• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • معصوم عورتوں کو قتل کرنے والے کا بھیانک انجام ۔۔ غیور شاہ ترمذی

معصوم عورتوں کو قتل کرنے والے کا بھیانک انجام ۔۔ غیور شاہ ترمذی

ناہید بی بی، ارشاد بی بی، عائشہ بی بی، جویریہ بی بی اور مریم بی بی وہ پانچ غریب خواتین تھیں جنہیں خواتین کی دستکاری سکھانے والے مرکز میں 16 ہزار روپے ماہانہ وظیفہ کے ساتھ تربیت کے لئے 3 مہینوں کے لئے منتخب کیا گیا تھا- صرف 2 دنوں میں یہ تربیت مکمل ہونے ہی والی تھی کہ دہشت گرد کالعدم گروہ طالبان کے قاری گل بہادر گروپ کے کمانڈر حسن عرف سجنا کے جاہل دہشت گردوں نے شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی کے گاؤں ایپی کے قریب پیر کی صبح ان کی گاڑی پر اس وقت اندھا دھند فائرنگ کر دی جب اس گاڑی نے تربیتی مرکز کے پہلے حصہ پر مریم بی بی کو اتارا اور باقی خواتین کے ساتھ دوسرے حصہ کی طرف سفر شروع کیا تھا- اس اندھا دھند فائرنگ کے نتیجہ میں ناہید بی بی، ارشاد بی بی، عائشہ بی بی اور جویریہ بی بی موقع پر ہی شہید ہو گئیں جبکہ گاڑی کا ڈرائیور شدید زخمی ہو گیا- ان چاروں خواتین کا تعلق انتہائی غریب گھرانوں سے تھا اور 2 دنوں میں اپنی تربیت مکمل ہونے کے بعد یہ اپنے گھروں میں رہتے ہوئے سلائی کڑھائی اور کشیدہ کاری جیسے ہنر  کی مدد سے اپنے گھر والوں کی مالی معاونت کرنے کے لئے کام شروع کر سکتی تھیں- ان خواتین میں جویریہ بی بی شہید کی تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی تھی جبکہ باقی تینوں خواتین شادی شدہ تھیں- ارشاد بی بی اور عائشہ بی بی شہید سگی بہنیں بھی تھیں-

ان خواتین کے قتل کے بعد شمالی وزیرستان میں شدید احتجاج بھی ہوا اور لواحقین کے اس احتجاج کا اعلیٰ فوجی حکام نے شدید نوٹس لیا- انٹیلی جینس ایجنسیوں کی جیو فینسنگ تفتیش کی مدد سے ان معصوم خواتین کے المناک شہادت کے مرکزی کردار کمانڈر حسن عرف سجنا کو میر علی کے علاقہ میں ہی ٹریس کر لیا گیا- اس اطلاع کے بعد سکیورٹی فورسز کے ایک چاک و چوبند دستے نے اس دہشت گرد کے ٹھکانے پر حملہ کیا اور اسے جہنم واصل کر دیا- دہشتگردوں سے بھاری مقدار میں اسلحہ و بارود بھی برآمد کیا گیا- سجنا نامی یہ دہشت گرد ان 4 معصوم خواتین کی شہادت کے علاوہ بارودی سرنگوں کے دھماکوں، اغواء برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کی وارداتوں کے ساتھ دہشت گردوں کو بھرتی بھی کرتا تھا۔ حسن سجنا کا تعلق حکیم اللہ محسود گروپ سے تھا اور وہ حکیم اللہ محسود کا باڈی گارڈ بھی رہ چکا تھا- خان سعید سجنا اور شہر یار محسود کے درمیان تحریک طالبان پاکستان کی امارت / قیادٹ پر ہونے والے جھگڑوں کے بعد حسن سجنا نے شہر یار محسود کے گروپ میں شمولیت اختیار کر لی- بعد ازاں جب شہر یار محسود کی افغانستان میں ایک بارودی سرنگ دھماکہ میں ہلاکت ہو گئی تو اس نے قاری گل بہادر گروپ سے اپنا ناطہ جوڑ لیا-

عورتوں کو قتل کرنے والے اس قسم کےدہشت گرد کہتے ہیں کہ جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے لیکن اسلام اس نظریہ کی نفی کرتا ہے- جب ہم جنگ جیسے موضوع پر اسلام کی تعلیمات کو سمجھ لیں تو عام حالات میں اسلام کا پیغام سمجھنا مشکل نہیں ہو گا- رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ کے لئے شریفانہ ضوابط بھی مقرر فرمائے اور اپنے فوجیوں اور کمانڈروں پر ان کی پابندی لازمی قرار دیتے ہوئے کسی بھی حال میں ان سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی۔ قتال کے سلسلے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو ہدایات ہیں، وہ انسانی تاریخ میں منفرد اہمیت کی حامل ہیں- مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیر اہل قتال کو نقصان پہنچانے سے منع کیا- نبی کریم نے اہل قتال اور غیر اہل قتال کا فرق واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ غیر اہل قتال یعنی عورتوں، بچوں، بوڑھوں، بیماروں، گوشہ نشینوں، زاہدوں اور مندروں کے مجاوروں اور پجاریوں وغیرہ کو قتل نہ کیا جائے۔

رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجاہدین کو رخصت کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ “کسی بوڑھے، بچے، نابالغ لڑکے اور عورت کو قتل نہ کرو، اموال غنیمت میں چوری نہ کرو، جنگ میں جو کچھ ہاتھ آ جائے سب ایک جگہ جمع کر دو، نیکی اور احسان کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے” ۔(سنن ابی داؤد، کتاب الجہاد)- ایک دوسری حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی غزوہ میں ایک مقتول عورت دیکھی تو سختی سے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع کر دیا ۔(صحیح بخاری، کتاب الجہاد والسیر)- جنگجو عرب عموماً جنگوں کے دوران اپنے دشمنوں پر شب خون مارا کرتے تھے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عادت کو بند کر دیا اور صبح سے پہلے حملہ کرنے کی ممانعت کی- حضرت انس رضی اللہ عنہ غزوہ خیبر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کسی قوم کے پاس رات کو پہنچ جاتے تو صبح ہونے سے پہلے اس پر حملہ نہیں کرتے تھے ۔(صحیح بخاری، کتاب الجہاد والسیر )-

عرب جنگجو زمانہ جاہلیت میں اپنے دشمن کو آگ میں جلا دیا کرتے تھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جنگ کے دوران آگ کا عذاب دینا سوائے آگ کے پیدا کرنے کے اور کسی کو سزاوار نہیں ۔(سنن ابی داؤد، کتاب الجہاد)- اسی طرح جنگ کے دوران اپنے دشمنوں کو باندھ کر قتل کرنے کی بھی سختی سے ممانعت فرمائی-حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے باندھ کر قتل کرنے سے منع فرمایا ہے ۔(صحیح بخاری، کتاب الجہاد والسیر)- اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ کے دوران عام لوگوں سے لوٹ مار کرنے کی سختی سے ممانعت کی- ایک دفعہ سفر جہاد میں اہل لشکر نے قریبی آبادی کی کچھ بکریاں لوٹ لیں اور ان کا گوشت پکا کر کھانا چاہا- جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم ہوا تو آپ نے دیگچیاں الٹ دینے کا حکم دیا اور فرمایا کہ لوٹ کا مال مردار سے زیادہ حلال نہیں ۔(سنن ابی داؤد، کتاب الجہاد)-

اسی طرح دشمن کی لاشوں کی بے حرمتی کرنا اور ان کے اعضاء کی قطع و برید کرنے سے بھی اسلام نے سختی سے منع کیا- حضرت عبداللہ بن یزید انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوٹ مار اور مثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب المظالم )

مجاہدین کی روانگی سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: بدعہدی نہ کرو، غنیمت میں خیانت نہ کرو اور مثلہ نہ کرو(صحیح مسلم، کتاب الجہاد)-

انسانوں کے علاوہ افواج کی پیش قدمی کے وقت فصلوں کو خراب کرنا، کھیتوں کو تباہ کرنا، بستیوں میں قتل عام اور آتش زنی کرنا بھی اسلامی نقطہ نگاہ سے ناجائز اور حرام ہے- ارشاد باری تعالیٰ ہے: واذا تولی سعی فی الارض لیفسد فیھا ویھلک الحرث والنسل واللہ لا یحب الفساد – “اور جب وہ پلٹتا ہے تو زمین میں دوڑ دھوپ کرتا ہے تاکہ اس میں فساد پھیلائے اور کھیتی اور نسل کو تباہ کرے اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ (البقرۃ، 205)- اسلام نے صرف خصوصی حالات میں ہی ضرورت کے تحت درختوں کو کاٹنے اور جانوروں کو ذبح کرنے کی اجازت دی ہے، یعنی جب ان امور میں کوئی مصلحت ہو۔

فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہر میں داخل ہونے سے پہلے اعلان فرمایا: کسی زخمی پر حملہ نہ کیا جائے، کسی بھاگنے والے کا پیچھا نہ کیا جائے، کسی قیدی کو قتل نہ کیا جائے اور جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے وہ امان میں ہے”۔ (فتوح البلدان للبلازری)- اسی طرح سفیروں اور قاصدوں کے قتل سے بھی نبی الرحمت والامن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا۔ مسیلمہ کذاب کی طرف سے دو آدمی (قاصد) گستاخانہ پیغام لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم! اگر قاصدوں کو قتل کرنا ممنوع نہ ہوتا تو میں تم دونوں کی گردن مار دیتا ۔(سنن ابی داؤد، کتاب الجھاد )- زمانہ امن کی طرح جنگ کے دوران عہد توڑنے اور معاہدین (ذمیوں) پر دست درازی کرنے کی مذمت میں بے شمار احادیث آئی ہیں- حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو کسی معاہد (ذمی) کو قتل کرے گا، اس کو جنت کی خوشبو تک نصیب نہ ہو گی۔ (صحیح بخاری، کتاب الجزیۃ والموادعۃ)-

عرب لوگ دور جاہلیت میں جب جنگ کے لئے نکلتے تو بدنظمی کا شکار ہوتے، راستوں کو تنگ کرتے اور آبادیوں کو پریشان کرتے، ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس بات کی شکایت پہنچی کہ مجاہدین میں بدنظمی پھیلی ہوئی ہے، منزل کو تنگ کر رکھا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان فرمایا: جو کوئی منزل کو تنگ کرے گا یا راہ گیروں کو لوٹے گا تو اس کا جہاد نہیں ہے۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الجھاد)- دور جاہلیت کے برعکس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب جہاد کے لئے مجاہدین کو روانہ کرتے تو فرماتے: اللہ کی راہ میں اللہ کے نام کے ساتھ جہاد کرو، ہر اس شخص سے جو اللہ کا منکر ہو، جہاد کرو اور مال میں خیانت نہ کرو، بدعہدی نہ کرو، مثلہ نہ کرو اور بچوں کو قتل نہ کرو۔ (صحیح مسلم، کتاب الجہاد)

جنگ سے متعلق ان واضح احکامات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے جنگ و جہاد کو ان تمام وحشیانہ افعال سے پاک کر دیا جو اس دور میں جنگ کا ایک لازمی اور روایتی جزو بنے ہوئے تھے- وحشیانہ افعال اور یہ سب کچھ آئین جنگ کے خلاف قرار دیا گیا اور جنگ صرف ایسی چیز رہ گئی جس میں شریف اور بہادر آدمی دشمن کو کم سے کم نقصان پہنچا کر اس کے شر کو دفع کرنے کی کوشش کرے- نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو جنگ میں ہر طرح کے ظلم اور بربریت کو ختم کر دیا مگر بظاہر اسلام کا نام لینے والے طالبان ہر وہ کام کرتے ہیں جن کی ممانعت اللہ پاک اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی- بنک ڈکیتیوں، اغواء برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ، اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملے، عام لوگوں سے بھتہ وصول کرنے، عورتوں سے بدسلوکی کرنے، سفیروں کو قتل کرنے اور عورتوں کے قتل کرنے جیسے کون سے بھیانک جرائم نہیں جو یہ طالبان فسادی نہیں کرتے-

Advertisements
julia rana solicitors

حسن سجنا نامی اس دہشت گرد کمانڈر میں وہ تمام برائیاں، مظالم اور گناہان کبیرہ موجود تھے جن کی اسلام میں سختی سے ممانعت ہے- یہ وہ دہشت گرد کمانڈر تھا جو طالبان کے لئے نئی بھرتیاں بھی کرتا تھا- وہ شہر یار محسود گروپ اور قاری گل بہادر کا بنیادی ریکروٹنگ امیر تھا- نوجوانوں کو جہاد کے نام پر ملک دشمنیوں کے لئے آمادہ کرتا تھا- حیرانگی یہ ہو رہی ہے کہ یہ جہنمی دہشت گرد ان نئے بھرتی ہونے والے نوجوانوں کو کون سی غیر اسلامی تعلیمات کو مذہبی لبادہ اوڑھا کر پڑھاتا ہو گا کہ وہ سارے مظالم اور غیر انسانی کاروائیوں کو انجام دینے کے لئے طالبان میں شمولیت اختیار کرتے ہوں گے- سیکورٹی فورسز کی اس تازہ ترین کاروائی میں حسن سجنا کی ہلاکت سے یقیناً طالبان دہشت گردوں کو سٹریٹیجک نقصان پہنچا ہو گا لیکن جب تک سیکورٹی فورسز اور افواج پاکستان ملک میں موجود ان دہشت گردوں   پر قابو نہیں پاتیں تب تک حسن سجنا جیسے خطرناک دہشت گرد پیدا ہوتے رہیں گے-

Facebook Comments