اسلام اور موسیقی

انسان اس دنیا میں کچھ ضرورتیں اور تقاضے رکھتا ہے، جنہیں پورا کرنا لازم اور ناگزیر ہے جنہیں "فطرت " یا "فطری تقاضے "کہنا مناسب ہوگا، لیکن یہاں بہت اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ ان فطری تقاضوں کو کس طرح پورا کیا جائے؟ آیا ان کی تسکین کے لیے کچھ حدود وقیود اور قواعد وضوابط ہیں یا نہیں؟ یا انسان بالکل آزاد ہے کہ جب کوئی تقاضا ہو، جس طرح چاہے اسے پورا کرے؟

آپ ان تقاضوں کے بارے میں جتنا غور وفکر کریں گے، اسی قدر یہ بات زیادہ واضح ہوجائے گی کہ انہیں پورا کرنے کے لیے کچھ حدبندیاں اور قیود بھی ہیں، جن کا لحاظ رکھنا ہر فرد کے لیے ضروری ہے، اگر ان کا لحاظ نہ کیا جائے تو بسا اوقات وہ نقصان فرد کے ساتھ معاشرے کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہوتا ہے،
اسی تمہید کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنے فطری تقاضوں کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر اور اس کے احکام کی پاسداری کرنا ہوگی۔

انہی فطری تقاضوں میں انسان کا تفریحی تقاضا اس کو ایسی چیزوں کی طرف کھینچتا ہے جو اس کی طبیعت کو نشاط و سرور بخشیں، انسان اس کے لیے رقص وسرود اور موسیقی کی آڑ لیتا ہے۔ اسلام نے انسان کے تفریحی تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی اجازت دی ہے لیکن صرف تعمیری تفریحات، تخریبی تفریحات کی قطعا اجازت نہیں دی، رقص وسرود اور غنا و موسیقی بھی درحقیت ان تفریحات میں سے ہیں جو تخریبی ہیں، اور فرد، معاشرے اور دین ہر ایک کے لیے مضر ہیں اور اسلام کی بنیادی تعلیمات سے ٹکرانے کی وجہ سے حرام ہیں۔

مفاسد ومضرات پر بحث کرنے سے قبل ہم یہ جان لیں کہ "احکام کا مدار حکم پر ہوتا ہے، نہ کہ حکمت وعلت پر "اس کی تشریح ہم یوں کر سکتے ہیں کہ حکومت اگر کوئی قانون بناتی ہے ، عوام کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اس کی پوری پاسداری کریں چاہے حکمت وعلت سے واقف ہوں یا نہیں۔ یہی معاملہ شریعت الہیہ کا ہے، ہروہ شخص جو کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا اور اس نے اللہ تعالی کو اپنا معبود اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول مان لیا، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کےاحکامات کی بے چوں وچراں پابندی کرے۔

اب ہم کچھ ایسے مفاسد ومضرات کو ذکر کریں گے جو غنا اور مزامیر سے اشتغال رکھنے سے پیدا ہوجاتے ہیں۔
انسان کو رب العزت نے ایک عظیم مقصد کے تحت پیدا کیا ہے، جسکی پردہ کشائی قران مجید نے ان الفاظ میں کی "اور میں نے جنات اور انسان کو پیدا ہی اس غرض سے کیا ہے کہ میری عبادت کیا کریں " لیکن انسان جب دنیا کی ان سرود وموسیقی کی لذتوں میں گم ہوجاتا ہے، تو وہ یہ راز بھلا بیٹھتا ہے کہ اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اسے دنیا میں کیوں پیدا کیا گیا؟ اس کی قوتوں اور صلاحیتوں کا مصرف کیا ہے؟ اسے مرنا بھی ہے یا نہیں؟ مرنے کے بعد اس کا انجام کیا ہوگا؟

سرود وموسیقی کا سب سے بڑا نقصان یہی ہے کہ وہ انسانوں کو مادی جسم کی لذتوں میں فنا کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے انسان جادہ مستقیم سے دور ہوتا جاتا ہے.
غنا اور مزامیر سے نفاق کا پیدا ہونا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام سے واضح ہے آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
"الغناء ینبت النفاق فی القلب "
گانا دل میں نقاق پیدا کر دیتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ موسیقی کا فحاشی، عریانی، شہوانیت کو زیادہ کرنا کوئی پوشیدہ نہیں۔ قران مجید کی ایسی مختلف آیات ہیں، جن سے گانے بجانے کی حرمت اور ممانعت بڑے واشگاف الفاظ سے معلوم ہوتی ہے۔
پہلے ہم مختصرا ان آیات کو ذکر کرتے ہیں پھر ان آیات کے متعلق مفسرین کی رائے دیکھتے ہیں۔
1.سورہ لقمان میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
"وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ"
2:سورہ بنی اسرائیل میں رب عز وجل کا فرمان ہے: "
وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُم بِصَوْتِكَ "
3.سورہ النجم میں فرمان باری تعالی ہے:
"أَفَمِنْ هَذَا الْحَدِيثِ تَعْجَبُونَ (59) وَتَضْحَكُونَ وَلَا تَبْكُونَ (60) وَأَنْتُمْ سَامِدُونَ "
4.اسی طرح اللہ تعالی نے عباد الرحمن کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
"والذین لا یشھدون الزور"
ان تمام آیات کی تفاسیر سے مفسرین نے " غنا ومزامیر" کو مطلقا حرام قرار دیا ہے۔
چنانچہ پہلی آیت کے متعلق حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے "لھو الحدیث "کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:
"ھو واللہ الغناء"بخدا اس سے مراد گانا ہی ہے۔
دوسری آیت کے متعلق حضرت مجاھد رح نے فرمایا:
"صوت سے مراد گانا بجانا، لہو ولعب ، فضول اور بے کار قسم کے کام ہیں ".
تیسری آیت میں "سمود "سے امام ابو عبیدہ اور عکرمہ رح نے گانا مراد لیا ہے۔
چوتھی آیت میں حضرت محمد بن الحنفیہ اور مجاھد رح نے "الزور " کی تفسیر غنا سے کی ہے۔
غنا اور مزامیر کی متعلق احادیث کی ایک بڑی تعداد ہے جو حرمت پر دلالت کرتی ہے.
چنانچہ حضرت علی رضہ اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا رشاد ہے کہ " میں بانسریاں(آلات موسیقی) توڑنے کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ "
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ "گانا دل میں اسی طرح نفاق پیدا کرتا ہے جس طرح پانی کھیتی اگاتا ہے۔ "
اسی طرح کا مفہوم بیشتر روایات میں آیا ہے کہ " لوگ شراب کو حلال سمجھیں گے، مغنیہ عورتوں کے عادی ہوجائیں گے، باجے تاشے رواج پکڑ جائیں گے، "تو لوگوں کے چہرے مسخ ہوجائیں گے، طرح طرح کے عذاب ان پر مسلط کیے جائیں گے۔
اسی وجہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اسے ناجائز کہا اور ناپسند کیا،
لیکن صرف ایک روایت جس میں جس میں "جاریتان تغنیتان " کے الفاظ آتے ہیں جس سے موسیقی کی اباحت کے قائلین جواز کا استدلال کرتے ہیں، بحث کو آگے بڑھانے سے قبل ہم اس حدیث کا مفصل جواب ذکر کرتے ہیں۔
حافظ ابن حجر رح اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
"حضرت عائشہ رضہ عنہا نے ان لڑکیوں کے بارے میں تصریح کردی کہ وہ دونوں پیشہ ور گانے والیاں نہیں تھیں……شادی بیاہ جیسے خوشی کے مواقع پر دف بجانے کی اباحت سے یہ لازم نہیں آتا کہ دیگر آلات موسیقی جیسے عود وغیرہ …بجانا بھی مباح ہو…رہا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کپڑا اوڑھ لینا،تو دراصل اس طریقہ سے گانا سننے سے اعراض مقصود تھا،اس لیے نہ سننا ہی آپ کے مقام کا تقاضا تھا، البتہ نکیر نہ کرنا صرف اس نوعیت کے غنا کے جواز پر دلالت کرتا ہے، جسے آپ نے برقرار رکھا، اس لیے آپ کسی برائی کو باقی نہ رہنے دیتے تھے، "
باقی صدیق اکبر رضہ نے جب غنا کو شیطان کا باجا کہا، تو آپ نے ان الفاظ کو برقرار رکھا ، آپ علیہ السلام نے صدیق رض سے یہ ارشاد فرمایا کہ ابوبکر انہیں منع مت کرو اس لیے کہ آج عید کا دن ہے،
خلاصہ بحث یہ ہے کہ اس حدیث سے جواز کی دلیل نہیں لی جاسکتی، دونوں بچیاں، کمسن، غیر مکلف تھیں اور کوئی گانا نہیں، جنگی گیت گارہی تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ان قرانی آیات احادیث، اوراقوال صحابہ پر غور کرنے سے یہ بات واضح اور روشن ہوتی ہے کہ موسیقی حرام اور ناجائز ہے، جس مقام جس کیفیت اور مقدار کا جواز معلوم ہوتا ہے، اس کو ایک حد، کیفیت، مقدار تک برقرار رکھا جائے، اس سے آگے خواہشات نفسانی کی تکمیل کے لیے جواز کا بہانا بنا کر نفسانی ارادوں کو تو مکمل کیا جاسکتا ہے لیکن شریعت کاحکم تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔
وما توفیقی الا باللہ…….

Facebook Comments

نعیم الدین
لکھنے پڑہنے والا ایک ادنی طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply