شر یک حیا ت یا سراب

شر یک حیا ت یا سراب
عاصمہ روشن
زند گی کا سب سے خو بصو رت لفظ اور رشتہ جس کے سا تھ آ پ کا ہر دکھ سکھ جڑ جا تا ہے، جو یہ احسا س دلا تا ہے کہ آ پ اس دنیا میں سب سے خو بصورت اور اہم ہیں۔۔مگر کبھی کبھی یہ لفظ اور رشتہ آپ کو جیتے جی ما ر دیتا ہے۔دنیا کی نظر وں میں تو آپ کو غلط ثا بت کر دیتا ہے مگر بے قصو ر ہو تے ہو ئے بھی ہم اپنی نظر وں میں گر جا تے ہیں۔۔چا ہ کر بھی آپ اپنی صفا ئی کسی کو نہیں دے سکتے۔۔کیو نکہ کہ مر دوں کے اس معا شر ے میں ہمیشہ عو رت کو ہی غلط سمجھا جا تا رہا ہے۔بچپن سے ہی یہ سنتے آ ر ہے ہیں کہ مر د کے بغیر عو رت کا کو ئی و جو د نہیں ۔عو رت مر د کے بغیر اد ھو ری ہے مر د عورت کو سایہ ہے و غیرہ وغیرہ۔۔مگر لڑ کپن کے اس دور میں ہمیں یہ سب با تیں سمجھ نہیں آ تی تھیں سو ہم ایک کا ن سے سن کے دو سر ے سے ا ڑ ا دیتے تھے۔۔وقت کب پر لگا کر ا ڑ گیا پتہ ہی نہ چلا۔۔ہنستے کھیلتے بچپن کو پیچھے چھو ڑ ہم نےجو انی کی سیڑ ھی پرقد م رکھتے ہوئے کالج میں داخلہ لے لیا –
کا لج کی نئی ز ند گی شر وع ہو نے کی خو شی بھی تھی۔۔نئے دو ست بن گئے جو بہت خو ش طبیعت اور زند گی کو جینے والے تھے۔۔مگر پر انے دو ستو ں کی یا د بھی سا تھ تھی۔۔دن ہفتے، ہفتے مہینے میں اور مہینے سا ل بن کر گزر گئے اور ہم امتحا ن دے کر گھر بیٹھ گئے۔۔ گئے دنو ں کی بیزاری کے بعد آ خر وہ دن آ گیا جس کا ہم سب کو انتظا ر تھا۔۔ امتحان شا ندار نمبر وں سے پا س کر لینے کے بعد ہم نے یو نیو رسٹی میں دا خلے کا سوچا۔۔ بھا ئی نے ہما را دا خلہ یو نیو رسٹی میں کر وا دیا۔
یو نیو رسٹی کے پہلے دن ہما ری کیفیت کا لج وا لی نہیں تھی کیو نکہ ادھر کا لج کے سب دو ست میر ے ساتھ تھے۔۔یہا ں پر بھی ہما ری طبیعت الھڑ سی ر ہی ۔۔ہنسی مذاق میں روزو شب گزرنے لگے۔۔روز صبح گھر سے نکلتے امی مجھ پر کچھ پڑ کر پھو نکتی اور کہتی کہ اللہ بر ی نظر اور ہر بلاسے بچا ئے۔امین۔۔اور میں دل میں ہنستی کہ میں تو خو د ایک بلا ہو ں اور کہتی کہ خدا مجھ سے لو گو ں کو بچا ئے۔۔کیو نکہ کہ یہ عظیم رائے میرے دو ستو ں کی میر ے با رے میں تھی۔۔اور میں اس رائے سے اتفا قکرتی تھی۔۔بھا گ دو ڑ مو ج مستی میں کب یو نیو ورسٹی کی زندگی بھی ختم ہو ئی پتہ ہی نہ چلا۔۔بہت سا رے اچھے دو ستو ں کا سا تھ چھو ٹ گیا۔۔اور ہم اپنی زند گی میں شر یک حیا ت کے آنے کاخیا ل لیے آگے نکل گئے۔۔
یو نیو رسٹی سے فا رغ ہو نے کے بعد بہت سا ری لڑ کیو ں کی طر ح ہما رے سر پر بھی نو کری کرنے کا بھوت سوار تھا۔جبکہ امی کو ہما ری شا دی کی فکر کھا ئے جا رہی تھی۔ کیونکہ میر ی دونوں بہنو ں کی شا دی بھی چھوٹی عمر میں ہو گئی تھی اور امی چا ہتی تھی کہ یہی سزامجھے بھی دی جا ئے مگر میں بھی ایک نمبر کی ڈھیٹ تھی مجا ل ہے جو امی کی ان با توں پر دھیان دیتی ۔اس لیے امی اٹھتے بیٹھے بس یہی کہتی کہ اس عمر میں تو ہما رے 3 بچے ہو گئے تھے ۔۔مگر یہا ں کس کو پر واہ تھی بچو ں کی ،یہا ں تو بس نو کر ی کر نے کا جنون تھا۔بھا ئی نے ہمیشہ کی طر ح ادھر بھی میرا ساتھ دیا۔۔اور مجھے ایک ادارے میں جلد ہی نو کر ی مل گئی۔
نوکری کا پہلا دن کا فی اچھا ر ہا۔۔لو گو ں سے تعا رف کے بعد مجھے کا م سمجھا یا گیا کہ کر نا کیا ہے۔کا م تھو ڑا مشکل تھا مگر مجھے کر نا تھا کیو نکہ بہت اعتما د سے گھر سے نکلی تھی کہ میں ہر کا م کر سکتی ہوں۔۔شام کو گھر داخل ہو تے ہی امی نے میر ے چہر ے سے میر ی تھکن کا اندا زہ لگا لیا تھا۔۔منہ سے تو کچھ نہیں بو لی مگر میں جا نتی تھی کہ سب بہن بھا ئیوں میں چھو ٹی ہو نے کے نا تے میں امی کو بہت عزیز تھی اور میر ی خو شی کی خا طر ہی انھو ں نے مجھے نو کر ی کرنے کی اجا زت دے دی تھی۔۔میں تکیے پہ سر ر کھے آ نکھیں مو ندے لیٹی تھی کہ امی کی آ واز کا نو ں میں پڑی کہ چا ئے پی لو اس وقت مجھے اپنی امی پر بہت پیا ر آ یا اور میں ان کے گلے لگ گئی۔۔دن بھر آفس میں جو ہو ا سب امی اور بھا ئی کو بتا یا۔۔شا م کا کھا نا کھا کر میں جلد ی سو نے کے لیے لیٹ گئی کیو نکہ صبح جلد ی آ فس جا نا تھا۔اتنے سالو ں میں بہت کچھ بد لا تھا مگر ایک با ت نہیں بد لی تھی وہ تھی میر ی امی کا روز صبح مجھ پر کچھ پڑھ کر پھو نکنا اور کہنا کہ خدا ہر بلا سے محفوظ ر کھے۔ یہ میر ی ما ں کی دعا ہی تھی جو میں اب تک ہر بلا سے محفو ظ تھی۔
وقت اتنی تیز ی سے گز ر رہا تھا کہ ایک با پھر میر ی امی کو میر ی شا دی کی فکر ستا نے لگی اور اس با ر انھو ں نےمیری ایک نہ سنی اور مجھے اپنی زند گی کا واسطہ دے دیا کہ شا دی کر لو کیو نکہ کہ اب مجھے اپنی زند گی کا کو ئی بھر وسہ نہیں اور اس با ر میں نے ہا رمانتے ہوئے ہاں کر دی ۔گھر والو ں نے بہت رشتے دکھا ئے کچھ خا ندا ن سے کچھ با ہر سے مگر میں ایک شر ط پر میں مان گئی تھی کہ میر ا شر یک حیات پڑھا لکھا ہو،اور خا ندان میں ا تنا پڑھا لکھا لڑکا کو ئی نہیں تھا ۔امی کا خیا ل اپنے بھا نجے کا تھا مگر میر ی شر ط کے بعد وہ چپ ہو گئی تھی مگر پھر بھی بہت خو ش تھی شکر ہے میں ما ن تو گئی۔یونہی میرے لیے رشتہ د یکھتے دیکھتے 6ما ہ کا عر صہ بیت گیا مگر گھر والوں کو میری پسند کا پڑ ھا لکھا شر یک حیا ت نہ مل سکا۔اب تو امی چپ ہو گئی تھی اور پہلے سے زیا دہ عبا دت میں مصر وف ہو گئی تھی۔اور ان کے و ظیفوں کا دو رانیہ بھی بڑ ھ گیا تھا۔اس دوران مجھے اچھی جگہ نو کری مل گئی اور مجھے دو سرے شہر جا نا پڑا۔
نئے آ فس میں پہلا دن بہت تنگ گزرا ایک تو اپنوں سے دور، دو سرا رمضا ن کا مہینہ تھا۔رمضا ن میں آفس ٹا ئم بہت کم تھا۔سوزیا دہ وقت عبا دت میں گز رتا ۔میں نے کبھی خو د کے لیے کچھ نہیں مانگا کیونکہ میر ی ما ں تھی جو ہر وقت بس میر ے لیے دعا گو تھی ۔میں دعا کے لیے ہا تھ اٹھا تی تو بس یہی کہتی کہ اللہ وہ کر نا جو میرے لیے بہتر ہو اور میر ی عز ت کی حفا ظت کرنا ۔ یہ امی کی دعا ؤں کا ہی نتیجہ تھا کہ ایک دن میر ے ایک کو لیگ نے کہا کہ اگر مجھے اعتراض نہ ہو تو وہ اپنے گھر والو ں کو میرے گھر بھیجنا چا ہتا ہے۔مجھے کو ئی اعتر ض نہیں تھا کیو نکہ بظا ہر وہ ہر لحاظ سے اچھےتھے۔پڑھے لکھے عو رتوں کی عز ت کرنے والے ان میں وہ سا ری خو بیا ں تھی جو میں نے اپنے شر یک حیا ت کے لیے سوچ ر کھی تھیں، اور سب سے بڑ ی با ت کہ گزشتہ 2سا ل سے مجھے جا نتے تھے کہ میں کیسی لڑ کی ہو ں اور کن عا دا ت کی ما لک ہو ں ۔میں نے انھیں کہا کہ آپ اپنے گھروالوں کو بھیج دیں با قی سب نصیب کی بات ہے اور جو فیصلہ میرے گھر والے کرینگے مجھے منظو ر ہو گا۔رشتہ گھر آیا تو سب کو بہت پسند آیا اور پوچھ گچھ کے بعد گھر والوں نے ہا ں کر دی۔میں تو خو ش تھی کیونکہ وہ بہت اچھے تھے مگر مجھ سے بھی زیا دہ میری امی خو ش تھی۔ان لوگو ں نے بھی دیر نہ کی اور ایک ہفتے کے اندر ہما رانکا ح ہو گیا ۔میں نے بہت شو ر ڈالا کہ اتنی جلد ی کیا ہے مگر میر ی کسی نے ایک نہ سنی اور ایک سال بعد ر خصتی کی تا ریخ طے ہو گئی۔میں بہت سر شار تھی،کہ میر ی ما ں کی دعا ئیں رنگ لا ئی ہیں اور سب کچھ پلک جھپکتے ہو گیا۔سب بہت خو ش ایک دوسر ے کو مبا رک با د دے رہے تھے۔
نکاح کے بعد بڑ ا مسئلہ یہ تھا کہ ہم ایک ہی آ فس میں کام کرتے تھے۔اور آتے جا تے میر ے شر یک حیا ت مجھے کو ئی نہ کو ئی ایسی با ت کہہ دیتے تھے جس سے میر ے کا نوں کی لو تک سر خ ہو جا تی تھی۔میر ی کو شش ہو تی کہ ان سے کم سے کم سامناہو مگر ایک آ فس میں رہتے یہ ممکن نہ تھا۔وہ ایک مہینے بعد میر ے بھا ئی کے پا س گئے اور کہا کہ آپ لو گ رخصتی کر دیں یہ میر ی خواہش ہے۔بھا ئی چپ تھے کچھ نہ بو لے کہا کہ مشورہ کر کے جو اب دیں گئے۔۔انھوں نے ہم سب کو مشکل میں ڈال دیا تھا کہ ایک دم سے سب کیسے ہو کیو نکہ وہ 15 دن کے اندر رخصتی چا ہتے تھے۔۔سوائے میری امی کے وہ خوش تھی کہ اگر وہ چا ہتا ہے تو کر دو،بس پھر کیا میری کون سنتا سب نے ملکر شا دی کی تا ریخ طے کر دی جو 12 دن بعد تھی۔میں خوش تو تھی مگر پر یشا ن بھی کہ آخر ایسا کیا ہو گیا جو میر ے شر یک حیا ت ا تنی جلد ی ر خصتی چا ہ رہے ہیں۔مگر دل میں اٹھتے وسوسوں کو دبا یا اور اللہ سے بہتر ی کی د عا کی۔سب شا دی کی تیا ریوں میں مگن ہو گئے۔اور میں واپس آفس آ گئی تا کہ دوبا رہ مکمل طر یقے سے چھٹی لے کر جاؤں۔ ایک ہفتہ گزارنے کے بعد میں 20 دن کی چھٹی لیکرگھر آ گئی۔شا دی کی تیا ریا ں زوروشور سے شروع تھیں ۔خر یدو فروخت کا سلسلہ جا ری تھا کون کب آ ر ہا تھا کب جا رہا تھا کچھ پتہ نہیں لگ ر ہا تھا۔
اسی گہما گہمی میں آ خر مہندی کا دن آ پہنچا۔۔دوست کزن سب خو شی سے نا چ گا ر ہے تھے کیو نکہ میں سب کی لا ڈلی تھی۔۔میری نظر جب امی پر پڑ ی تو وہ ایک کو نے میں بیٹھی رو ر ہی تھیں ،میں نے سو چا ہر وقت تو میری شا دی کی دعا ما نگتی تھیں اور آج جب میر ی مہند ی ہے تو رو کیوں رہی ہیں۔۔ میں امی کے پاس گئی اور ان کے گلے لگ کے کب سے روکے ہو ئے آنسو وں کو بہا دیا۔ہمارے رونے سے ما حو ل ایک دم اداس ہو گیا۔مگر پھر میر بہنوں اور خا لہ نے ہمیں الگ کیا چپ کروایا اور ایک با ر پھر ڈ ھو لک کی تھا پ سے سا را گھر گونجنے لگا۔۔جہاں امی اور میں رو رہے تھے تو وہا ں دوسری طر ف میر ا بھا ئی رو رہا تھا جسے شا ہد امی سے بھیزیا دہ مجھ سے الگ ہو نے کا دکھ تھا۔میر ے بھا ئی نے کبھی مجھے با پ کی کمی کا احسا س نہیں ہو نے دیا ۔۔رو تے روتے سہیلیوں سے ہنسی مذاق کرتے صبح ہو گئی ۔
آج کا دن میر ی زندگی کا بہت اہم دن تھا۔جوں ہی سب لو گ نا شتے سے فا رغ ہو ئے تو گھر میں مہمانوں کا تا نا بند ھنا شر وع ہو گیا۔۔مجھے 11 بجے بیوٹی پارلر بھیج دیا گیا جہا ں سے مجھے دن 1 بجے واپس آنا تھا۔۔اپنی دو دوستوں کے ساتھ میں پا رلر آ گئی ۔پھر کچھ دیر بعد بھا ئی کی کا ل آئی کہ میر ے شر یک حیا ت میرے ساتھ سٹو ڈ یو میں فو ٹو شو ٹ کر وانا چا ہتے ہیں۔میں تیا ر ہو کر بتا دوں بھا ئی ان کو بتا دیں گے۔مجھے بہت عجیب لگ ر ہا تھا مگر مر تی کیا نہ کر تی سو جیسے ہی میں تیا ر ہوئی وہ اپنے کزن کے ساتھ تشر یف لے آئے۔میں نہیں چا ہتی تھی کہ وہ مجھے پہلے د یکھیں مگر افسوس میر ی سا ری خو اہشیں پو ری نہ ہو ئی۔تصو یروں کے دوران جب انھوں نے میرا ہا تھ پکڑا تو میں کا نپ ر ہی تھی جو انھوں نے بھی محسو س کر لیا اس کے بعد بس تصو یر یں بنا کر وہ چلے گئے اور میں نے شکر ادا کیا۔۔مگر جا تے جاتے میرے شر یک حیات کے اس فقر ے نے میر ے کا نوں میں شیر ینی گھو ل دی،کہ میں خو ش نصیب ہوں جو آپ کا ساتھ ملا -میں جب ہو ٹل پہنچی تو لوگوں کا ایک ہجوم اکھٹاتھا مجھے دیکھنےکےلیے۔۔بھاری بھر لہنگا اور زیورات پہن کے بیٹھنا مجھ جیسی لڑ کی کے لیے کسی قیا مت سے کم نہ تھا جس نے سا ری عمر ڈھنگ کے کپڑ ے ہی نہ پہنے تھے۔۔جب رخصتی کا وقت آیا تو میرے کا نو ں میں جو ایک آواز سب سے زیا دہ گو نج ر ہی تھی وہ یہ کہ پلیز یا ر رونا مت ورنہ میک اپ خراب ہو جائے گا۔۔مگر اس وقت آنسووں کا ایک سیلا ب تھا جو رک ہی نہیں رہا تھا۔آخر کار سب نے نم آنکھوں سے مجھے دعاؤں کے سا ئے میں میرے شر یک حیا ت کے ساتھ رخصت کر دیا،اور میرا سفر ایک نئی زندگی کی جا نب شر وع ہو گیا۔نئے گھر میں میرا شا ہا نہ استقبا ل کیا گیا۔۔ساری رسموں کے بعد مجھے میرے سجے سجا ئے کمرے میں پہنچا دیا گیا۔۔میں نے ایک نظر اٹھا کر کمرے کی سجا وٹ کو د یکھا اور دیکھتی رہ گئی ۔گلاب کے پھولوں اور پتیوں سے اس کمرے کو بڑے خو بصورت انداز میں سجایا گیا تھا۔میں آنے والے وقت اور زندگی کے با رے میں سو چ ر ہی تھی جب میر ے شر یک حیات کمرے میں داخل ہو ئے۔۔پہلی با ر دل کی دھڑکن اتھل پتھل ہوئی۔کچھ دیر خا موش رہنے کے بعد میر ا ہا تھ انھوں نے اپنے ہا تھ میں لیا اور ایک بہت ہی نا زک اور خو بصو رت ا نگوٹھی پہنا دی۔بہت سا رے عہد وپیماں کرنے کے بعد ہم نے نئی زندگی میں قدم رکھا۔صبح نما ز کے بعد میں نے شکرانے کے نفل ادا کیے اور اپنی نئی زندگی کے پہلے دن کا آغاز کیا۔
نا ز نخرےاٹھا تے وقت کب گز ر گیا پتہ ہی نہیں چلا۔شادی کے کچھ عر صے بعد انھو ں نے نو کر ی چھو ڑ دی اور ہم بڑ ے شہر شفٹ ہو گئے۔۔ادھر شفٹنگ سے کو ئی خو ش نہ تھا کیو نکہ میں حاملہ تھی اور سب پر یشا ن تھے کہ پہلا بچہ ہے اکیلی کیسے رہے گی مگر میں اپنے شر یک حیا ت کی طبیعت جا نتی تھی اس لیے چپ چا پ ان کے ساتھ چلی گئی۔شر یک حیا ت میر ا بہت خیا ل رکھتے تھے مگر کبھی کبھی بہت چڑ چڑ ے ہو جا تے تھے اور مجھ پر ہا تھ بھی اٹھا دیتے تھے۔عا م حا لا ت میں تو کو ئی با ت نہیں مگر دوران حمل جب وہ مجھ پر ہا تھ اٹھاتے تو میں ٹو ٹ جا تی تھی جسم سےزیا دہ میر ی روح گھا ئل ہو تی تھی مگر چونکہ وہ میرے شر یک حیات تھے اس لیے مجھے بر داشت کر نا تھا سب کیو ں کہ ہم لڑ کیو ں کو تو شر وع سے ہی یہ سب بتا یا جا تا ہے کہ شر یک حیا ت ہی آپ کا سب کچھ ہے۔میں نے کبھی اپنے گھر کچھ نہ بتا یا اور چپ چا پ دیکھتی رہی کہ یہ ہو کیا ر ہا ہے ایسی کیا با ت ہے جس نے ان کو اتنا پر یشا ن کیا ہو ا ہے۔
وقت پر نہ کھانے پینے سے میں بہت کمزور ہو گئی تھی اور ڈاکٹر بہت پریشا ن تھے کہ کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے لہذا مجھے اکیلا نہیں رہنا چا ہیے۔یہی با ت جب میں نے اپنے شر یک حیا ت سے کی تو وہ ہتھے سے اکھڑ گئے کہ میر ے گھر کو ئی نہیں آئے گا میں کا فی ہو ں تمھیں سنبھال لوں گا۔۔میں چپ ہو گئی اور گھر والوں کو جھوٹے دلا سے دے کر منع کر دیا۔۔پھر وہ دن آ گیا جس سے میں ڈر رہی تھی اور میر ے پیا رے شر یک حیا ت کا کچھ پتہ نہیں تھا فو ن بھی بند جا رہا تھا۔میں نے اپنے ما لک مکا ن کو بلا یا وہ آئی اور ساتھ محلے کی ایک اور عو رت کو لیا اور مجھے ہسپتال لے گئی۔۔ڈاکٹر نے خون کا انتظام کرنے کو کہا مگر ان کا کچھ پتہ ہی نہیں چل ر ہا تھا میں نے اپنے دیور کو فو ن کیا اور سا ری صورتحا ل بتا دی اس نے تسلی دی اور کہا بھا بی میں اسی شہر میں ہو ں اور بس پہنچتا ہوں یہ سن کر میرے ڈوبتے دل کو تسلی ہو ئی ۔۔مجھے لیبر روم شفٹ کر دیا گیا۔۔اور پھر درد سے لڑتے لڑتے مجھے ایک ننھی چیخ سنا ئی دی۔۔جس سے میر ے نڈ ھال و جو د میں جا ن آ گئی۔۔ڈ اکٹر نے مبا رک کے سا تھ بیٹی ہو نے کی نو ید دی۔۔اور اس ننھی گڑ یا کو لیکر با ہر چلی گئی۔۔جب مجھے کمرے میں شفٹ کیا تو میر ے دیورجواد کے سا تھ میر ے شر یک حیا ت بھی کھڑے تھے۔۔بہت شر مندہ سے مگر میں تو اپنی ننھی گڑیا کی آمد میں سب بھلا بیٹھی اور کہا بیٹی آپ کی طر ح ہے۔یہ سن کر وہ مسکر ائے اور ننھی پری کو ہا تھوں میں اٹھا کر کہا یہ میر ی پریساہے۔
دوسر ے دن مجھے ہسپتا ل سے گھر شفٹ کر دیا گیا۔۔تو وہا ں سب مو جود تھے۔۔سب بہت خوش تھے ایک دوسرے کو مبا رک با د دے رہے تھے ۔۔پتہ نہیں کیوں ان کو جتنا خوش ہو نا چا ہیے تھا وہ نہیں تھے وہ آ ج بھی کسی الجھن میں تھے سب نے اس با ت کو محسوس کر لیا۔مگر ہم سب سمجھ رہے تھے کہ شا ہد یہ کا م کی ٹینشن ہے۔۔مگر رات اس وقت مجھے اپنے کا نوں پر یقین نہ آیا جب انھوں نے کہا کہ صبح اپنے گھر والوں کوجا نے کا کہو میر ے کچھ خا ص دوست آ رہے ہیں ۔۔ مجھے سمجھ نہ آئے کہ کیا کروں ،اپنی ایسی حالت تھی کہ ہل بھی نا سکتی تھی اگر صبح یہ لو گ بھی چلے گئے تو کیا ہو گا۔رات اسی کشمکش میں گزر گئی ۔۔صبح میں نے بھا ئی کے آگے سا ری با ت رکھ دی ۔بھا ئی نے کہا مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگ ر ہا اس وقت اس کے ساتھ بحث کر نا ٹھیک نہیں ۔ہم جا تے ہیں تم اپنا خیا ل رکھنا۔مگر امی بضد تھی کہ وہ ادھر رہیں گی یا مجھے ساتھ لے کے جا ئیں گی وہ مجھے ایسے چھوڑ کر نہیں جا ئیں گی ،یہی جو اب میر ی ساس کا بھی تھا کہ ہم نہیں جا تے مگر میر ے بھا ئی نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہو ئے سب کو سمجھا یا کہ اس وقت سب کے جا نے میں بہتر ی ہے۔۔وہ تو گھر سے پہلے ہی نکل گئے تھے۔
سب کے جا نے کے بعد میں ایسے چیخیں ما ر ما ر کر روئی کہ اگرپری نہ روتی تو پتہ نہیں میں کب تک رو تی ر ہتی۔۔پریسا کو چپ کروانے کے بعد میں نے اپنے شر یک حیا ت کو فون کر کے صر ف اتنا بتا یا کہ سب چلے گئے ہیں۔۔پو رادن انتظا ر کر تے گزر گیا دل میں عجیب عجیب خیا ل آ رہے تھے کہ اللہ خیر کرے کدھر رہ گئے ہیں۔۔پھر شا م کو ان کا فو ن آ یا کہ آپ گیٹ کھو ل کر کمر ے میں جا ؤ میرے ساتھ مہمان ہیں۔مہمانوں کو بٹھاکر وہ میرے پا س آئے میں نے پو چھا کون آیا ہے ۔میرے ہا تھ کو نر می سے اپنے میں لیتے ہو ئے بو لے میں جو کہنے جا رہا ہوں تحمل سے سننا اور سو چ سمجھ کے فیصلہ کرنا۔ان کی با تو ں سے مجھے الجھن ہو رہی تھی میں نے کہا صا ف بتا ئیے کیا با ت ہے کیو ں میر ا دل ہولا رہے ہیں۔۔پھر انھوں نے جو کہا مجھے لگا میں کوئی برا خواب دیکھ ر ہی ہو ں ایسا کیسے ہو سکتا ہے مگر وہ خواب نہ تھا ایک کڑ وا سچ تھا۔کیو نکہ میر ے شر یک حیا ت کے مہما ن ان کی پہلی بیوی اور دو بچے تھے جو اسی وقت بیرون ملک سے آئے تھے۔میرے جسم میں تو سا نس ہی نہیں تھی۔میں نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور ان سے کہا پلیز آپ ابھی یہا ں سے چلے جائیں۔مگر وہ مجھے اپنے پیا ر کی دہائی دے رہے تھے کہ میں مر جا ؤں گا تمھہا رے بغیر میری مجبوری کو سمجھو۔۔کمرے سے جا تے ہو ئے انھوں نے کہا کہ کو ئی بھی فیصلہ کر نے سے پہلے پری کا ضرور سوچنا،اور میں کیا سو چتی اتنا بڑا د ھو کا میر ے ساتھ تقد یر نے کیا تھا یا میر ے شر یک حیا ت نے جو رشتہ قا ئم ہی ایک جھوٹ پر کیا گیا ہو اس پرکیا سوچنا ،میں نے اپنے بھائی کو فون ملا یا اور سا ری صورتحا ل بتا دی ۔۔بھائی نے مجھے حوصلہ دیا اور کہا ہمت سے کام لو اور اس کے ساتھ کو ئی ایک با ت کرو دیکھو وہ کیا کہتا ہے۔بھا ئی سے با ت کرنے کے بعد میں نے سو چا مجھے با ت کر نی چا ہیے۔۔ان کو بلا یا اور پو چھا کہ اب وہ کیا کریں گے۔شر یک حیا ت کے جواب سے تو مجھے پتنگے لگ گئے مو صوف فر ما رہے تھے کہ دونو ں کو اس گھر میں ایک ساتھ رہنا ہو گا ۔میں نے صا ف انکا ر کر دیا کہ میں نہیں رہ سکتی تب اس وقت ان کا پیار سو رہا تھا جس کی وہ مجھے کچھ دیر پہلے یقین دہانی کروادے ر ہے تھے کیوں کہ انھوں نے کہا ٹھیک ہے پھر آپ صبح اپنے بھا ئی کو بلا لو اور گھر چلی جا ؤ۔اور،تین دن کی ننھی جا ن کو لیکر جب میں اپنے بھا ئی کے ساتھ واپس گھر آ رہی تھی تو سو چ رہی تھی کہ سا ری عمر میری ماں یہ دعا کر تی رہی کہ اے اللہ میر ی بیٹی کو ہر بلا سے محفوظ رکھنا تو کیا میں محفوظ ہوں ؟؟
گھر میں کسی کو حقیقت نہ پتہ چلے اس لیے میں نے اپنے آنسو صا ف کیے اور خو شی خوشی گھر میں دا خل ہو گئی۔سب سے ملنے کے بعد بیٹی کو امی کی گود میں دیا اور خو د ٹیک لگا کے بیٹھ گئی۔۔ مگر ماں کی نظر یں تو میر ا بجھا چہر ہ پڑھ رہی تھی اور با ر بار ایک ہی سوال تم ٹھیک تو ہو؟ رنگ کیو ں اتنا زرد ہو رہا ہے اور میں نے جھو ٹ کے ریکاڈ توڑ دیے کہ بہت خوش ہوں بس سفر کی تھکا وٹ ہے۔سب خوش تھے پریسا کو لیکر مگر ایک میں اور ایک میرا بھا ئی تھے جو اندر سے خالی تھے اور کھو کھلی ہنسی ہنس ر ہے تھے۔۔ایک ہفتہ گزرنے کے بعد پتہ چلا کہ وہ شخص جو میر ا شر یک حیا ت ہے اور مجھ سے پیار کے بڑے بڑے دعوے کرتا تھا مجھے اکیلا چھوڑ بنا بتائے اپنی پہلی بیوی کے ساتھ بیر ون ملک چلا گیا۔یہ خبر میرے لیے کسی قیا مت سے کم نہ تھی۔
میں نے سو چا میں تو مر جا ؤں گی مگر کچھ نہ ہو ا میں زندہ تھی اور مجھے ان حالات کا سا منا بھی کر نا تھا۔۔اس کڑ ے وقت میں بھی میرے بھا ئی نے میر ا ساتھ دیا اور کہا کہ کسی کو ابھی کچھ بتا نے کی ضرورت نہیں لو گ ہنسیں گےایسا کرو پری کو ادھر چھوڑو اور کہو کہ ان کا اچا نک با ہر کا کام ہو گیا ہے ایمرجنسی میں جا نا پڑ ر ہا ہے تو میں بس جا رہی ہو ں ان کی تیا ری کرنی ہے ان کے پاس زیا دہ ٹائم نہیں ورنہ وہ خود آتے ہمیں لینے ۔با قی میں سنبھا ل لو ں گا پھر میں نے ایسا ہی کیا گھر بتا کر اسلام آباد اپنی دوست کے پا س چلی آئی۔۔اور دو دن کے بعد واپس جا کر کہہ دیا کہ میر ے شر یک حیا ت بیرون ملک چلے گئے۔۔اب مجھے اپنی زندگی پھر سے شروع کر نی تھی اپنی بیٹی کے لیے جینا تھا غموں کو سینے میں دفن کر کے تا کہ کو ئی میرے چہر ے سے کبھی میرا غم نہ جا ن سکے ۔۔
پھر کیا، وقت کا کام تھا چلنا سو وہ چلتا رہا ۔۔وقت کی سب سے اچھی با ت چا ہے اچھا ہو یا بر ا رکتا نہیں۔۔میرا وقت بھی گزر ر ہا تھا ایک جگہ پھر سے نوکری شروع کر دی۔۔دن آفس کے کا موں میں گزر جا تا رات پری کے ساتھ کھیلتے کھیلتے۔۔اسی طر ح بھا گتے بھاگتے زندگی کے چا ر سال گزر گئے۔ ان چا ر سالوں میں بہت سے لوگ آئے جو میرا ہا تھ تھا مناچا ہتے تھے مگر زندگی کے ایک تلخ تجر بہ نے مجھے بہت سا ری حقیقتو ں سے رو شنا س کرا دیا تھااور پھر دوبارہ میں چاہ کر بھی کسی پر اعتما د نہ کر سکی۔۔کیو نکہ اب میں نے اپنے با رے میں سو چنا چھو ڑ دیا تھا اب میر ی زند گی کا مقصد پر یسا ہے مجھے اس کے لیے جینا اور کچھ کرنا ہے۔ جب زند گی میں ہما رے پیا رے ہم سے دور ہو جا تے ہیں یہ تما م تو نہیں مگر دشوار ضر ور ہو جا تی ہے ۔ زندگی کے کھیل بھی عجیب ہیں کو ئی درد سے بھا گتا ہے تو کسی کو دردمحسو س نہیں ہو تا۔۔
میر ے شر یک حیا ت کے با رے میں پھر کبھی، مجھ سے میرے گھر والوں نے نہ پو چھایا تو مجھ پر یقین کر لیا تھا یا بھا ئی نے سب کو سمجھا دیا تھا مگر ایک سکون تھا کہ سب گھر والے میر ے ساتھ تھے۔۔اس عر صے میں ایک با ر بھی وہ جو میر ا شر یک حیا ت تھا میر ی زند گی تھا دکھ سکھ کا سا تھی تھا اس نے ایک با ر بھی پلٹ کر ہما رانہ پو چھا جس کی پھا نس اب بھی کبھی کبھی درد دیتی ہے۔۔
میں سو چتی ہوں بچپن سے کیا ایسے مر د یا شر یک حیا ت کا میں سنتے آئی تھی کہ عورت مرد یا شر یک حیات کے بغیر ادھوری ہے ۔کیا شر یک حیا ت ایسا ہو تا ہے۔جو آپ کو بیچ منجدھار چھوڑ کر چلا جائے۔۔مر د کو تو عورت کا سایہ کہتے ہیں جو کبھی ساتھ نہیں چھوڑتا ۔۔کیا ایسا ہو تا ہے سا یہ۔۔اگر مجھے پتہ ہو تا کہ شر یک حیا ت ایساہو تا ہے تو میں کبھی شا دی نہ کرتی۔۔
عورت مر د کے بغیر جی تو لیتی ہے مگر مر دوں کے اس معا شر ے میں ا کیلی عورت کا جینا بھی کسی عذاب سے کم نہیں۔۔

Facebook Comments

عاصمہ روشن
ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والی عاصمہ روشن نے بین الاقوامی تعلقات عامہ میں ماسٹر کی ڈگری کیساتھ ساتھ اردو میں بھی ماسٹر کیا ہے اور ابھی ایم فل کی طالبہ ہے -پڑھنے اورلکھنے کی کوشش بچپن سے ہیں- غیر سرکاری اداروں کیساتھ کام کرنے کا تجربہ رکھتی ہیں اور اس وقت شعبہ صحافت سے وابستہ ہے-

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply