امام حسین اور مولانا جلال الدین رومی۔ثاقب اکبر/قسط2

اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ
شہیدان عاشق فنا و بلا ہستند ومی ترسند از روزی کہ بلا برایشان فرود نیابد کہ البلاء للولاء۔
اردو قارئین کے لیے ڈاکٹر علی حاجی بلند کے مطالب کا ترجمہ پیش خدمت ہے:
مسلمان وہ ہے کہ جس کے ہاتھ اور زبان سے سب سلامت ہوں۔ اسلام کا معنی ہے اللہ کے حضورتسلیم ہونا جس کا نتیجہ غیر خدا کے گزند اور آفت سے سلامتی ہے۔
مسلمان وہ ہے کہ جو ایک ذریعے سے اپنے آپ کو خدا کے حضور تسلیم کردیتا ہے، اپنے آپ کو اس کے سپرد کردیتا ہے تو اللہ بھی مدارج بالا میں اپنی الوہیت اس کے سپرد کر دیتا ہے۔
اے میرے بندے تو میری اطاعت کر میں تجھے اپنی مثل یا اپنی مثال بنا دوں گا۔
لہٰذا مسلمان ہونا ایک سپر ہے جسے مسلمان غیر خدا سے بچنے کے لیے اور حضور خدا میں سلامت رہنے کے لیے استعمال کرتا ہے تاکہ اس کی روح اور جان کو کوئی گزند یا نقصان نہ پہنچے اور مسلمانی کی سپر کو سلامت رکھنے کے لیے اسے چاہیے کہ کوشش کرے کہ پارسا اور متقی بن جائے۔ اس لیے فرماتے ہیں کہ جاؤ اور مسلمانی کی سپر کے ساتھ سلامت رہو اور کوشش کرو کہ پارساہو جاؤ۔

اس سے ماقبل کے شعر میں بھی فرماتے ہیں کہ مسلمان فدائی اور فدا کار ہوتاہے اور اس دنیا سے نقل کرنا اس کے نزدیک سلامتی ہی ہے، جب کہ عام لوگ اس دنیا میں بیماری کے نہ ہونے کو سلامتی سمجھتے ہیں، مولانا ایک مسلمان کی سلامتی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ تقویٰ کی سپر کے ساتھ محبوب کی خدمت میں اور اس کے جوار میں قرار پائے۔ ایک مسلمان کے لیے سلامتی، اسلام اور بارگاہ حق میں تسلیم ہونے کی انتہا اور حقیقی مسلمان کی آرزوؤں کا ہدف اصلی شہادت ہی ہے کہ جس کا ذکر مولانا بعد کے شعر میں کرتے ہیں اور کہتے ہیں ”کاین شہیدان زمرگ نشکیبند“ یعنی ان کی شدت تسلیم کا یہ عالم ہے کہ ان کی آرزو ہے کہ اپنا وجود خدا کے حضور پیش کردیں اور اپنی جان اس کے سپرد کردیں کیونکہ ”اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ“ اللہ نے مومنین سے ان کی جانوں کو خرید لیا ہے۔ شہداء فنا و بلا کے عاشق ہوتے ہیں اور وہ اس دن کے آنے سے ڈرتے ہیں کہ جب بلا وابتلا ان کے لیے نہ اترے کیونکہ ”البلاء للولاء“

غزل نمبر2707
دیوان شمس ہی کی غزل نمبر2707میں بھی مولانا نے بہت پرجوش انداز سے شہید کربلا کو یاد کیا ہے۔ آئیے ان کی اس ولولہ آفریں غزل پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
کجایید ای شھیدان خدایی
بلا جویان دشت کربلایی
کجایید ای سبک روحان عاشق
پرندہ تر ز مرغان ھوایی
کجایید ای شھان آسمانی
بدانستہ فلک را در گشایی
کجایید ای زجان و جان رھیدہ
کسی مر عقل را گوید کجایی
کجایید ای درزندان شکستہ
بدادہ وام داران را رھایی
کجایید ای در مخزن گشادہ
کجایید ای نوای بی نوایی
در آن بحرید کاین عالم کف او است
زمانی بیش دارید آشنایی
کف دریاست صورت ھای عالم
زکف بگذر اگر اھل صفایی
دلم کف کرد کاین نقش سخن شد
بھل نقش و بہ دل رو گر زمایی
برآ ای شمس تبریزی ز مشرق
کہ اصل اصل اصل ھر ضیایی
ان اشعار کا مفہوم کچھ یوں ہے:
اے شہدائے الٰہی! تم کہاں ہو؟اے رزم و ابتلا کی جستجو میں رہنے والو! تم کہاں ہو؟
اے سبک روح عاشقو! اے ہلکی پھلکی روحوں والے عاشقو! تم کہاں ہو
کہ تم تو فضاؤں میں اڑنے والے پرندوں سے بلند تر اور بہتر پرواز کرنے والے ہو۔
اے آسمانی شہابو! تم کہاں ہو چونکہ تم آسمان کے راستوں کو جانتے ہو اس لیے ہمارے لیے بھی آسمان کے دروازے کھول دو۔
اے جان اور مادی زندگی سے رہائی پا لینے والو! تم کہاں ہولیکن کیا کوئی عقل سے بھی پوچھتا ہے کہ تم کہاں ہو۔
کہاں ہو اے زندان کے دروازوں کو توڑ کر باہر نکل آنے والو!
اسیران قرض دنیا اور دنیاوی متعلقات میں اسیروں کو بھی نجات دلا دو۔
اے الٰہی خزانوں کا دروازہ کھول لینے والو! تم کہاں ہو اور اے بے نواؤں کی نوا! تم کہا ں ہو۔
تم تو اس بحر میں ہو کہ یہ جہان جس میں ہم رہتے ہیں، اس کی جھاگ ہے۔ تمھیں اس جہان سے آشنائی پائے ہوئے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے اور تم عالم باطن سے قدیم تر آشنائی رکھتے ہو۔
اس دنیا کی صورتیں سمندر کی جھاگ کی طرح ہیں اگر تم اہل صفا ہو تو اس جھاگ سے آگے بڑھ جاؤ۔
اس سخن اور کلام کو صورت دیتے دیتے میرا دل رنج و غم سے بھر گیا ہے اور پانی ہو گیا۔ اگر تم ہم میں سے ہو تو اس نقش وصورت کو چھوڑو اور ہمارے دل کی طرف رخ کرو۔
اے شمس تبریزی! تو مشرق سے نکل آ کہ ہر ضیاء و نور کی ایک اصل ہے اور پھر اس کی ایک اصل ہے اور پھر اس کی بھی ایک اصل ہے اور تو وہی ہے۔

اب ان مطالب کا کچھ تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں:
یہ غزل بہت وجد انگیزہے۔ بڑی بے ساختگی اور عالم وارفتگی کی مظہر ہے۔ شاعر کی ایک خاص کیفیت اس سے جھلکتی ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے دنیا ئے عشق کی کچھ شناخت اور مزاج عاشقی کی کچھ سدھ بدھ ضروری ہے۔ مولانا رومی مکتب عرفان و عشق میں روش ابن عربی کے ترجمان ہیں۔
وہ کربلا کے شہداء کو”شہیدان خدائی“ قرار دیتے ہیں یعنی راہ حق میں شہید ہونے والے۔ انھیں پکارتے ہوئے انھیں ”بلاجویان“ کہتے ہیں۔ ان کی نظر میں عاشق الٰہی ”بلاجو“ یعنی ابتلا و امتحان کی تمنا کرنے والے ہوتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ اللہ بڑے امتحانوں میں اپنے خاص بندوں ہی کو ڈالتا ہے جیسا کہ اس نے حضرت ابراہیم ؑ کے بارے میں فرمایا کہ
”وَ اِذِابْتَلٰٓی اِبْرٰھٖمَ رَبُّہٗ۔۔۔“ جب ابراہیم کے پروردگار نے انھیں ”ابتلا“ میں ڈالا اور ابراہیم اپنے رب کے ہر امتحان میں سرخرو ہو گئے تو فرمایا
”اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِاماما“اب ہم نے آپ کو سارے انسانوں کا پیشوا بنا دیا۔ قرآن حکیم میں یہ بھی ہے کہ جو کوئی ایمان کا دعویدار ہوگا اللہ اسے ضرور آزمائے گا۔ لہٰذا عاشقان الٰہی امتحان گاہ الٰہی کی طرف کشاں کشاں جاتے ہیں۔ان کی روحیں دنیاوی تمناؤں اور مادی آلائشوں سے پاک ہوتی ہیں۔ ان کے پَرِپرواز سبک بار ہوتے ہیں۔انھیں معلوم ہے کہ اس پرواز کے لیے، اڑنے سے پہلے پَرفشاں ہونا ہوتا ہے۔ پرندے تو نزدیک کی فضا میں تیر رہے ہوتے ہیں جب کہ عاشقان الٰہی جہان باطن کے طائر ہوتے ہیں، وہ عالم لاہوت کی طرف پرواز کناں ہوتے ہیں۔ علامہ اقبال انھیں ”طائر لاہوتی“ کہتے ہیں۔

ہم دنیاوی اور مادی شہابِ ثاقب کو جانتے ہیں جب کہ راہ خدا کے جاں باختگان آسمانِ معنی کے شہابِ ثاقب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ اس فلک کے دروازوں کو کھولنا جانتے ہیں جیسا کہ امیرالمومنین حضرت علیؑ فرمایا کرتے تھے کہ: پوچھو پوچھو مجھ سے اس سے پہلے کہ میں تم سے جدا ہو جاؤں، پوچھو مجھ سے کہ میں آسمان کے راستوں کو زمین کے راستوں سے بہتر جانتا ہوں۔ یہ عاشقان الٰہی اس دنیا کے امور کی نسبت فلک ہائے باطن کے راستوں کی زیادہ معرفت رکھتے ہیں۔

مولانا انھیں پکارتے ہیں کہ اے اس مادی حیات سے رہائی پانے والو! تم کہاں ہو؟ پھر خود ہی کہتے ہیں کہ کیا کوئی عقل سے بھی پوچھتا ہے کہ تم کہاں ہو؟ یعنی عقل ہوتی ہے لیکن ان مادی آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتی۔
مولانا کہتے ہیں کہ اے مادی دنیا کے زندان کے دروازوں کے توڑ کر نکل جانے والو! تم کہاں ہو ہم کہ جو قرضِ دنیا کے اسیر ہیں اور ابھی مادی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں، ہمیں بھی رہا کروا دو۔

اے الٰہی خزانوں کے دروازوں کو کھول لینے والو! اے معارف الٰہی تک جا پہنچنے والو! اے وراثت الٰہی کے حاملو! تم کہاں ہو کہ تمھیں ہو کہ جو بے نواؤں کی نوا بن سکتے ہو، ہماری فریاد اس قابل نہیں کہ مخزن الٰہی کے دروازے جس پر کھل جائیں، تم ہماری نوا بن سکتے ہو، دربار الٰہی میں ہماری فریاد پہنچا سکتے ہو۔
تم تو اس جہاں میں جا پہنچے ہو کہ ہماری دنیا جس کے لیے جھاگ کی حیثیت رکھتی ہے۔ جیسے سمندر کے اوپر جھاگ دکھائی دیتی ہے اور اس کے باطن، عمق اور گہرائی تک عام نظر نہیں پہنچتی اسی طرح اس مادی دنیا کو دیکھنے والی آنکھ کائنات کی حقیقتوں اورگہرے معارف تک نہیں پہنچتی لیکن اے شہیدان کربلا! تم اس عالم باطن تک جا پہنچے ہو، تم اس کی گہرائیوں کو پا گئے ہو، ہم سے بہت پہلے اللہ کی رضاؤں کے خزانوں کو تم نے پا لیا ہے۔

پھر اپنے آپ سے یا اپنا پیغام سننے والوں سے کہتے ہیں کہ اگر تم اہل صفا ہو تو پھر اس کف اور جھاگ سے آگے بڑھو اور معارف الٰہی اور باطن کائنات کا سراغ لگاؤ کیونکہ اس دنیا کی تمام مادی صورتیں سمندر کے جھاگ کی طرح ہیں۔
مولانا کہتے ہیں کہ ان عاشقانہ مطالب کی صورت گری کرتے کرتے میرا دل پانی ہو گیا ہے۔ ان مطالب کو بیان کرنا اور ان کا نقش لفظوں اور مصرعوں میں باندھنا کوئی آسان کام نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر تم ہم میں سے ہو اور قبیلہئ عشاق میں شامل ہونا چاہتے ہو تو پھر اس نقش و صورت سے آگے بڑھو اور دل کی دنیا کا سراغ لگاؤ۔

آخری شعر ایک اور گہرائی لیے ہوئے ہے۔ اس کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہر چیز کی ایک اصل ہوتی ہے، پھر اس کی ایک اصل ہوتی ہے اور پھر اس کی ایک اصل ہوتی ہے۔ انسان کو نہیں چاہیے کہ وہ پہلی منزل پر رک جائے۔ حقائق تہ در تہ ہوتے ہیں۔ کائنات اسی طرح سے ہے۔ قرآن حکیم کے بارے میں بھی فرمایا گیا ہے کہ اس کے بہت سے بطون ہیں۔ ایک راز کے پیچھے ایک اور راز ہوتا ہے اور پھر اس کے پیچھے ایک اور حقیقت جلوہ گر ہوتی ہے۔ لہٰذا اے شمس تبریزی! مشرق سے نکل آ کہ توہر اصل کی اصل ہے۔ ایک نور ہے، پھر اس کی اوٹ میں ایک اور نورہے اور پھر اس کے جلوؤں میں چھپا ایک اور نورہے۔ امام حسین ؑ اپنی ایک دعا میں بارگاہ حق میں عرض کرتے ہیں: یا اللہ میرے سامنے سے نور کے حجابوں کو ہٹا دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے:
اللھم ارنی الاشیا کما ھی
یا اللہ! چیزیں جیسی ہیں مجھے ویسی دکھا۔

مثنوی معنوی سے دو نظمیں
مثنوی معنوی میں مولانا مولوی جلال الدین رومی نے یوم عاشورا کے حوالے سے نکالے گئے ایک جلوس کی روداد کو نظم بند کیا ہے۔ یہ ایک جلوس کی حکایت ہے جو اہل حلب نے امام حسین ؑ اور کربلاکی یاد میں نکالا۔ مولانا کی بیان کی ہوئی حکایتوں میں ہمیشہ بہت عمدہ اور گہرے مطالب ہوتے ہیں اور ان کے پیش نظرکوئی عمیق سبق ہوتا ہے جسے وہ اپنے خاص انداز سے بیان کرتے ہیں۔ ان کے اسی انداز کو سامنے رکھتے ہوئے ان نظموں کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔
روز عاشورا ھمہ اھل حلب
باب انطاکیہ اندر تابہ شب
گرد آید مرد و زن جمعی عظیم
ماتم آن خاندان دارد مقیم
نالہ و نوحہ کنند اندر بکا
شیعہ عاشورا برای کربلا

بشمرند آن ظلمھا و امتحان
کز یزید و شمر دید آن خاندان
نعرہ ھاشان می رود در ویل و وشت
پر ھمی گردد ھمہ صحرا و دشت
یک غریبی شاعری از رہ رسید
روز عاشورا و آن افغان شنید
شھر را بگذاشت و آن سوی رای کرد
قصد جست وجوی آن ھیھای کرد
پرس پرسان می شد اندر افتقاد
چیست این غم برکہ این ماتم فتاد
این رئیس زفت باشد کہ بمرد
این چنین مجمع نباشد کار خرد
نام او والقاب او شرحم دھید
کہ غریبم من شما اھل دھید
چیست نام و پیشہ و اوصاف او
تابگویم مرثیہ ز الطاف او
مرثیہ سازم کہ مرد شاعرم
تا ازینجا برگ و لالنگی برم
آن یکی گفتش کہ ھی دیوانہ ای
تو نہ ای شیعہ عدو خانہ ای
روز عاشورا نمی دانی کہ ھست
ماتم جانی کہ از قرنی بھست
پیش مؤمن کی بود این غصہ خوار
قدر عشق گوش عشق گوشوار
پیش مؤمن ماتم آن پاک روح
شھرہ تر باشد ز صد طوفان نوح
ان اشعار کا مفہوم کچھ یوں ہے:
عاشورا کے دن تمام اہل حلب باب انطاکیہ میں جمع ہوتے ہیں اور رات تک اسی مقام پر اکٹھے رہتے ہیں۔
یہ خواتین و حضرات کا ایک عظیم اجتماع ہوتا ہے جو رسولؐ اللہ کے خاندان کا ماتم کرتا ہے۔
کربلا والوں کے لیے عاشور کے دن شیعہ نالہ و بکا کرتے ہیں اور نوحہ گر رہتے ہیں۔

اپنے نوحہ و بکا میں یہ لوگ ان مظالم اور ابتلاؤں کا ذکر کرتے ہیں جو اس خاندان نے یزید اور شمر کے ہاتھوں دیکھے۔
ان کے نعروں اور فریاد و واویلا کی آواز صحرا و دشت میں گونج اٹھتی ہے۔
ایک روز عاشورا کے دن ایک اجنبی مسافر وہاں آپہنچا جو ایک شاعر تھا۔ اس نے اس نالہ و فریاد کو سنا۔
اس کے کانوں تک آواز پہنچی تو اس نے شہر کی طرف جانے کا ارادہ کو چھوڑ کر اس شوروشین کا رخ کیا اور باب انطاکیہ کی طرف چل پڑا۔
اس نے وہاں جا کر حیرت سے پوچھا کہ یہ قصہ ء غم کیا ہے، تم کس کے لیے ماتم گزار ہو۔
یہ مرنے والا ضرور کوئی بڑاسردار تھا کہ اس مجمع کا اکٹھا ہونا کوئی معمولی سی بات نہیں۔
اس کا مجھے نام اور القاب بتاؤ اور اس کی شخصیت کی وضاحت کرو کیونکہ میں تو ایک اجنبی آدمی ہوں اور تم اسی جگہ کے رہنے والے ہو۔
اس کا نام کیا ہے، اس کا پیشہ کیا ہے اوراس کے اوصاف کیا ہیں؟ مجھے بتاؤ تاکہ میں اس کی خصوصیات پر مبنی مرثیہ کہوں۔
میں ایک شاعر ہوں، میں مرثیہ کہوں تاکہ میں یہاں سے کچھ کھانے پینے کو لے جاؤں۔
ان میں سے ایک نے کہا کہ کیا تم پاگل ہو، کیا تم شیعہ نہیں ہو اور کیا تم اس خاندان کے دشمن ہو۔
تمھیں نہیں پتہ کہ یوم عاشورا کیا ہے اور جس عزیز از جان کا یہ ماتم ہے وہ اکیلا ہی ایک سو سال کے لوگوں پر بھاری ہے۔
ایک مومن کے لیے یہ غم کیسے معمولی ہو سکتا ہے کیونکہ جو شخص ایک کان اور گوش کی قدر کرتا ہے وہ اس کان میں پڑے ہوئے گوشوارے کی بھی قدر کرتا ہے۔
اس روح پاک کا ماتم ایک مومن کے لیے حضرت نوحؑ کے سو طوفانوں سے زیادہ شہرت رکھتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مطالب پر ایک نظر:
اس نظم میں مولانا عزاداری کی ایسی ظاہری رسوم پر تنقید کرتے ہیں جن میں عزادار مقصدیتِ کربلا اور امام حسینؑ کے مقام باطنی سے بے خبر ہوگر واقعہ کربلا میں ہونے والے مظالم پر ماتم کناں ہوتے ہیں۔
انھوں نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اگر صرف ایک واقعے پر غم منانا ہے تو وہ واقعہ بہت پہلے رونما ہو چکا اور اگر ظاہری مادی جسم کے زخموں پر واویلا کرنا ہے تو خاک پر اظہارِ اندوہ بے معنی ہے۔ یہ درست ہے کہ شمر و یزید نے اس عظیم خاندان پر ایسے ظلم کیے کہ جن کی بازگشت ہر دشت و صحرا تک پہنچی، ہر اچھے برے انسان نے اس خبر کو سنا اور شاعروں نے اس پر مرثیے کہے اور بعض نے کچھ مادی مفاد کے حصول کے لیے بھی اپنے فن شعر گوئی کے جوہر دکھائے اور شہید ہونے والی عظیم ہستیوں کے بلند مرتبوں کے گیت گائے لیکن کربلا میں روز عاشورا اپنی جان قربان کر نے والی عظیم ہستی کسی عام صاحب جاہ و منصب کی طرح نہ تھی بلکہ وہ تو اعلیٰ صفات انسانی کے لیے ایک مجسم وجود کی حامل تھی۔ اس کا جانا گویا اعلیٰ اخلاق کریمہ کا جانا ہے۔ وہ اوصاف انسانی و الٰہی کے لیے بمنزلہئ جان تھے اور صدیوں میں پیدا ہونے والے سارے انسان ایک طرف اور وہ ایک طرف تھے۔
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply