پروفیسر سلمان حیدر کی گمشدگی

پروفیسر سلمان حیدر کی گمشدگی
عامر ہاشم خاکوانی
آج ایک خبر میں بتایا گیا کہ سوشل میڈیا پر متحرک سیکولر سوچ رکھنے والے چار بلاگرز پچھلے چند دنوں کے دوران لاپتہ ہوئے ہیں۔ ان میں اسلام آباد کے پروفیسر سلمان حیدر قابل ذکر ہیں، ایک اور لاپتہ بلاگر کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ پولیو کے مریض ہیں۔ پروفیسر سلمان حیدر کو میں نہیں جانتا، اتفاق سے ان کی تحریریں بھی نہیں پڑھ سکا یا شائد نام پر غور نہیں کیا۔ بعض ٓویب سائٹ پر سلمان حیدر کے حوالے سے تاثراتی کالم شائع ہوئے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بعض پیجز، گروپس جیسے روشنی، بھینسا وغیرہ بھی غائب یا غیرفعال ہوگئے ہیں اور شائد یہی لاپتہ افراد ہی ان پیجز کے ایڈمن تھے ۔ اتفاق سے ان پیجز کو بھی میں نہیں جانتا، روشنی کا ایک آدھ بار وزٹ کیا، اس میں ایک خاص قسم کے الٹرا سیکولر نقطہ نظر کی تحریریں شائع ہوتی تھیں، مگر معتدل تحریریں بھی یہاں پر موجود ہیں۔ بھینسا البتہ ایک نہایت فضول قسم کا پیج تھا، بعض لوگوں نے پچھلے کچھ عرصہ میں اس کے سکرین شاٹس شیئر کئے جن سے یہ مذہب مخالف بلکہ مذہب اور خدا، اس کے پیغمبروں کی توہین کرنے والا پیج تھا۔ اگر سلمان حیدر یا کسی اور کا بھینسا سے تعلق ہے تو یہ بہت افسوسناک بات ہے۔ بھینسا کے ایڈمنز پر یقینی طور پر قوانین کی خلاف ورزی کا مقدمہ چلایا جانا چاہیے ، مگر یہ سب ریاستی قانون کے مطابق کیا جائے، جس میں ملزم کو اپنی صفائی کا حق ملنا چاہیے۔
پروفیسر سلمان حیدر ہوں یا کوئی اور لبرل، سیکولر، لیفٹسٹ یا پھر کوئی مذہبی رجحانات رکھنے والا رائٹسٹ جو پراسرار طور پر لاپتہ ہوچکا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری رائے میں ان سب کو وہ تمام حقوق ملنے چاہئں جو قانون انہیں دیتا ہے۔ اگر ان میں سے کسی پر کوئی الزام ہے تو قانونی تقاضے پورے کر کے شفاف عدالتی عمل کے ذریعے ہی سزا ملنی چاہیے۔ دین ، اخلاقیات، آئین کوئی انہیں یوں اٹھا لینے کی اجازت نہیں دیتے۔
میں سمجھتا ہوں کہ رائٹ ونگ کے لوگوں کو پروفیسر سلمان حیدر اور ان کے ساتھ اٹھائے گئے لوگوں کے گمشدگی کی کھل کر مذمت کرنی چاہیے ۔ لبرل ، سیکولر حلقے سے ہمارا فکری، نظریاتی اختلاف ہے، انشااللہ ہم دلیل کے ساتھ اپنی بات کہتے رہیں گے، لبرل سیکولر تھاٹس پر جو علمی اعتراضات ہیں وہ کرتے رہیں گے، مکالمہ کا یہ عمل جاری رہنا چاہیے، اگرچہ اس عمل کے دوران بسا اوقات لبرلز فاشسٹوں کی جانب سے مذہب کا تمسخر اڑانے والی تحریریں اور دل آزاری کی دانستہ کوششیں ہوتی ہیں، جن سے دکھ پہنچتا ہے ، تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ قانون ہاتھ میں لے کر کوئی شدت پسند ازخود انصاف کرنے پر تل جائے۔ ایسے انتہا پسندوں سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔ مذہب، فرقے، مسلک، قوم پرستی، فکری بنیاد، اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کے جرم یا اس طرح کے کسی اور معاملے میں کسی محکمے، ادارے کو یہ حق نہیں کہ وہ شہریوں کو اٹھا لیں۔ اگر ان لوگوں کو کسی شدت پسند گروہ نے اٹھایا، تب بھی اپنے شہریوں کی حفاظت کرنا حکومت اور ریاست کا کام ہے ۔ حکومت کا فرض ہے کہ انہیں بازیاب کرائیں ۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply