سماجیات،دینیات اور فردیت کے مابین مکالمہ۔۔۔قُربِ عباس

“آپ کو شرم نہیں آتی بکنی پہنتے ہوئے؟”

“نہیں مجھے شرم نہیں آتی۔ بکنی پہننا گناہ نہیں ہے۔”

“بکنی پہننا گناہ نہیں ہے؟”

“ہاں، بکنی پہننا گناہ نہیں ہے، جو میرا جی چاہتا ہے میں کرتی ہوں۔”

“آپ ہماری ثقافت، ہماری تہذیب، ہماری اقدار پر دھبہ ہیں۔”

“اوکے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ میں گنہگار ہوں تو یہ معاملہ میرے اور خدا کے درمیان رہنے دیں۔ آپ اپنے کام سے کام رکھیں۔”

“آپ کو شرم نہیں آتی ایسی حرکتیں کرتے ہوئے؟ شریف گھروں کی لڑکیاں آپ جیسی لڑکیوں کی وجہ سے ہی میڈیا پر نہیں آتیں۔”

“اچھی بات ہے، شریف گھروں کی لڑکیاں میڈیا پر آکر کیا کریں گی؟ گھر بیٹھیں۔”

“آپ کو تھوڑی سی بھی شرم نہیں آتی؟”

“نہیں مجھے شرم نہیں آتی۔ لیکن آپ کو مجھ پر ہی کیوں اعتراض ہے؟ پہلے میڈیا پر کون سی نماز پڑھائی جا رہی ہے؟ اگر آپ کو اپنی سوسائٹی ٹھیک کرنی ہے تو اسٹیج شو کو ٹھیک کریں، مارنگ شو کو ٹھیک کریں، ڈراموں کو ٹھیک کریں جب سب کو نماز پڑھوا لیں تو پھر میری طرف آئیں۔”

“کیا آپ کو بالکل بھی ندامت نہیں ہے جو آپ کر رہی ہیں؟”

“بھئی کیوں ندامت ہو مجھے؟ میں جو چاہتی ہوں وہ پہنتی ہوں، جو چاہتی ہوں وہ کہتی ہوں، جو چاہتی ہوں وہ گاتی ہوں، جس کو پسند ہے وہ مجھے دیکھے، سُنے ،جسے نہیں پسند وہ مجھے اگنور کرے۔”

“مفتی صاحب آپ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ ہمارا مذہب اس کے بارے میں کیا کہتا ہے؟”

“دیکھیں قرآن میں بھی یہ بات واضح ہے کہ انسان کو لباس کے معاملے میں۔۔۔۔”

“او ہیلو! میری بات سنیں، مجھ پر فتویٰ لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں جانتی ہوں مجھے کیا کرنا ہے، کیا گناہ ہے کیا ثواب ہے۔۔۔ اور یہ معاملہ میرے اور خدا کے درمیان ہے، میرا ضمیر بالکل صاف ہے، میں جو کچھ بھی کر رہی ہوں بالکل مطمئن ہوں۔”

“دیکھیے ناظرین، ان کا کہنا ہے کہ ان کو بالکل بھی ندامت نہیں۔”

پردہ اٹھتا، روشنیاں ہوتیں۔۔۔ سماجیات، دینیات اور فردیت کا روز ایک تھیٹر چلتا، تنیوں کے درمیان دھواں دار قسم کا مکالمہ ہوتا، سماجیات اپنی اقدار کو روتا، دینیات اپنے احکامات کی روشنی میں اخلاقی پیمانے بتاتی۔۔۔ دونوں اس بات پر مصر ہوتے کہ فردیت اپنے گناہوں کا اعتراف کرے اور کہے کہ میں شرمسار ہوں، فردیت کو یہ قطعی منظور نہ تھا۔۔۔۔ وہ فقط اتنا کہتی۔۔
“مجھے اپنے ڈھنگ سے جینے کی پوری آزادی ہے اور اس آزادی پر میں شرمندہ نہیں ہوں۔”

آخر مصنف اکتا گیا، کوئی مناسب اختتام نہ مل پایا تو ایک دن اسٹیج کی سب قندیلیں بجھا دی گئیں اور تھیٹر کا پردہ گرا دیا گیا۔۔۔ سماجیات پشیمان ہوکر اپنے گھر گئی، دینیات خاموشی سے مسجد کے منبر پر جا بیٹھی اور فردیت کو کہیں اندھیروں کی اور دھکیل دیا گیا۔

———————

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ قندیل بلوچ کے کچھ ٹی وی انٹرویوز سے ماخوذ ہے۔ سوالات اور جوابات حقیقی ہیں۔۔۔ جو لوگ سمجھتے تھے کہ قندیل بلوچ ایک بیوقوف قسم کی لڑکی تھی، وہ جملوں پر غور کریں، بین السطور اس کے شعور کا اندازہ لگائیں اور یہ سوچیں کہ دراصل ناسمجھ کون تھا۔۔۔۔؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply