گمشدہ بلاگرز اور انصاف کے معیار

قارئین، اسلام ، پاکستان اور دنیا بھر کے قانون میں جرم ثابت کرنا ریاست یا استغاثہ کی ذمہ داری ہوتی ہے نا کہ ملزم کی۔ شریعت ، پاکستان اور دنیا بھر کے قانون کے مطابق کو جرم ثابت ہونے تک بے گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ چنانچہ یہ بات بالکل نا مناسب اور شرعی اور قانونی دونوں لحاظ سے غلط ہے کہ سلمان حیدر یا اس کی رہائی کا مطالبہ کرنے والے اس کی بے گناہی ثابت کریں بلکہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ سلمان حیدر کے جرم کے حتمی اور قابل اعتبار ثبوت کرے۔ اور یہ بھی بتا چلوں کہ ثبوتوں کا معیار سنی سنائی نہیں بلکہ “شک و شبہ سے بالا تر ہونا چاہیے اور ناقابل اعتبار یا مشکوک ثبوت کی بنیاد پر کسی کو مجرم نہیں ٹھہرایا جا سکتا اور شریعت، پاکستان اور تمام دنیا کے قانون کے مطابق شک کا تمام فائدہ ملزم کو دیا جاتا ہے نا کہ استغاثہ کو”۔
چنانچہ مجھے، آپ کو ، اور ہم سب کو سلمان حیدراور ہر مغوی شخص کو اس وقت تک مجرم نہٰیں سمجھنا چاہیے جب تک کہ ریاست کی طرف سے حتمی اور قابل اعتبار ثبوت پیش نہ کر دیے جایئں۔ چونکہ ریاست کی طرف سے حتمی تو کیا کسی بھی قسم کے ثبوت پیش نہیں کیے جار ہے چنانچہ بطور شہری اور مسلمان کے ، ہمارا یہ مطالبہ بالکل بجا اور بر وقت ہے کہ سلمان حیدر اور دوسروں کو یا تو رہا کیا جائے یا بلا تاخیر ثبوت عدالت میں پیش کر کے قانون کے مطابق کاروائی کا آغاز کیا جاے۔

میری اوپر کہی گئی باتوں کو آپ کسی بھی مسلک کے عالم دین اور کسی بھی کرمنل وکیل دونوں سے پوچھ سکتے ہیں کہ آیا شرعی اور قانون پوزیشن یہی ہے یا نہیں۔
اس معاملہ کا ایک بہت اہم پہلو یہ بھی ہے کہ یہ ایک بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔ توہین رسالت (ص) سے زیادہ ایک مسلمان کے لیے باعث اذیت کوئی اور معاملہ نہیں ہو سکتا ۔ اپنی حساسیت کی وجہ سے توہین رسالت کے الزام کو لگانے کا ، اس پر یقین کرنے کا اور اسے کے آگے پھیلانے کا معاملہ اتنا ہی زیادہ احتیاط کا بھی متقاضی ہے۔
غور کیجیے کچھ لوگ بلا وارنٹ کے اٹھائے گئے ہیں جن میں سلمان حیدر بھی شامل ہیں ۔ باقیوں کے بارہ میں مجھے کوئی معلومات نہیں البتہ سلمان حیدرایک معروف شخص ہیں، شاعر ہیں اور اثنا عشری شیعہ، میں نے ان کی وال پر یا کہیں اور بھی سلمان حیدر کی طرف سے کہی گئی توہین رسالت یا توہین مذھب پر مبنی کوئی تحریر یا عبارت کبھی نہیں دیکھی۔ سلمان حیدر کے بھائی نے ٹی وی اور میڈیا کو کھلے اور واضح طور پر بتایا ہے کہ سلمان حیدر کا ان پیجز کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں۔ مزید یہ کہ سلمان حیدر کے کے کردار کے بارہ میں ، کئی سال تک ان کے کلاس فیلو رہنے والے ڈاکڑ اسرار مرحوم کی تنظیم سے وابستہ عمران بخاری Imran Bukhari صاحب کی تفصیلی گواہی بھی سامنے آ چکی ہے۔ جبکہ ریاست یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے کوئی ایسا ثبوت سامنے نہیں آیا جس سے یہ ثابت ہو کہ سلمان حیدر کسی بھی توہین آمیز پیج کے ایڈمین ہیں ۔ اس کے باوجود تواتر سے سلمان حیدر کا نام ان پیجز کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔

بے عمل مسلمان اور آزاد خیال لوگوں کے لیے قرآن حجت ہو نہ ہو لیکن جن لوگوں کا واضح موقف یہ ہو کہ وہ قرآن اور حدیث کو اپنے لیے حجت مانتے ہیں، انھیں کسی پر توہین رسالت جیسے گھناونے الزام کو لگانے، قبول کرنے یا آگے پھیلانے سے پہلے سوچنا چاہیے۔
.امام بخاری کی روایت کردہ حدیث کے مطابق حضرت ابو ذر غفاری (ر) نے نقل کیا ہے کہ انھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: “لا یرمی رجل رجلا بالفسوق ولایرمیہ بالکفر الا ارتدت علیہ ، ان لم یکن صاحبہ کذلک”، یعنی اگر کوئی شخص دوسرے کو گناہ یا کفر سے متہم کرے جب کہ وہ شخص گنہگار یا کافر نہ ہو تو وہ گناہ و کفر خود تہمت لگانے والے کی طرف پلٹے گا ۔ اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر (ر) نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: “ایما رجل مسلم کفر رجلا مسلما فان کان کافرا والا کان ھو الکافر”، جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کافر کہے اور وہ مسلمان کافر نہ ہو تو کہنے والا خود کافر ہو جائے گا

میری آپ کے توسط سے تمام قارئین سے برادرانہ گذارش ہے کہ بغیر حتمی ثیوت کے کسی کا بھی نام توہین آمیز پیجز سے نہ جوڑا جائے۔ اگر یہی حضرات یا ان میں سے کوئی صاحب، یا کم از کم سلمان حیدر، در حقیقت ان پیجز کے ایڈمن ہیں تو یہ لوگ جن اداروں کی تحویل میں ہیں ان کے وسائل اور صلاحیتیں بلا شبہ ایسی ہیں کہ وہ گرفتار شدگان کا ان پیجز کے ایڈمن ہونے کا تسلی بخش ثبوت فراہم کر سکتے ہیں ۔ جو کہ پچھلے ایک ہفتے میں نہیں فراہم کیا گیا۔ جو کچھ ہم سب نے سنا ہے وہ اوریا مقبول جان اور دوسرے لوگوں کی طرف سے بغیر ثبوت کے الزامات ہیں جو کہ مکمل طور پر ظنی ہیں ، کسی شخص کو محض ظنی اور قیاسی بنیاد پر توہین جیسے معاملہ میں ملوث قرار دینے میں بہت بڑی اور شاید ناقابل تلافی زیادتی کا احتمال ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

امید ہے ہم اغوا شدگان کو توہین کا مرتکب سمجھنے سے پہلے غور کریں گے، ان کی رہائی یا کھلی عدالتی کاروائی کا مطالبہ کریں گے اور اگر یہ دونوں بھی نہیں کر سکتے تو کم سے کم غیر مصدقہ الزامات کو آگے نہیں پھیلائیں گے۔

Facebook Comments

سلمان یونس
اسلام آباد جیسے پرسکون شہر سے نیویارک جیسے ہنگاموں سے بھرپور شہر میں آ کر بس رہنے والا اایکک آوارہ و سنکی دل وحشی جو قابل ذکر مونچھیں نہ ہونے کے باوجود مچھندر کی طرح اپنی روٹی قانون کے شعبے میں محنت مزدوری کر کے کماتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply