کون بنے گا چیئرمین سینٹ ۔۔ غیور شاہ ترمذی

چیئرمین سینٹ پاکستان کی چھٹی (6th) اہم ترین پوسٹ ہے- بروز جمعہ 12 مارچ کواگلے 3 سال کے لئے چیئرمین سینٹ کا الیکشن ہو گا جس میں حکومتی اتحاد کے امیدوار موجودہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی ہیں جبکہ متحدہ اپوزیشن کی طرف سے ان کا مقابلہ کرنے کے لئے نومنتخب رکن سینٹ اور سابقہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو سامنے لایا گیا ہے، یوسف رضا گیلانی سنہ 1988ء سے پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں اور ہر طرح کے نامساعد حالات کے باوجود بھی وہ پارٹی سے وابستہ رہے ہیں- وزیراعظم عمران خاں سمیت تمام حکومتی وزراء اور اس کے مقابلہ میں تمام اپوزیشن پارٹیوں کے حالیہ بیانات کے تحت یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ اپنے امیدوار کو چیئرمین سینٹ بنوانے کے لئے دونوں فریق ہر حربہ استعمال کریں گے- یعنی حکومت اور اپوزیشن میں گھمسان کا رن پڑے گا جس میں ہر دو فریق جائز و ناجائز ہتھکنڈے استعمال کر سکتے ہیں- تبدیلی، ووٹ کی عزت، جمہوریت بہترین انتقام جیسے بلند و بالا نعرے گئے تیل لینے اور عوام وہی بےوقوف کی بےوقوف جو ہر نئے نعرے پر سر دھنتی رہتی ہے-

اس وقت 100 کے ایوان میں چیئرمین سینیٹ منتخب ہونے کے لیے 51 ووٹ درکار ہیں۔ بظاہر نمبرز گیم میں اس وقت حکومتی اتحاد اپوزیشن سے پیچھے ہے مگر اپوزیشن اتحاد کے لئے جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی انتہائی اہمیت کی حامل ہیں- اپوزیشن کے پاس اس وقت سینیٹ میں 52 ووٹ ہیں جن میں سے 20 سینیٹرز کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے جبکہ 18 پاکستان مسلم لیگ نون کے اراکین ہیں۔ اس کے علاوہ 5 سنیٹرز کا تعلق جے یو آئی (ف) سے ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کی 2 نشستیں اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کی ایوان میں 2 نشستیں ہیں۔ اس کے علاوہ پشتونخوا میپ کے 2، نیشنل پارٹی کے 2 اور 2 آزاد ارکان اپوزیشن کے ساتھ ہیں۔ یعنی اپوزیشن کے پاس اس وقت سینٹ میں 53 ووٹوں کی عددی اکثریت موجود ہے- لیکن اس کے باوجود بھی اپوزیشن کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینٹ بننے کے لئے لامحدود جتن کرنے پڑیں گے- اپوزیشن کی ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ اس کے اراکین میں نون لیگ کے اسحق ڈار لندن مقیم ہیں اور وہ اس الیکشن میں واپس نہیں آئیں گے جبکہ نون لیگ سے ہی منسلک 1 رکن بلوچستان سے ایسا بھی ہے جو کھلم کھلا صادق سنجرانی کی حمایت کر چکے ہیں اور سنجرانی کے خلاف گزشتہ تحریک عدم اعتماد میں اس کی حمایت میں ووٹ دے چکے ہیں- ایک گرم خبر یہ ہے کہ اپوزیشن کی صفوں میں کم از کم 3 ایسے سینیٹرز موجود ہیں جنہوں نے سنجرانی سے وعدہ کر لیا ہوا ہے کہ چیئرمین سینٹ کے لئے وہ ان ہی کی حمایت کریں گے- اگر یوسف رضا گیلانی اور صادق سنجرانی میں سے کوئی بھی 51 ووٹ حاصل نہ کر سکا تو پھر یہ چناؤ از سر نو اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ کوئی امیدوار واضح اکثریت (کم از کم 51 فیصد) حاصل نہ کر لے-

ثابت یہ ہوا کہ یہ پاور پالیٹکس ہے- یہاں ہر پارٹی اپنا حصہ لینے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی ہے- تحریک انصاف اور اس کے لیڈر عمران خاں کے بارے میں اب یہ واضح ہوچکا ہے کہ وہ کسی تبدیلی اور اصولوں کی سیاست کے لئے حکومت میں نہیں آئے- یہ سب سیاسی نعرے تھے جو عمران خاں & کمپنی نے صرف ووٹروں کو ورغلانے کے لئے کامیابی سے استعمال کیا- اب وہ چونکہ حکومت میں آ چکے ہیں تو ان کی سب سے بڑی ترجیح یہی ہے کہ وہ حکومت میں موجود رہیں اور جب تک ممکن ہے وہ حکومت میں رہنے کے لئے ہر حربہ استعمال کریں- اصولوں اور تبدیلی کی سیاست کے نعرے میں کچھ بھی دم ہوتا تو کچھ دن پہلے ہی قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیتے ہی عمران خاں کو چاہیے تھا کہ وہ اسمبلیاں تحلیل کر کے ملک میں دوبارہ انتخابات کروانے کا اعلان کر دیتے کیونکہ حفیظ شیخ کی شکست کے بعد وہ خود یہ بیان دے چکے ہیں کہ ان کے ممبران قومی اسمبلی میں 16 اراکین ایسے ہیں جنہوں نے سینٹ الیکشن کے لئے اپنا ووٹ فروخت کیا تھا- اطلاعات یہی ہیں کہ وزیراعظم کے پاس ان 16 اراکین اسمبلی کی فہرست بھی موجود ہے جنہوں نے اپنا ووٹ فروخت کیا تھا- ان کے خلاف کوئی کاروائی کرنا تو درکنار، اپوزیشن راہنماؤں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے اپنے لئے اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے ان 16 اراکین کو باقاعدہ ہراساں کیا کہ اگر انہوں نے اعتماد کا ووٹ نہ دیا تو ان کی اسمبلی رکنیت ختم کروا دی جائے گی- نون لیگ کے راہنماؤں کا یہ الزام اس وقت گردش میں ہے کہ حکومت نے ان کے سینیٹرز کو ہراساں کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے-

وفاقی وزیر اطلاعات اور حکومت کے ترجمان شبلی فراز نے گذشتہ شب جیو ٹی وی کے شاہ زیب خانزادہ کو بتایا تھا کہ ’اپوزیشن ہمیشہ قوانین کی دھجیاں اڑاتی ہے، پیسہ استعمال کرتی ہے اور ہر طریقہ اختیار کرتی ہے۔ اس دفعہ ہم تیار ہیں۔ جو بھی ہوگا، ہم ہر وہ چیز کریں گے جو جیت کے لیے درکار ہے‘- ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بار ’اچھا اچھا‘ یا ’شریف شریف‘ نہیں کھیلیں گے اور قوائد کی ہر شق پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ شبلی فراز کے اس بیان کے بعد ثابت ہوا کہ حکومت ہر حالت میں اپنے امیدوار صادق سنجرانی کو چیئرمین سینٹ بنوانے کی کوشش میں ہے- شاید اسی لئے وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکریٹری عبدالغفور حیدری کو باقاعدہ آفر کی تھی کہ اگر جمعیت کے 5 اراکین سینٹ چیئرمین کے لئے صادق سنجرانی کی حمایت کریں تو حکومتی اتحاد کے 48 اراکین انہیں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ بنانے کے لئے تیار ہیں- یہ وہی جمعیت علمائے اسلام (ف) ہے جس کے امیر مولانا فضل الرحمان کو وزیراعظم عمران خاں کھلم کھلا مولانا ڈیزل کا خطاب دیتے ہیں مگر صادق سنجرانی کو چیئرمین سینٹ بنوانے کے لئے ان کی پارٹی اب مولانا کے پاؤں پڑنے کو بھی تیار ہے-

Advertisements
julia rana solicitors

حکومتی امیدوار صادق سنجرانی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے وزیر داخلہ شیخ رشید کو اخبار نویسوں کے سامنے یہ واضح کرنا پڑا کہ صادق سنجرانی نہ صرف حکومت کے امیدوار ہیں بلکہ وہ ‘ریاست‘ کے بھی امیدوار ہیں تاہم انھوں نے لفظ ’ریاست‘ کی مزید وضاحت نہیں کی۔ پاکستان میں شعوری نابالغوں کے علاوہ ساری آبادی جانتی ہے کہ ‘ریاست’ سے مراد فوجی قیادت ہے جسے عرف عام میں اسٹیبلشمنٹ بھی کہا جاتا ہے- یہ افسوس ناک ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 2 سے زیادہ مرتبہ یہ بیان دئیے ہیں کہ فوج ایک پروفیشنل ادارہ ہے جسے سیاسی معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے- اس کے باوجود بھی وفاقی وزیر داخلہ کی جانب سے صادق سنجرانی کو ‘ریاست’ کا امیدوار قرار دئیے جانے کے 2 ہی مطلب ہیں کہ یا تو وہ واقعی ہی ریاست کے امیدوار ہیں یا پھر وفاقی وزیر داخلہ نے جھوٹ بولا ہے اور ریاست کا نام استعمال کیا ہے- بطور جمہوری کارکن کے اس لکھاری کی یہی خواہش ہے کہ ‘ریاست’ چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں عدم مداخلت کا واضح بیان دے اور شیخ رشید کے بیان کی پرزور تردید کرے- اگر ایسی تردید جاری نہ کی گئی تو صادق سنجرانی کے چیئرمین سینٹ منتخب ہونے کی صورت میں کوئی بھی یہ تسلیم نہیں کرے گا کہ ‘ریاست’ اس معاملہ میں عدم مداخلت کی پالیسی پر کاربند تھی-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply