمام ضمنی انتخابات یا عام انتخابات پہ کیوں تیار ہوگی؟

کورونا اب بہانہ نہیں حقیقت ہے۔ لیکن الیکشن ملتوی کرنے کیلئے کورونا کا بہانہ ہر وقت دستیاب ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کی گیم خراب کر کے آپ الیکشن کروانے کی کوشش کریں گے تو اسٹیبلشمنٹ آپ کی گیم کیوں چلنے دے گی؟
لیکن اگینسٹ آل آڈز، الیکشن ہو بھی جاتے ہیں۔ معجزاتی طور پر اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہو جاتی ہے۔ پی ٹی آئی اپوزیشن میں بیٹھ جاتی ہے۔ نون لیگ حکومت بنا لیتی ہے۔ تو اس کا کیا مطلب ہوگا؟

اس کا مطلب ہوگا عوام اور میڈیا کی توپوں کا رخ خان صاحب اور ان کی جماعت سے موڑ کر اپنی طرف کر لینا۔

پہلے ہی جو حالات ہیں، ان کے ساتھ آپ اسمبلیاں ٹوٹنے اور نئے عام انتخابات کو شامل کر لیں تو یہ بالکل ویسی ہی بدترین قسم کی غیر یقینی صورتحال ہوگی جیسی ہم نے 2018 کے چھ سات ماہ میں دیکھی تھی۔ یعنی معاشی صورتحال بد سے بدترین ہو جائے گی۔

ایسے میں حکومت سنبھال کر عوام کو کوئی ریلیف دینا تو دور کی بات، آپ کو اتنے سخت اور مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے کہ لوگ خان صاحب کی گورننس چھ ماہ میں بھول جائیں گے۔
یہ سیناریو کسی بھی ایسی جماعت کو جس نے حکومت بنانی ہے، سوٹ نہیں کرتا۔ پی ایم ایل این کا بہترین مفاد اسی میں ہے کہ دو سال مزید خان صاحب کو حکومت کرنے دی جائے۔ 2021 پی ٹی آئی کی پاپولر سپورٹ میں اتنے ڈینٹ ڈال دے گا کہ وہ اسے اگلے سال، ڈیڑھ سال میں شاید ہی ریکور کر پائے۔ اسی دوران اسے اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے کچھ غیر مقبول اور متنازع  فیصلے بھی کرنا پڑیں گے۔ جو اس کی ساکھ کو مزید خراب کریں گے۔

مطلب نواز شریف اس وقت الیکشن کیوں چاہیں گے بھلا؟ پچھلے چند دنوں میں نون لیگ نے استعفوں پر جو سنجیدگی دکھائی، اور کل پی ڈی ایم کے اجلاس میں جو کچھ ہوا۔ وہ البتہ حیران کن ہے۔
غالباً مولانا نے جو مارچ کی شرط ہی استعفے رکھ دیے اور آصف زرداری صاحب نے اس پر فوری انکار کیا تو اس سے بدمزگی پیدا ہوئی۔ ورنہ نون لیگ مولانا کو درمیانی راستے پر لانا چاہ رہی تھی۔

دوسرا امکان وہی ہے، جسے آپ مائنڈ کر جاتے ہیں۔ یعنی محترمہ مریم نواز کی دوراندیش اور بصیرت آموز قیادت۔ اور وہ میاں صاحب کو معاملات کی وہی تصویر دکھا رہی ہیں جو وہ خود دیکھ رہی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو بہت بڑی بدقسمتی ہے۔ لیکن احسن اقبال اور شاہد خاقان عباسی کو ان کے دائیں بائیں دیکھ کر اطمینان ہوتا ہے کہ شاید ایسا نہیں ہے۔

پی ٹی آئی، اسٹیبلشمنٹ، پیپلز پارٹی اور نون لیگ اس سسٹم کے چار بڑے سٹیک ہولڈرز ہیں۔ ان کی باہمی کھینچا تانی اپنی جگہ مگر سسٹم کو فوری طور پر لپیٹنا ان میں سے کوئی بھی نہیں چاہے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

مجھے امید ہے کہ پی ڈی ایم چند دنوں یا چند ہفتوں بعد پھر متحد اور ایکٹو دکھائی دے گی۔ اور مولانا کو کسی نہ کسی طرح بہلا لیا جائے گا۔

Facebook Comments