• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • آفات ارض و سماء: خداؤں کی کارستانیاں اور انسانی کمالات۔۔قیصر عباس فاطمی

آفات ارض و سماء: خداؤں کی کارستانیاں اور انسانی کمالات۔۔قیصر عباس فاطمی

قدرت کے حسین اور دلچسپ مناظر میں کچھ واقعات جو کبھی کبھار رونما ہوں، یا جو عام طور پرانسانوں کے لیے منفی نتائج کا سبب بنیں، اور انسان ان کی علت کو جاننے میں علمی طور پر ناکام ہو جائے، اوہام پرستی اور لوک کہانیوں کا سامان پیدا کر دیتے ہیں۔ چاند پر بوڑھی عورت کا چرخا کاٹنا اور زمین کا بیل کے سینگھوں پر قائم ہونا آج بھی پاکستان کے کچھ علاقوں میں بچوں کو کہانیوں کے طور پر سنایا جاتا ہے۔ میں نے خود دو دہائیاں قبل اپنے بچپن میں یہ کہانیاں کئی زبانوں سے سنیں۔ اور یہ بھی کہ زمین انسانوں کے گناہوں سے بوجھل ہو جائے تو “جھٹک” کر خود کا بوجھ اتار دیتی ہے۔ اس طرح زلزلے بپا ہوتے ہیں۔ علم و آگہی کی دوڑ میں جس رفتار سے ہم آگے بڑھ رہے ہیں، تو یہ “سمجھ بوجھ” بھی کچھ کم نہیں۔ کیونکہ زمانہ قدیم میں تو اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز تاویلات ہوتی رہی ہیں۔

دریاؤں کو خوش کرنے کے لیے غلے دریابرد کرنا، آسمانی بجلی کو فصلیں پیش کرنا، قربانیاں وغیرہ۔ اس سب کے پیچھے ایک ہی سوچ تھی، یعنی کوئی “غیر مرئی” طاقت/طاقتیں ہیں جو یہ سب کارستانیاں کرتی ہیں۔ کبھی انسانوں پر غصہ ہو کر اور کبھی آپسی لڑائی میں۔ قدیم یونان اور قدیم روما کے دیوی دیوتاؤں کی تاریخ ایسی کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ جیسا کہ یونانی دیوتا زیوس آسمان کا دیوتا سمجھا جاتا تھا۔ اور آفات و نعمات سماوی کے لیے وہی   ذمہ دار تھا۔ پانی کا دیوتا پوسائیڈن۔ یعنی سیلاب آئے تو پوسائیڈن سے رجوع کرو۔ یہاں تک کہ شراب و نشاط اور جنگ و جدل، امن و سکون اور نیند تک کے لیے  ذمہ دار دیوی دیوتاؤں کو ہی سمجھا جاتا تھا۔ قدیم روم میں بھی اسی طرح دیوی دیوتاؤں کا  ذکر ہے البتہ ان کے نام الگ ہیں۔

اسی طرح ہندو کتب میں موجودبہت ہی دلچسپ واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ چاند اور سورج گرہن کے بارے ہیں مہابھارت میں لکھا ہے کہ دیوتا وشنوجو کہ اچھائی کا خدا ہے اورتمام آسمانی چیزوں کا خالق ہے، اس نے چاند اور سورج کو نفع بخش بنایا، اس طرح آسمانوں میں موجود تمام اشیاء کو خلق کیا اور ایک خاص حصہ برائی کی طاقتوں کو بھی نیک شگونی کے طور پر عطا کیا۔ اب برائی کا دیوتا رہو کبھی خداؤں کی کمین گاہ میں جھانکتا ہے تو سورج اور چاند اس کی مخبری کرتے ہیں۔ رہوغصے میں آسمانی اشیاء کو نگل جاتا ہے اور وشنو اس کا سر قلم کر دیتا ہے۔ ان اشیاء کے اخراج کا سورج اور چاند کے چہرے پر پڑنا ان کی روشنی مدھم کر دیتا ہے جسے گرہن کہا جاتا ہے۔ کیونکہ رہوبھی دیوتا ہے اور ابدی ہے، اس لیے وہ مرتا نہیں اور یہ سب دوبارہ بھی ہوتا ہے۔

چاند اور سورج گرہن کے حوالے سے جنوبی امریکہ میں بسنے والے کچھ قبائل (جیسا کہ تُوبا) کا خیال ہے کہ بدروحیں زمین کے مدار سے نکل کر اس کو گھیر لیتیں ہیں جس کی وجہ سے ایک سرخی (خون آلود) تہہ بن جاتی ہے اور سورج اور چاند سرخ نظر آنے لگتے ہیں۔ یہ قبائل اب بھی موجود ہیں اور آج بھی سورج گرہن یا چاند گرہن میں مخصوص عبادات میں مصروف ہو جاتے ہیں تاکہ ان بدروحوں کو بھگایا جا سکے۔ بعض تو ایسے ہیں کہ کتوں کو سورج یا چاند کی طرف مڑ کر بھونکنے پر مامور کر دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں بدروحیں کتوں سے ڈرتی ہیں اور بھاگ جاتی ہیں۔

چاند اور سورج گرہن کے علاوہ زلزلوں کے حوالے سے ایک خوبصورت کہانی ماؤریوں کے ہاں ملتی ہے۔ ماؤری نیوزی لینڈ میں آباد ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ زلزلوں کا خدا رواموکو ہے، جس کا باپ رنگی آسمانوں کا خدا اور ماں پاپا زمین کی دیوی ہے۔ جب رنگی اور پاپا اپنے بچوں سے الگ ہوئے تو پاپا سخت روئی جس سے روئے زمین پرہر طرف سیلاب آگئے۔ رنگی کے بچوں نے اس کا غم کم کرنے کے لیے اسے منہ نیچے کی طرف رکھنے کو کہا، تا کہ رنگی اور پاپا ایک دوسرے کے غم نہ دیکھ سکیں۔ اس وقت رواموکو پاپا کی کوکھ میں تھا۔رواموکو کی ماں کے پیٹ میں حرکت کے باعث ہی زلزلے آتے ہیں۔

ظاہر ہے یہ کہانیاں اب مذاہب کا روپ دھار چکی ہیں اور ان کا اثر اس قدر زیادہ ہے کہ اچھے بھلے  اذہان توہم پرستی کی زد میں آجاتے ہیں۔ اور ان پر تنقید کرنا یا سوال اٹھانا بعض معاشروں میں جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ بہرحال ان کہانیوں کا انسانی زندگی پر کیا اثر پڑتا ہے، یہ سمجھنا بہت ضروری ہے۔ آج تک جتنی بھی ترقی ہوئی اس کے پیچھے ایک مسلسل سوچ کا عمل ہے۔ اوہام سے دور حقیقت پر مبنی منطقی سوچ۔ اور یہ سوچ تب سے ہی موجود ہے جب سے اوہام نے جنم لیا۔

یہی وجہ ہے کہ جہاں روم اور یونان میں توہم پرست افکار ملتے ہیں وہیں پروٹیگورس، اپیکورس، پلوٹو، ایریسٹوٹل اور سیسرو جیسے نام بھی ملتے ہیں۔ جنہوں نے انسانی اذہان کو فطرتی مظاہر کو سمجھنے کے لیے نئی سمت عطا کی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سوچ بچاراورعلم و آگہی کا یہ سفر دو متوازی راستوں پر تب سے ہی ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ طریقے ماوراء فطرت طاقتوں سے تعلق کےبھی بدلتے رہے اور مظاہر فطرت کو سمجھنے، انسانی ترقی اور بہبود کے لیے ان کے استعمال اور ان کے منفی اثرات کو روکنے کے بھی۔ آج چاند گرہن اور زلزلہ دونوں رونما ہوئے۔ کتنے ہی لوگوں نے چاند گرہن کی نحوست کو روکنے کے لیے عبادات و احتیاطیں کی ہوں گی، اورکتنے لوگوں نے جدید مشینوں کے  ذریعے اس پر اپنی تحقیق کو مزید آگے بڑھایا ہو گا۔ کتنے لوگ زلزلے کے جھٹکوں سے خوف کھا کر اپنے اپنے خداؤں کو پکار اٹھے ہوں گے اور کتنوں نے اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کو مدنظر رکھ کر مزید حفاظتی اقدامات کے  بارے میں سوچا ہو گا۔ آج سے گیارہ سال پہلے میں پاکستان میں ہونے والے زلزلےکے تباہ کن حالات کا منظر دیکھ چکا ہوں۔ اور ان جھٹکوں پر خدا سے مدد بھی مانگتا رہا ہوں۔ آج جب زلزلہ ہوا تو میں سو رہا تھا، اور اسی جھٹکے سے میری آنکھ بھی کھل گئی۔ پتہ نہیں کیوں آج خدا یاد نہیں آیا بلکہ توجہ فوراً عمارت کی تعمیر پر گئی۔ اور خود کو محفوظ سمجھنے لگا۔

Facebook Comments