• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • غالب کا شعر،نظم ستیہ پال آنند کی اور شمس الرحمن فا روقی کی حاشیہ آرائی

غالب کا شعر،نظم ستیہ پال آنند کی اور شمس الرحمن فا روقی کی حاشیہ آرائی

مر زا غالب کا شعر
یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آ ٓرائیاں
لیکن اب نقش و نگار ِ طاق ِ نسیاں ہو گئیں

ستیہ پال آنند کی نظم
یاد ، یعنی حافظہ، رفت و گذشت و بے خودی
یہ سبھی کچھ تھا اگر، تو یہ بتائیں، مہرباں
کیسے اب یہ طاق نسیاں کی سجاوٹ ہو گئیں؟
کیا نہیں ہے یہ خلاصہ مصرع ِ اولیٰ کی ضد؟
مصرع اولیٰ و ثانی کیا نہیں بے قاعدہ؟

مرزا غالب
کیا کہا؟ ان دو مصارع میں تمیز و فرق ہے؟

ستیہ پال آ ٓنند
ہاں، جناب ِ من، اجازت ہو تو میں واضح کروں؟

مرزا غالب
ہاں کہو، دیکھیں تمہاری حاشیہ ٓرائی بھی

ستیہ پال آ ٓنند
مصرع ِ اولیٰ تو تھا مربوط ماضی سے، مگر
مصرع ثانی بھی ماضی کا ہی قصہ ہے، حضور
اس لیے’’لیکنـ ‘‘کا استعمال کیا بے جا نہیں؟ٰ
طاق نسیاں بھی قدامت کی علامت ہے ، جناب
دونوں کی طرز و روش میں کوئی کج فہمی نہیں

مرزا غالب
مصرع ِ ثانی میں ’’ـابـ ـ‘‘اعلانیہ ہے حال کا
مصرع اولیٰ توپہلے سے ہی تھاماضی کا قول
ایک ہے ماضی بعید اور دوسرا ماضی قریب
اب سمجھ میں آیا کچھ ؟ اے ستیہ پال آنند، بول

ستیہ پال آنند
اس طرح اثبات سے چل کر نفی تک کا سفر
ایک ہی لمحے میں طے کرنا مری فطرت نہیں
اب کہاں ہیں طاق نسیاں کے سبھی نقش و نگار؟
طاق ِنسیاں باقیات اپنی تو پہلے کھو چھکا
حافظہ ؟ از یاد رفتہ، بھولا بسراہو چکا
اور اس کے ساتھ ’’رنگا رنگ بزم آرائیاں‘‘
اب تو سب کچھ غیر اغلب، یاد سے گم ہو چکا
کچھ اگر باقی ہے تواک واہمہ، مبہم خیال

مرزا غالب
تم نہیں سمجھو گے یہ پیچیدہ نکتہ، ستیہ پال
جیسے سمجھو ہو ، عزیزم، من وعن سمجھو اسے
پر مجھے لغزش کا یا بطلان کا طعنہ نہ دو

شمس الرحمن فا روقی کی حاشیہ آرائی
اس طویل مکتوب سے ذاتی، شخصی او ر اس شعر سے غیر متعلق مواد مِنہا کر دیا گیا۔
کسی بھی شعرمیں تکرار ِ ناروا کا ہونا ایک عیب سمجھا جاتا ہے۔اس شعر میں یہ تکرار بالکل نمایاں ہے لیکن شاید آپ بھی دیگر شارحین کی مانند شعر کی ظاہری خوبصورتی میں اتنے محو ہوئے کہ اس طرف توجہ مبذول نہ کر سکے۔مصرع ثانی، متداول شرح کی روشنی میں، مصرع اولیٰ کی ضد ہے۔ جب ایک بار یہ کہہ دیا گیا کہ ہم کو رنگا رنگ بزم آرائیاں “یاد تھیں”، تویہ کہنا کہ “اب نقش و نگار طاق نسیاں ہو گئیں “(یعنی بھول گئیں) گویا ایک ہی سانس میں خود کو ر د کرنا ہے۔ باہم متناقص ، ایک دوسرے کی نفی کرنے والے الفاظ عدم توافق کی نشاندہی کرتے ہیں۔میں نے “تفہیم غالب” میں تحریر کیا تھا کہ کسی بھی شعر میں، جس میں گنتی کے الفاظ ہوتے ہیں، ہر حرف قیمتی اور معنی خیز ہوتا ہے، اس میں تکرار کو داخلہ دینا فن کا خون کرنا ہے۔ بہر حال شاعر اپنے دفاع میں کہہ سکتا ہے کہ اس نے “بھول گئیں” نہیں کہا، “نقش و نگا رِ طاق نسیاں” کہا ہے۔ “بھول جانا” یکسر غائب ہو جانا ہے، جب کہ “طاق نسیاں” پر کسی چیز کا ہونا اسے کلیتاً غائب نہیں کرتا۔ فارسی میں اسے “بر طاق نسیاں زدن ” یا “بر طاق نسیاں نہادن ” کہا جاتا ہے اور یہ ایک عام محاورہ ہے۔

آپ کی نظم کے یہ مصارع اس موضوع پر دال ہیں
طاق ِنسیاں باقیات اپنی تو پہلے کھو چھکا
حافظہ ؟ از یاد رفتہ، بھولا بسراہو چکا
اور اس کے ساتھ ’’رنگا رنگ بزم آرائیاں‘
اب تو سب کچھ غیر اغلب، یاد سے گم ہو چکا
کچھ اگر باقی ہے تواک واہمہ، مبہم خیال

Advertisements
julia rana solicitors

شاعر کے دفاع میں یہ بات بخوبی کہی جا سکتی ہے کہ طاق ِ نسیان کے نقش و نگار “یادیں” نہیں ہیں،” یادوں کی یادیں” ہیں۔یعنی یہاں تک تو اب بھی حافظے میں ہے کہ کچھ یاد تھا، جس کی یاد (یعنی یاد کی یاد) اب بھی تازہ ہے۔
آپ کی نظم ایک کامیاب کوشش ہے ۔۔۔

Facebook Comments