ملامتی کرونے۔۔آصف محمود

کرونا وائرس کا تو، انشاء اللہ، آٹھ دس ماہ میں کوئی نہ کوئی علاج سامنے آ ہی جائے گا ، سوال یہ ہے ان’’ ملامتی کرونوں‘‘ کا کیا علاج ہے؟یہ لاعلاج ہی رہیں گے یا کہیں کوئی طبیب حاذق ہے جو اس ناسور سے ہمیں نجات دلا سکے؟ ملامتی کرونا کیا ہوتا ہے؟ آئیے پہلے اس موذی وائرس کو جان لیجیے کہ یہ ہوتا کیا ہے ، پایا کہاں جاتا ہے اور اس کے اثرات کتنے مہلک ہیں؟جس طر ح کیوی ایک پرندہ ہے جو پالش کی ڈبیا پر پایا جاتا ہے اسی طرح یہ ملامتی کرونے سوشل میڈیا پر جائے جاتے ہیں۔ان میں کچھ انتہائی مقامی ہیں اور کچھ کو زعم ہے وہ بہت گلوبل قسم کے کرونے ہیں۔دنیا میں کہیں کچھ ہو جائے یہ پاکستانی سماج کو لعن طعن شروع کر دیتے ہیں۔ یہ مثالیں دے دے کر بتاتے ہیں کہ فلاں اور فلاں ملک میں تو ایسا اور ویسا کمال ہو گیا تھا لیکن پاکستان ایک جاہل ، گنوار ، بد تہذیب اور غیر انسانی معاشرہ ہے یہاں تو سرے سے خیر کا کوئی امکان موجود ہی نہیں۔ دنیا میںتو انسان دوستی ، محبت اور ہمدردی کے چشمے پھوٹ رہے ہیں بلکہ یہ ایک پاکستانی سماج ہی ہے جو جہالت، سفاکیت ، بے رحمی اور بد بختی کی علامت بن کر زمین کا بوجھ بنا ہوا ہے۔ کرونا وائرس آیا تو یہ ملامتی کرونا وائرس ایک بار پھر متحرک ہو گئے۔ ہر سماج کی اپنی کچھ خوبیاں ہوتی ہیں اور کچھ خامیاں۔ لیکن انہوں نے صبح شام پاکستانی سماج کو لعن طعن شروع کر دی۔ کوئی ہمیں بتاتا کہ دیکھیے امریکہ میں جب ایک بچے کے باپ نے فون کیا کہ بچے کو برتھ ڈے وش کرنے والا کوئی نہیں تو پولیس نے کیسے آ کر اس بچے کو وش کیا۔ اس کے بعد قوالی شروع۔قوال وجد میں اور ہمنوا آپ سے باہر۔ یہ تو صرف مہذب دنیا میں ہو سکتا ہے جناب ۔ آہ ہمارے پاکستان میں ایسی انسان دوستی کہاں صاحب۔ ہمیں کیا معلوم انسان دوستی کیا ہے جناب والا، انسان دوستی کیا ہوتی ہے ادھر مغرب میں آ کر دیکھیے۔ اس قوالی کے بہت سارے مقامات آہ و فغاں سے قطع نظر ، سوال یہ ہے کہ کیا یہ منظر کشی اور یہ نتائج فکر درست ہیں؟ کچھ کرونے ایک اور راگ الاپنے لگ گئے۔طرح طرح کے لطائف بننے لگ گئے کہ حاجی صاحب مہنگی چیز بیچ کر شام کو مسجد میں اللہ سے دعا کریں گے کہ کرونا سے نجات دلا دے۔مولوی صاحب دس روپے کا ماسک پچاس روپے میں بیچ کر اللہ سے پناہ مانگیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔یعنی پاکستان کا ہر مذہبی آدمی ، ہر تاجر بے ایمان ہے اور مساجد میں جا کر اللہ کو یاد کرنے والوں کے پیٹ میں لقمہ حرام ہے۔ایک ہی سانس میں ان ملامتی کرونوں نے پورے معاشرے کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔ سوال وہی ہے: کیا یہ منظر کشی اور اور یہ نتائج فکر درست ہیں؟ کیا واقعی پاکستانی سماج اتنا ہی برا ہے جتنا یہ ملامتی کرونے پیش کر رہے ہیں۔کیا یہ درست نہیں کہ جب کرونا وائرس کی وبا آئی تو ہمارے ڈاکٹرز نے بے سروسامانی کے عالم میں ، شاپر اوڑھ کر اپنے فرائض انجام دیے۔کیا ہماری پولیس نے ایک دن بھی کسی چوک چوراہے میں کرونا کے ڈر سے فرائض انجام دینے سے انکار کیا؟ ذرا باہر نکل کر تو دیکھیے ، بیس روپے والا ماسک اوڑھ کر بے چارے گلی گلی اپنا کام کر رہے ہی، یہ بھی صاحب اولاد ہیں ، ان کی سلامتی کے لیے بھی کسی کے دل دھڑکتے ہوں گے۔کیا ان کے لیے تحسین کا ایک لفظ نہیں؟ ملامتی کرونوں کے ہاتھ سوشل میڈیا لگ گیا ہے تو کیا یہ لازم ہے وہ ایک ناسور کا روپ دھار لیں؟ کیا پاکستان میں ، اس ساری غربت کے باوجود ، ایک آدمی بھی بھوک سے مرا ہے؟ کیا کسی کو الخدمت کا غیر معمولی کام نظر نہیں آ رہا؟ خدمت خلق میں صرف وقت اور پیسہ ہی نہیں الخدمت اپنے قیمتی ڈاکٹر کی جان کا نذرانہ بھی پیش کر چکی ہے۔کیا دنیا بھر میں کرونا وائرس کی اس وبا میں خدمت کی کوئی ایسی مثال پیش کی جا سکتی ہے جو الخدمت نے انجام دی ہے؟کیا ہنگری کی طرح پاکستان میں اسلحے کی ’’ Panic Buying‘‘ ہوئی اور لوگوں نے معمول سے پانچ گنا زیادہ اسلحہ یہاں بھی اس خوف سے خریدا کہ اپنے ہی ہم وطن لوٹ مار کو نہ آ جائیں؟ پاکستان تو معاشی طور پر کمزور ملک ہے ، یہاں حکومت عام آدمی کو بہت ریلیف دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں لیکن کیا پاکستان میں بھی لوگ ٹائلٹ پیپر کے اوپر ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوئے؟ کیا یہاں بھی جنوبی افریقہ کی طرح مارکیٹیں لوٹی گئیں؟ کیا پاکستان میں بھی سپین کی طرح کوئی حکم جاری ہوا کہ کرونا کے ہر مریض کا علاج نہ کیا جائے بلکہ پہلے دیکھ لیا جائے کہ کس مریض کی potential valueزیادہ ہے؟ پاکستان میں غربت ہے ، یہاں ہیلتھ انشورنس بھی نہیں ہے ، تعلیم بھی نایاب اور مہنگی ہے ، روزگار کے مواقع بھی بہت کم لیکن اس کے باوجود معاشرے میں خیر کی غیر معمولی قوت موجود ہے۔سٹینفرڈسوشل انوویشن ریویو کے مطابق پاکستان اپنی جی ڈی پی کا ایک فیصد خیرات کرتا ہے۔ یہ اوسط امریکہ کینیڈا اور برطانیہ کے برابر ہے۔ خط غربت سے اوپر یا نیچے کو چولہے میں ڈالیے ، اعدادوشمار کے مطابق 98پاکستانی کسی نہ کسی شکل میں خیرات کرتے ہیں۔ یہاں ایدھی جیسا غیر معمولی ادارہ کام کر رہا ہے۔چھیپا ہے۔الخدمت ہے۔ ڈکٹر امجد ثاقب کا اخوت ہے۔اسلامک ریلیف ہے ، مسلم ہینڈز والے ہیں۔اور کتنے ہی غیر معمولی ادارے ہیں۔گننے لگیں تو شام ہو جائے ۔پھر یہ کہ افراد اپنی ذاتی حیثیت میں بھی بروئے کار آتے ہیں اور بعض تو کمال کر دیتے ہیں۔ خامیاں کہاں نہیں ہوتیں ؟ محرومیوں اور مسائل میں دوبے اس سماج میں بھی بہت خامیاں ہوں گی لیکن ایسا نہیں کہ ہم خوبیوں سے محروم ہے اور اب ملامتی کرونے ہمیں بتائیں کہ دنیا میں تو بڑی انسان دوستی کے چرچے ہیں بس ایک ہم ہی رہ گئے ہیں جنہیں تہذیب اور انسان دوستی چھو کر نہیں گزری۔ انتہائی مقامی اور گلوبل ہر دو طرح کے ملامتی کرونوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ حقائق وہ نہیں جن کا یہ وائرس ابلاغ کر رہے ہیں۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply