انسانیت، خوشی اور کڑواہٹ ۔۔۔ معاذ بن محمود

آج سڈنی کے اڈینا ہوٹل اپارٹمنٹس میں میرا آخری مکمل دن ہے۔ ۱۴ دن غیر اختیاری قرنطینہ میں گزارتے ہوئے میرے پاس اس نئے دیس کے مشاہدے کے لیے تین طریقے تھے۔ پہلا گیلری سے باہر جھانکنے کا جو سال نو کے آغاز پر بخوبی استعمال ہوا، دوسرافون جس کے ذریعے میں ہوٹل انتظامیہ کے علاوہ اسد، شایان بھائی اور احسان بھائی کے ساتھ ٹچ میں رہا۔ تیسرا ذریعہ ٹیلی وژن جس پر مقامی خبریں اور پروگرام اس ملک کے مشاہدے کا ایک طریقہ کار تھا۔ کل سے انشاءاللہ بنفس نفیس تجربات و مشاہدات کاآغاز ہوگا۔

کچھ دیر پہلے آسٹریلین براڈ کاسٹ ٹی وی پر ایک پروگرام لگا ہوا تھا جس کا نام Employable Me تھا۔ پروگرام کا مرکزی خیال آٹزم اور دیگر ذہنی مسائل کے شکار نوجوانوں کی زندگی خصوصاً روزگار کے لیے کوشش تھا۔ تین نوجوان جن میں دو لڑکے اور ایک لڑکی شامل تھی کی روزمرہ زندگی، ان کی آٹزم خصوصیات اس اس کے نتیجے میں زندگی پر پڑنے والے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسبروزگار کی تلاش پر فوکس تھا۔

پہلا نوجوان روہن ہے جس کا مسئلہ اینگژائٹی ہے۔ روہن نسبتاً  باتونی اور سوشل نوجوان ہے۔ آٹزم کا اس کی بولنے کی صلاحیت پرایسا اثر یہی ہے کہ وہ ایکسائٹمنٹ میں بولتا بہت زیادہ ہے۔ روہن کو جاب پلیسمنٹ سے پہلے مختلف کوگنائٹو ٹیسٹس سے گزارا جاتاہے جس کے بعد ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ روہن کسٹمر سپورٹ سے متعلق کسی شعبے میں اچھا پرفارم کرے گا۔ یاد رہے کوگنائٹوٹیسٹس میں سے ایک رینڈم انگریزی الفاظ دوہرانے کا امتحان ہوتا ہے۔ نارمل انسان چار سے پانچ الفاظ دوہرانے کی صلاحیت رکھتاہے تاہم روہن تمام ۱۵ الفاظ درست ترتیب میں دوہرانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ روہن کی یادداشت غیر معمولی ہے۔

کائیلا، ٹوریٹ سنڈروم کا شکار ہے۔ ٹوریٹ سینڈروم کے بارے میں معلوم انفارمیشن بہت کم ہے تاہم اس کے نتیجے میں انسان کےجسم کا کوئی حصہ غیر ارادی طور پر ایک مخصوص حرکت کرتا ہے اور غیر ارادی طور پر مخصوص آوازیں نکالتا ہے۔ کائیلا کے معاملےمیں سر اور گردن کا ایک جانب اچانک جھکنا اور ایک مخصوص آواز، اور انگریزی کے الفاظ Chicken اور Fuck غیر ارادی طور پرادا ہونا شامل ہیں۔ کائیلا کی کنڈیشن اینگژائٹی اور سٹریس کے وقت شدت پر ہوتی ہے۔ کائیلا موسیقی سے عشق کرتی ہے اور گٹاربھی بجاتی ہے۔ موقع دیا جائے تو گا بھی لیتی ہے۔ مزید برآں کائیلا اپنی پسند کے کام میں جس قدر مصروف ہوگی اس کا ٹوریٹ سینڈروم اتنا ہی کم یا نہ ہونے کے نزدیک ہوتا ہے۔

ٹِم آٹزم سپیکٹرم کا شکار ہے۔ آٹزم نے ٹم پر کچھ ایسا اثر ڈالا ہے کہ ٹم کسی سے بھی سوشل تعلقات قائم کرنے میں ناکام رہتاہے۔ کسی سے بات کرتے ہوئے کانفیڈینس کی شدید کمی، شرمیلا پن یہاں تک کہ  اکثر ہاتھ ملانے تک سے گریز اس کی کنڈیشن کااہم حصہ ہے۔ ٹم کے پاس Network Administration اور Application Development کے لیول ۴ سرٹیفیکیٹ موجود ہیں۔ مزیدبرآں کوگنائٹو ٹیسٹ میں ٹم کی غیر معمولی ذہانت سامنے آتی ہے تاہم ٹیم ورک کی قلت ہے۔

اب پروگرام کی ٹیم ان تینوں نوجوانوں کی جاب ہنٹ کی الگ الگ عکس بندی کرتی ہے۔ دو تین جگہ سی وی ڈراپ کرنا اور انٹرویودکھایا جاتا ہے۔ آٹزم سپیکٹرم کے شکار فرد کا عام زندگی میں انٹرایکشن یقیناً ایک کٹھن کام ہے جو ان تمام ریکارڈنگز سے ثابت ہوتاہے۔ ٹم اور کائیلا کے لیے عام لوگوں اور عام جابز میں انٹرایکشن خصوصاً ایک مشکل کام ہے۔

اس کے بعد تینوں نوجوانوں کو ڈیمو آفر کیا جاتا ہے جس میں کامیابی کی صورت میں مستقل ملازمت ان کی منتظر ہے۔

روہن کو ایک سیاحتی ادارہ آسٹریلیا کے ایک رین فاریسٹ میں گائیڈ کے طور پر بلاتی ہے۔ اگرچہ روہن ایک اچھا ڈیمو دیتا ہے تاہم دیکھا جاتا ہے کہ اس کا ضرورت سے زیادہ اور غیر ضروری باتیں کرنا سیاحوں کے لیے ایک اچھا تجربہ ثابت نہیں ہوتا۔ روہن یہ ملازمت حاصل نہیں کر پاتا اور پروگرام کے ریلیز ہونے تک ملازمت کا متلاشی تھا۔ روہن کی موجودہ سرگرمیوں کے بارے میں لنک ذیل یہ ہے۔

کائیلا کو دو تین کمپنیوں میں انٹرویو کے بعد ایک ہوٹل انتظامیہ ڈیمو کی درخواست کرتی ہے جہاں کائیلا کا کام میوزک سٹیج کا روزانہ سیٹ اپ اور میوزک فلور کی لائیو لائیٹنگ ہوگا۔ ایک دن ٹریننگ کے دوران کائیلا کی غیر معمولی دلچسپی دیکھ کر انتظامیہ کائیلا کوباقاعدہ جاب آفر کر دیتی ہے۔ کائیلا کو ملازمت کے پہلے دن ہی میوزک نائٹ کے اختتام پر لائیو پرفارمنس کا موقع بھی دے دیا جاتاہے۔ آج کائیلا اپنی ایک میوزک البم ریلیز کر چکی ہے اور متواتر آسٹریلیا ٹور پر ہوتی ہے جہاں وہ آٹزم سے متعلق آگہی پھیلاتی ہے۔ کائیلا کے متعلق مزید معلومات اس لنک پر دیکھی جا سکتی ہے۔

ٹم کو دو آئی ٹی کمپنیز ڈیمو کے لیے بلاتی ہیں۔ پہلی کمپنی ایک گیم ڈیولپمنٹ کمپنی ہے جو ٹم کو گیم میں بگز ڈھونڈنے اور ٹھیک کرنے کاموقع دیتی ہے۔ ٹم پورے دن کئی بگز نکالتا ہے۔ دن کے آخر پر کمپنی ٹم کو جاب آفر کرتی ہے تاہم آفس دور ہونے کے باعث ٹم معذرت کرتا ہے۔ یاد رہے، ٹم کا آٹزم سپیکٹرم ٹم کو لمبے دورانیے کے سفر کی راہ میں حائل رہتا ہے۔ دوسری کمپنی بھی ایک سافٹ وئیر ہاؤس ہے جس کا مالک ٹم میں خصوصی دلچسپی رکھتا ہے جس کی وجہ اس کی اپنی بہن کا آٹزم سپیکٹرم کا شکار ہونا ہے۔ یہاں ٹم کے کوگنائٹو ٹیسٹس ہوتے ہیں۔ ایک ٹیسٹ میں سے ایک امتحان پانچ عدد ڈائس (پانسوں) کا رول ہوتا ہے۔ ہر رول پر سامنے آنےوالے اعداد پر کوئی بھی مخصوص آپریشن یا آپریشن کا مجموعہ اپلائی کر کے ٹم کو نتیجہ بتایا جاتا ہے اور ٹم سے پوچھا جاتا ہے کہ الگردم کیا تھا۔ مثلاً پانچوں پانسے پھینکے جاتے ہیں اور پانچوں پر ایک آتا ہے۔ اب ٹم کو کہا جاتا ہے ۲۰۔ پھر سے پانسے پھینکے جاتے ہیں اور پانسوں پر ۳ آتا ہے۔ ٹم کو کہا جاتا ہے ۶۰۔ ٹم سے پوچھا جاتا ہے الگردم کیا تھا۔ ٹم دو بار دیکھ کر بتا دیتا ہے کہ ہر پانسے پرآنے والے ہندسے کو جمع کر کے مجموعی رقم کو چار سے ضرب دینا الگردم ہے۔ ٹم کو جاب آفر کر دی جاتی ہے۔

قارئین کرام یہ پروگرام خوشی اور فقط خوشی تھا۔ پاکستان ۸ ماہ رہنے کے بعد آسٹریلیا پہنچ کر ایک عرصے بعد انسانیت کو ایکشن میں دیکھا۔ آٹزم سپیکٹرم کا سامنا کرنے والوں کو میں کمزور تو نہیں کہوں گا البتہ ایک الگ مشکل سے نبرد آزما ضرور کہوں گا۔ یہ کنڈیشن خدا کی طرف سے امتحان یا چلیے اگر آپ خدا پر یقین نہیں رکھتے تو بھی، ان کی مرضی کے برخلاف عمر بھر ان کے ساتھ رہے گی۔اس معاشرے نے اس حقیقت کو مانتے ہوئے ان کے لیے آگے بڑھ کر کچھ کرنے کی کوشش کی۔ ایک پروگرام عکس بند کر کے انکے مسائل ان کی مشکلات کی بابت مجھ سمیت تمام کمیونٹی کے دل کا نرم گوشہ trigger کرنے کے لیے ایک عملی قدم اٹھایا۔ اوریہ سب کیوں کیا گیا؟ صرف اس لیے کہ معاشرے کے چند افراد (آسٹریلیا 0.7%، امریکہ 1.85%، کینیڈا 1.5%) کی زندگی جو باقی دنیا کی نسبت بہرحال آسان ہے کو مزید آسان بنایا جا سکے۔

یاد رہے میں زندہ انسانوں کی آسانی کے لیے کمیونٹی کے مثبت انسانیت سے بھرپور اقدامات پر خوش ہوں۔ اور اگر یہ وجہ خوشی کےلیے ایک جائز وجہ ہے تو پھر ہزاروں میل دور، کہیں اور کسی اور معاشرے میں ۱۴ انسانوں کو ذبح کر کے موت کے گھاٹ اتاراجانا، اور پھر ان کی تدفین کے لیے ریاست کے سربراہ کے آگے اپنے دکھ کو بیان کرنے کے مطالبے کو بلیک میلنگ قرار دینا، مجھےکہنے دیجیے کہ لہجے میں تلخی اور کڑواہٹ کے لیے ایک جائز توجیہہ ہے۔

ناقدین ممکن ہے شکایت کریں کہ کہاں کی بات کہاں ملا ڈالی۔ قارئین کرام میں ایک انسان ہوں جس نے جذبات و احساسات کوحوالۂ قرطاس کرنے کا ایک عرصے سے تہیہ کیا ہوا ہے۔ جس معاشرے میں میرا بچپن گزرا جوانی گزری جہاں میرا خاندان اب بھی زندہ رہنے کی کوشش میں کوشاں ہے، کے بارے میں میرے بھی چند خواب ہیں۔ ایسے ہی خواب ہزارہ کمیونٹی کے بھی ہوں گےکہ وہ بھی گوشت پوست کے بنے انسان ہیں جن کے جذبات، احساسات ایک حقیقت ہیں۔ دنیا کے ایک حصے میں معاشرے کی اعلی ترین شکل جبکہ دوسرے میں بدترین شکل دیکھتا ہوں تو لہجے میں نہ چاہتے بھی تلخی آجاتی ہے۔

ہم اس معاملے کو مسلکی رنگ دے ڈالیں یا سیاسی، سوال یہ ہے کہ کیا ذبح ہونے والے مزدوروں کے خواب نہیں ہوں گے؟چلیں میرے آپ کے خوابوں سے موازنہ چھوڑ دیتے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا مرنے والے ایک اور فقط ایک خواب، کہ وہ زندہ رہ سکیں، بھی پورا ہونے کا حق نہیں رکھتے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

اور پھر آپ پوچھتے ہیں کڑواہٹ کیوں؟

Facebook Comments